61 اشیاء پر پہلی بار 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ،40 ارب کا خسارہ پورا کرنے کیلئے لگژری اور امپورٹڈ اشیاء پر ٹیکس لگایا گیا،منی بجٹ امیروں کیلئے بنایا،امیروں سے ٹیکس لینے دیا جائے، آرڈیننس کے اجراء کا مقصد پی آئی اے کو افسران کے چنگل سے نکالنا ہے، ملازمین کوئی حرف نہیں آئیگا،اسحاق ڈار،پی آئی اے کا خسارہ300ارب روپے تک پہنچگیا،آرڈیننس پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں نہیں بلکہ کارپوریشن کو کارپوریٹ ادارے میں تبدیل کرنا ہے،محصولات میں تقریباً40 ارب کا شارٹ فال ہے ،درآمدی اشیاء پر ٹیکس لگایا،عام آدمی کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ،قومی اسمبلی میں پالیسی بیان

منگل 8 دسمبر 2015 09:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8دسمبر۔2015ء)وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پی آئی اے کے بارے میں آرڈیننس کا اجراء ادارے کو آزاد کرنا ہے اور سرکاری افسران کے چنگل سے نکالنا ہے،آرڈیننس سے پی آئی اے کے ملازمین،اثاثوں اور دیگر ذمہ داران پر کوئی حرف نہیں آئے گا،آرڈیننس کا مقصد ادارے کی نجکاری نہیں بلکہ اس کو بہتری کی جانب گامزن کرنا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کے صدارتی آرڈیننس کے اجراء کے جواب میں پالیسی بیان کے دوران کیا۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت تمام فیصلے مشاورت سے کرنے پر یقین رکھتی ہے،آپریشن ضرب عضب،سی پیک اور دیگر معاملات پر مسلم لیگ(ن) نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ30 نومبر کو محصولات میں اضافے کیلئے حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں حکومت نے محصولات میں اضافے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے،مالی سال کے پہلی سہہ ماہی میں محصولات کی مد میں تقریباً40 ارب کی شارٹ فال ہوئی ہے جس کی وجہ دنیا میں اشیاء کی کم قیمتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شارٹ فال کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو1400اشیاء بتائی گئیں،ہم نے ان اشیاء پر ٹیکس لگایا ہے جو کہ نان لوکل اور امپورٹیڈ ہیں اور اس سے عام آدمی کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس قانون کے مطابق ہے اور اسی ایوان سے منظور ہونے والے کسٹم ایکٹ اور فیڈرل ایکسائزڈیوٹی کی مد میں لگائی ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلی بار61 ایسی اشیاء پر ڈیوٹی لگائی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ2013ء کا پاکستان نہیں جب پوری دنیا میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے چرچے تھے یہ2015ء کا پاکستان ہے کتے اور بلیوں کو بیرون ممالک سے آنے والی خوراک پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ شعبہ زراعت،ٹیکسٹائل،ہیلتھ،توانائی سمیت کئی شعبوں پر ٹیکس نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ہزار سی سی سے زائد گاڑیوں پر ٹیکس10فیصد بڑھایا گیا ہے اور یہ تمام محصولات صرف وفاقی حکومت کو نہیں بلکہ صوبوں کو بھی جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ محصولات عائد نہ کرتے تو ملک میں ترقیاتی بجٹ کو چلانے میں مشکلات پیش آسکتی تھی یا پھر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کمی کرتے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کے متاثرین کو ہر صورت باوقار طریقے سے ان کے گھروں تک پہنچائیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس شوقیہ نہیں گئی تھی پچھلے دور میں لئے گئے قرضوں کو واپس کرنے کیلئے نئے قرضے لئے ہیں،حکومت پچھلے قرضے ادا کر رہی ہے انہی حکومت کے پہلے سال ایک ارب ڈالر قرضے ادا کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بہتری کیلئے اپوزیشن کے مشوروں کو ہر وقت خوش آمدید کہیں گے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے آرڈیننس کا اجراء بھی قانون کے مطابق ہے،صدر مملکت کسی بھی صورتحال کے موقع پر آرڈیننس جاری کرسکتے ہیں اور اپوزیشن کے پاس بھی اختیار ہے کہ قانون کے مطابق آرڈیننس پر بات کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پی آئی اے کا خسارہ300ارب روپے تک پہنچ چکا ہے،ہم نے پی آئی اے کی بہتری کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں،پی آئی اے کے بیڑے میں اس وقت40جہاز موجود ہیں،پی آئی اے کی کارکردگی 82 فیصد تک پہنچ چکی ہے،موجودہ آرڈیننس پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کارپوریشن کو کارپوریٹ ادارے میں تبدیل کرنا ہے،ادارے کے تمام اثاثے،اجازت نامے،ملازمین،معاہدے نئی کمپنی کو آرڈیننس کے ذریعے مل چکے ہیں،ادارے کے ملازمین کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی،بعض عناصر اپنے مذموم مقاصد کیلئے پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں،آرڈیننس کا مقصد پی آئی اے کو بابوؤں کے دسترس سے نکالنا ہے،آرڈیننس کے اجراء سے پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے میں مدد ملے گی،ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اپنے فیصلے خود کرسکے گی۔

انہوں نے اپوزیشن سے اپیل کی کہ وہ پی آئی اے کی بہتری کیلئے حکومت کے ساتھ ملکر اقدامات کریں اور کھلے ذہنوں کے ساتھ حکومت کا ساتھ دیں۔انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی سے اپیل کی کہ اس سلسلے میں اقدامات کریں۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 2 سال میں ٹیکس وصولیوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خدا را معیشت پر سیاست نہ کی جائے۔ 61 اشیاء پر پہلی بار 5 سے 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔

40 ارب کا خسارہ پورا کرنے کیلئے لگژری اور امپورٹڈ اشیاء پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی میں معاشی پالیسی پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں مالی سال میں ٹیکس موصولیوں کیلئے 3104 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے انہوں نے کہا کہ خدا کیلئے معیشت کو سیاست سے الگ رکھا جائے اور ملک کیلئے اچھامعاشی نظام بنانے دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ منی بجٹ امیروں کیلئے بنایا گیا ہے اور ہمیں امیروں سے ٹیکس لینے دیا جائے۔ ان کاکہنا تھاکہ عالمی دنیا سال 2013 ء میں یہ افواہ تھی کہ پاکستان معاشی طور پر ایک سال بعد تباہ ہوجائے گا اور حکومت نے خالی خزانہ کو پھر سے زندہ کیا ہے اور بہت مشکل فیصلے کئے گئے ہیں اورحکومت پاکستان معاشی طور پر ملک کو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اس پر مخالفین سیاست چمکانے کی کوشش نہ کریں ۔

یاد رہے نومبر 2015 ء تک رکھا گیا ہدف 3104 ارب روپے میں سے 1053 ارب روپے اکٹھے کر چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو ایک مستحکم معیشت کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی دنیا میں ایک مضبوط و مستحکم معیشت کے بل بوتے پر ہی پاکستان کو آگے لے جایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم امیروں اور سرمایہ داروں سے ٹیکس حاصل کرنے کیلئے لگژری اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی ہے ۔ ان کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ زخائر 21 ڈالر سے بڑھ چکے ہیں اس حوالے سے حکومت اپنی پالیسی سے لوگوں کو ٹیکس کے دائرہ میں لانے پر کامیاب ہوچکی ہے اسی وجہ سے گزشتہ دو سال میں پاکستان کی ٹیکس وصولیوں کی شرح میں سولہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔