جدہ: مفرورسعودی لڑکی کو پناہ گزین کا درجہ دے دِیا گیا

خود کو اسلام سے مُرتد ظاہر کرنے والی لڑکی کو آسٹریلیا میں پناہ مِل سکتی ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان جمعرات 10 جنوری 2019 11:49

جدہ: مفرورسعودی لڑکی کو پناہ گزین کا درجہ دے دِیا گیا
جدہ(اْردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10جنوری2019ء ) اپنے ممکنہ خوفناک انجام کے بارے میں دِل دہلا دینے والے ٹویٹس کی بدولت شہرت پانے والی سعودی لڑکی کی سُن لی گئی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے رہاف محمد القنون کو پناہ گزین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس طرح لڑکی کو اب اُس کے والدین کے حوالے نہیں کیا جائے گا جن پر لڑکی نے الزام لگایا تھا کہ وہ اُسے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے UNHCR نے 18 سالہ سعودی لڑکی کا معاملہ سیاسی پناہ کی خاطر آسٹریلیا کو منتقل کر دیا ہے۔ آسٹریلیا کے داخلی امور کے ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے منتقل کردہ معاملے پر غور و حوض کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

رہاف نے اپنے لگاتار ٹویٹس کی بدولت دُنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔

اُس کا کہنا ہے کہ جب سے اُس نے مذہب اسلام ترک کیا ہے اُس کے والدین اُسے ظلم و جبر کانشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ چھُٹیاں منانے کویت آئی تھی۔ اسی دوران وہ فرار ہو کر تھائی لینڈ پہنچی جہاں اُس کا وہاں سے آسٹریلیا جانے کا پروگرام تھا، مگر اُسے بنکاک ایئرپورٹ پر سعودی حکام نے مزید سفر سے روک کر اُس کا پاسپورٹ اپنے قبضے میں لے لیا اور اُس کے لیے واپس سعودی مملکت کی ٹکٹ کی بُکنگ بھی کروا دی تھی۔

تاہم اُس نے خود کو ایئرپورٹ کے ہوٹل کے کمرے میں بند کر لیا اور اپنے آسٹریلیا، سویڈن اور کینیڈا میں موجود دوستوں کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ جنہوں نے اُس کے نام سے ایک نیا ٹویٹر اکاؤنٹ بنا کر اُس کی فریاد پُوری دُنیا تک پھیلا دی جس میں اُس نے کہا تھا کہ اگر اُسے واپس والدین کے پاس بھیجا گیا تو وہ اُسے قتل کر دیں گے۔ رہاف کے والدین نے اس سارے معاملے پر بات ابھی تک میڈیا سے بات نہیں کی۔

تاہم تھائی لینڈ امیگریشن پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ القنون کے والد نے اپنی بیٹی کی جانب سے عائد کردہ الزامات کو سراسر غلط قرار دے دیا۔ القنون کے والد کے مطابق اُس نے اپنی بیٹی کو کبھی نہیں مارا پیٹا اور نہ ہی اُس کی کہیں زبردستی شادی کروانے کی کوشش کی۔ بیٹی کی جانب سے ایسے الزامات بے بنیاد ہیں۔ البتہ رہاف کبھی کبھار خود کو نظر انداز کی گئی بیٹی محسوس کرتی تھی۔

رہاف اپنے والدین کے 10 بچوں میں سے ایک ہے۔ رہاف کے والد نے بنکاک پہنچ کر اپنی بیٹی سے بھی مِلنے کی کوشش کی مگر رہاف نے اس ملاقات سے انکار کر دیا۔ رہاف کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کے بنکاک پہنچنے کی خبر سُن کر انتہائی خوف کا شکار ہو گئی ہے۔ رہاف کی آسٹریلیا میں پناہ کے حوالے سے آسٹریلوی حکام کا کہنا تھا کہ اگر رہاف کو حقیقت میں خطرات درپیش ہیں تو اُسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آسٹریلیا میں پناہ دے دی جائے گی۔

ایک خاتون صحافی مونا الزاوی جو اپنی اسلام اور خواتین کے بارے میں لکھی گئی تحریروں کی بناء پر شہرت رکھتی ہے، اُس نے رہاف کے معاملے پر لب کُشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’رہاف سعودی عرب میں ایک انقلاب کو جنم دینے جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی سعودی لڑکیاں کہہ رہی ہیں ’’رہاف، تم نے اپنے اس عمل سے ہمیں بھی ایسا کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ تم نے دکھا دیا ہے کہ ہم آزادی حاصل کرنے کی حقدار ہیں۔‘‘

جدہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں