پی آئی اے میں استعمال ہونیوالے جیٹ فیول کے ریکارڈ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کا انکشاف ،ایک ہی جہاز کے زریعے مختلف فلائٹس کے دوران کئی سو گنا زائد جیٹ فیول خرچ ، قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، آڈٹ حکام کی جانب سے طلب کرنے کے باوجود انتظامیہ نے ریکارڈ فراہم نہیں کیا

بدھ 9 ستمبر 2015 09:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9ستمبر۔2015ء) پاکستان کی قومی ائیرلائن( پی آئی اے) میں استعمال ہونے والے جیٹ فیول کے ریکارڈ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کا انکشاف ہوا ہے ،ایک ہی جہاز کے زریعے ایک ہی مسافت پر مختلف فلائٹس کے دوران کئی سو گنا زیادہ جیٹ فیول خرچ کرکے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے ، آڈٹ حکام کی جانب سے تمام ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کے باوجود انتظامیہ نے ریکارڈ فراہم نہیں کیا ہے ۔

(جاری ہے)

خبر رساں ادارے کو ملنے والے دستاویزات کے مطابق پی آئی اے کے جہازوں میں استعمال ہونے والے اربوں روپے کے جیٹ فیول کے استعمال کے ریکارڈ میں شدید بے قاعدگیاں پائی گئیں ہیں پی آئی اے کے ایک ہی جہاز کے زریعے ایک ہی طرح کی مسافت طے کرنے کے باوجودجیٹ فیول کے اخراجات میں کئی سو گنا فرق پایا گیا دستاویزات کے مطابق جنوری 2012سے جون 2012کے دوران اندرون ملک اور بیرون ملک 4408پروازوں کے دوران مجموعی طور پر 61ارب 48کروڑ روپے سے زائد کا جیٹ فیول خرچ کیا گیادستاویزات کی چھان بین کی دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ جیٹ فیول کے استعمال کا ریکارڈ درست طریقے سے نہیں رکھا گیا ہے اور ایک ہی طرح کی پروزاوں میں کئی سو گنا زیادہ جیٹ فیول کااستعمال ظاہر کیا گیا ہے ریکارڈ کے مطابق پی آئی اے کی مختلف اندرون ملک اور بیرون ملک پروازوں کید وران جیٹ فیول کے استعمال کے اعداد وشمار میں بہت ہی زیادہ فرق پایا جاتا ہے اور بعض اوقات تو یہ فرق کئی سو گنا تک چلا گیا ہے اس سلسلے میں نومبر2013اور جنوری 2015کے دوران پی آئی اے کی ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی نے جیٹ فیول کے استعمال کی تمام تر رسیدیں طلب کی ہیں مگر تاحال اس سلسلے میں کسی قسم کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا ہے دستاویزات کے مطابق جولائی 2012سے دسمبر2012کے دوران اندرون ملک اور بیرون ملک پروازوں میں بھی بڑے پیمانے پر جیٹ فیول کی بے قاعدگیاں کی گئیں ہیں جن کے بارے میں بھی ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی نے اعتراضات کئے ہیں اور تمام تر ریکارڈ طلب کیا ہے مگر ابھی تک اس کا بھی کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی پی آئی اے کی انتظامیہ نے اس سلسلے میں کسی قسم کی انکوائری کرانے کی ضرورت محسوس کی ہے ۔

متعلقہ عنوان :