پاناما لیکس کیس فیصلہ کی ابتداء پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹس سے ہو ہتی ہے

اختلافی نوٹ صفحہ نمبر 5سے شروع ہو کر صفحہ 192پر اختتام پذیر ہوتا ہے جسٹس اعجاز افضل خان کا فیصلہ صفحہ نمبر 193سے 237 ،جسٹس گلزار احمد کا اختلافی نوٹ239صفحہ سے 282صفحات تک جاتا ہے جسٹس شیخ عظمت سعید کا تحریر کردہ فیصلہ صفحہ 283سے شروع ہوکر 323صفحہ، پانچویںرکن جسٹس اعجاز الاحسن کا تحریر کردہ فیصلہ صفحہ نمبر324سے شروع ہوکر صفحہ نمبر545پر ختم ہوتا ہے آخری چار صفحات پر تین ممبران کا اکثریتی فیصلہ ثبت کیا گیا

جمعرات 20 اپریل 2017 21:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ اپریل ء)پاناما لیکس کیس کے فیصلہ کی ابتداء پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے اختلافی نوٹ سے ہوتی ہے جو صفحہ نمبر 5سے شروع ہو کر صفحہ 192پر اختتام پذیر ہوتا ہے ، جسٹس اعجاز افضل خان کا فیصلہ صفحہ نمبر 193سے شروع ہوکر237 پراختتام پذیر ہوتا ہے۔جسٹس گلزار احمد کا اختلافی نوٹ239صفحہ سے 282صفحات تک جاتا ہے ، بینچ کے چوتھے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کا تحریر کردہ فیصلہ صفحہ نمر 283سے شروع ہوکر 323صفحہ پر ختم ہوتا ہے جبکہ بینچ کے پانچویںرکن جسٹس اعجاز الاحسن کی طرف سے تحریر کردہ فیصلہ صفحہ نمبر324سے شروع ہوکر صفحہ نمبر545پر ختم ہوتا ہے آخری چار صفحات پر تین ممبران کا اکثریتی فیصلہ ثبت کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

فیصلہ میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزاراحمد نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے وزیر اعظم کو ناہل کرنے کرنے کا حکم دیا ہے ان دونوں ججز نے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی طرف سے پیش کئے گئے موقف کو یکسر مسترد کردیا ہے اور قرار دیا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے عدالت میں سچ نہیں بتا یاگیااس لئے و صاد ق وامین نہیں رہے۔پاناما فیصلے کا آغاز آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ سے ہوتا ہے جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مشہور ناول گاڈ فادر کا ادبی حوالہ دیا جس میں کہاگیا ہے کہ دولت کے ہر ذخیرے کے پیچھے جرم کی داستان چھپی ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے مطابق ایسا اتفاق ہے کہ یہ جملہ نوازشریف کیخلاف کیس پر صادر آتا ہے، جسٹس آصف سعیدکے مطابق بڑی کامیابی کا اصل راز ایک جرم ہے، جو مہارت سے سرانجام دینے کے باعث سامنے نہیں آتا اور مشہور ناول "گاڈ فادر" اس جملے سے متاثر ہوکرلکھا گیا، جسٹس آصف سعیدنے کہاکہ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ پاناما کیس ایسی ہی صورتحال سے مشابہہ ہے۔

پناماکیس میں عمران خان نے وزیراعظم پرایسا ہی الزام لگایا۔جسٹس آصف کھوسہ کا اپنے اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ وزیراعظم کے معاملے پر چیئرمین نیب غیرجانبدار نہیں، اس لئے وہ کیس سے متعلق اپنا کوئی اختیار استعمال نہ کریں،اور نیب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف اعترافی بیان کی روشنی میں کارروائی کرے اور وزیراعظم کے بچوں کے دیگر اثاثہ جات کی بھی تحقیقات کرے، نیب اس حوالے سے بھی تحقیقات کرے کیا بچوں کے اثاثوں کے اصل مالک وزیراعظم تو نہیں جبکہ نیب وزیراعظم کیخلاف 10 نومبر 1994 کی ایف آئی آرز کی روشنی میں تحقیقات کرے، انہوں نے مزید کہا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے اس لئے صدر پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ جمہوری نظام کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کریں،جسٹس آصف کھوسہ کے مطابق وزیراعظم قوم اور عدالت کے سامنے ایماندار نہیں رہے جبکہ لندن فلیٹس سے متعلق وزیراعظم کے بچوں کے موقف میں تضاد ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے نواز شریف اپنی ملکیتوں اور لندن کی جائیدادوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس قوم، پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے دیانت دار نہیں رہے۔’اس بد دیانتی کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف آئین کی شق 62 اور عوامی نمائندگان کے قانون 1976 کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن رہنے کے اہل نہیں رہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار پائیں۔

جسٹس کھوسہ نے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے۔اس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ نواز شریف کے خلاف اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمٰن ملک (جو اب پیپلز پارٹی کے سینٹیر ہیں) کی جانب سے 1994 میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش، شواہد اور تفصیل بھی ضرورت پڑنے پر نیب کو فراہم کرے۔جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر قائم کردہ تمام جائیدادوں اور کاروبار کا بھی جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بچے اپنے والد کے لیے یہ جائیدادیں اور کاربار تو نہیں چلا رہی

متعلقہ عنوان :