ایڈیشنل سیشن جج اور انکے اہلخانہ کی جانب سے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کیس کا ڈراپ سین

فریقین نے راضی نامہ عدالت میں کرادیا، جج کی اہلیہ کی ضمانت منظور، کم سن طیبہ کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم

بدھ 4 جنوری 2017 11:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4جنوری۔2017ء) ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ا نکے اہلخانہ کی جانب سے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کیس کا ڈراپ سین ہوگیا،دونوں فریقین نے اپنا راضی نامہ عدالت میں کرادیا،جس کے بعد عدالت نے جج کی اہلیہ کی ضمانت منظور کرلی جبکہ کم سن طیبہ کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن طیبہ کے والدین نے جج راجہ خرم علی خان سے راضی نامہ کر تے ہوئے اپنا بیان خلفی عدالت میں جمع کرا دیا ہے بچی کے والدنے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ انہوں نے کسی دباؤکے بغیر راضی نامہ کیا ہے اور جج کو معاف کر دیا ہے۔

”مقدمے میں جج کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا ہے “۔ جج کو بری یا ضمانت دینے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اینڈ سیشن جج راجہ آصف محمود نے بیان حلفی کے بعد حاضر سروس جج کی اہلیہ کی ضمانت 30ہزار کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی ہے۔جبکہ کم سن طیبہ کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔یاد رہے گھریلو ملازمہ طیبہ اسلام آبادمیں ایک حاضر سروس جج کے گھر ملازمہ تھی جہاں اسے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تاہم بچی کے الدین کا پتہ چلانے کیلئے ابھی تک متاثرہ لڑکی کا ڈی این اے بھی نہیں کرایا جا سکا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورت کے چیف جسٹس انور خان کاسی نے 29دسمبر کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے خلاف تھانہ آئی نائن پولیس کو مقدمہ درج کر نے اور دو روز میں رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا،تفتیش کے دوران ایڈیشنل سیشن جج نے ملازمہ تشدد کیس میں اپنا بیان اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے پاس قلمبند کرا یا۔

جس میں اسلام آباد ہائیکورت کے چیف جسٹس انور خان کاسی کے حکم پر حاضر سروس ایڈشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کو رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورت کے روبرو پیش کیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے اپنا ان کیمرا ابتدائی بیان رجسٹرار ہائیکورٹ راجہ جواد حسن عباس کے پاس قلمبند کرا یا ۔ اس موقع پر ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اور تفتیشی افسر رجسٹرار ہایکورٹ کے روبرو پیش ہوئے۔

سیشن جج نے تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا،جبکہ متاثرہ بچی نے اپناجوا ب ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ جج کے اہل خانہ نے تشدد کا نشانہ بنایا،جھاڑو گم ہونے پر مجھے مارا، اورآنکھ پر چائے کی ڈوئی ماری پھر مانو باجی نے چولہا جلاکر میرے ہاتھ اس پر رکھ دیئے،قبل ازیں کمسن تشدد زدہ گھریلو ملازمہ کے دعویدار والدین کی جانب سے دی گئی درخواست پر بچی کو ملاقات کے لیے اسسٹنٹ کمشنر نیشا اشتیاق کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

تاہم بچی کے والدین ہونے کا دعوی کرنے والے خود عدالت نہ آئے۔ بچی کو واپس کرائسز سیل بھجوا دیا گیاتھا مگر گزشتہ روز اسکے والد کی جانب سے حوالگی کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کمسن گھریلو ملازمہ کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم کر دیا ۔کمسن طیبہ کی حوالگی کا حکم اسکے والد اعظم کی درخواست پر دیا گیا۔جبکہ دوسری جانب چائلڈ پروٹیکشن بیورو بنجاب کی چئیرپرسن صباء صادق نے بچی کے علاج معالجہ کا زمہ اٹھانے کی ہدایت کر تے ہوئے ڈسٹرکٹ آفیسر راولپنڈی علی عابد نے ایچ ایٹ میں واقع وومن کراسیس سیل میں بچی سے ملاقات کی تھی اور بچی کے علاج معالجے اور کفالت کے حوالے معلومات کی بنیاد پر معاونت کی پیشکش بھی کی تھی۔

یاد رہے کہ تشدد زدہ بچی کے والدین حوالگی سے قبل پولیس کی جانب سے کوئی ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کرایا گیا اور بچی کو عدالتی حکم پر والد کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

متعلقہ عنوان :