سعودی عرب کیلئے جاسوسی کے جرم میں ٹویٹر کے سابق ملازم کو سزا کا سامنا

معلومات شیئر کرنے کے بدلے ملزم کو 40 ہزار ڈالر سے زیادہ مالیت کی ایک لگژری گھڑی تحفے میں دی گئی‘ بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ ڈالر کی تین ادائیگیاں بھی موصول ہوئیں

Sajid Ali ساجد علی پیر 15 اگست 2022 14:48

سعودی عرب کیلئے جاسوسی کے جرم میں ٹویٹر کے سابق ملازم کو سزا کا سامنا
ریاض ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 15 اگست 2022ء ) سعودی عرب کے لیے جاسوسی کے جرم میں ٹویٹر کے سابق ملازم کو سزا کا سامنا ہے کیوں کہ احمد ابوامو پر سعودی حکام کو رقم کے عوض صارف کی نجی معلومات بھیجنے کا الزام تھا۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ٹویٹر کے ایک سابق ملازم کو امریکی عدالت نے سعودی عرب کے لیے جاسوسی کے الزام میں سزا سنائی ہے جس پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پر مملکت پر تنقید کرنے والے صارفین کی ذاتی معلومات شاہی خاندان کے ایک قریبی سعودی اہلکار کو فراہم کیں۔

بتایا گیا ہے کہ 2013 سے 2015 تک ٹوئٹر میں کام کرنے والے احمد ابوامو کو سعودی عرب کے لیے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے، منی لانڈرنگ، وائر فراڈ کرنے کی سازش اور ریکارڈ کو غلط بنانے کے الزامات میں قصوروار پایا گیا تاہم اسے وائر فراڈ کے 5 دیگر الزامات سے بری کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

استغاثہ کا کہنا تھا کہ امریکہ اور لبنان کے دوہری شہری ابوامو نے سعودی حکومت پر تنقید کرنے والے اکاؤنٹس کے ای میل اکاؤنٹس اور فون نمبرز تک رسائی حاصل کی اور پھر بڑی رقم کے عوض وہ تفصیلات سعودی اہلکار کو فراہم کیں، شاہی خاندان سے وابستہ ایک سعودی اہلکار کے ساتھ ان معلومات کو شیئر کرنے کے بدلے میں ابوامو کو ایک لگژری گھڑی تحفے میں دی گئی جس کی قیمت مبینہ طور پر 40 ہزار ڈالر سے زیادہ تھی اور اسے اپنے والد کے نام پر لبنانی بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ ڈالر کی تین ادائیگیاں موصول ہوئیں۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق ابوامو نے گھڑی کی اطلاع اپنے اعلیٰ افسران کو نہیں دی جیسا کہ اس وقت ٹوئٹر کی پالیسیوں کے تحت یہ کرنا ضروری تھا، ابوامو نے ایف بی آئی ایجنٹوں سے بھی جھوٹ بولا کہ گھڑی کی قیمت صرف 500 ڈالر ہے اور ایک لاکھ ڈالر کی آخری ترسیل قانونی طور پر فری لانس مشاورتی کام کے عوض ادا کی گئی۔ اسسٹنٹ امریکی اٹارنی کولن سیمپسن نے مقدمے کے آغاز پر جیوری کو بتایا تھا کہ  یہ لگژری گھڑی مفت نہیں تھی بلکہ یہ گھڑی مستقبل کی جاسوسی کے لیے "ڈاؤن پیمنٹ" تھی۔ ابواممو کے وکیل نے کہا کہ یہ تحائف صرف ٹویٹر پر میڈیا پارٹنرشپ مینیجر کے طور پر ان کے کام کی تعریف کے بدلے دیے گئے کیوں کہ  انہوں نے سعودی شاہی خاندان کے اکاؤنٹس کی تصدیق میں مدد کی۔

ریاض میں شائع ہونے والی مزید خبریں