تاریخ میں پہلی بار مشرق ِوسطیٰ میں بننے والا سپر کمپیوٹر دنیا کے دس طاقتور ترین کمپیوٹروں کی فہرست میں شامل

منگل 14 جولائی 2015 09:17

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14 جولائی۔2015ء)تاریخ میں پہلی بار مشرق ِوسطیٰ میں بننے والا ایک سپر کمپیوٹر دنیا کے دس طاقتور ترین کمپیوٹروں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔شاہین ٹو نامی یہ کمپیوٹر کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں موجود ہے۔ اس کمپیوٹر میں کرے XC40 نامی پروسیسر نصب ہے اور یہ دنیا کا ساتواں طاقتور ترین کمپیوٹر ہے۔

اس بات کی تصدیق ’ٹاپ فائیو ہنڈرڈ‘ نامی ادارے نے کی جو دنیا بھر میں سپر کمپیوٹروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے۔چین کے ’تائن ہے2‘ نامی سپر کمپیوٹر نے پہلی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔شاہین ٹو کے اعزاز کا اعلان ’ٹاپ فائیو ہنڈرڈ‘ نے اپنی درجہ بندی میں کیا جو سال میں دو بار شائع ہوتی ہے۔شاہین ٹو کی رفتار 5.536 پیٹا فلاپ ہے۔

(جاری ہے)

کنگ عبداللہ یونیورسٹی نے اس سسٹم کی خریداری، تنصیب اور چلانے پر آٹھ کروڑ ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔

اس سے پہلے اس کی جگہ استعمال ہونے والا کمپیوٹر اس سے 25 گنا کم طاقت ور تھا۔کنگ عبداللہ یونیورسٹی نے اس سسٹم کی خریداری،اس کے نصب کرنے اور اس کے چلانے پر اسی ملین ڈالر کی رقم خرچ کی ہییہ سپر کمپیوٹر دو لاکھ پروسیسرز کا استعمال کرتا ہے، جو چھ ہزار سے زائد نوڈز کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ اس میں 17.6 پیٹا بائٹ سٹوریج کی گنجائش ہے اور اس کی مرکزی میموری 790 ٹیرا بائٹ پر مشتمل ہے۔

اس کے مقابلے میں اول نمبر پر آنے والے چینی کمپیوٹر میں 16 ہزار نوڈز ہیں اور اس کی پیٹا فلاپ کی صلاحیت 33.86 ہے۔ایک پیٹا فلاپ کی رفتار تقریباً چار کھرب کیلکیولیشنز فی سیکنڈ ہے، جبکہ یہی کام اگر ایک انسان کرے تو اسے 32 ہزار سال کا عرصہ لگے گا۔اس مشین کو سعودی عرب میں کرہوائی کی حرکیات، ہوائی جہازوں کے انجنوں کی پیدا کردہ ٹربیولنس اور قابلِ تجدید توانائی پر تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

کنگ عبداللہ یونیورسٹی کے صنعتی شراکت دار اس مشین کو معدنیات کی کھوج، معدنی ایندھن اور خام مال کی پراسیسنگ میں مدد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔’ٹاپ فائیو ہنڈرڈ‘ نے ایک بلاگ میں کہا کہ دنیا بھر میں کمپیوٹروں کی طاقت میں حالیہ عرصے میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کی وجہ سے گذشتہ کچھ عرصے میں نئے سپر کمپیوٹر کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں۔ دس بہترین کمپیوٹروں کی فہرست میں زیادہ تر کا شمار ان کمپیوٹروں میں ہوتا ہے جو 2011 یا 2012 میں بنے تھے۔

متعلقہ عنوان :