Open Menu

Asma Ul Husna - Asalamu - Article No. 1822

Asma Ul Husna - Asalamu

اسماء الحسنیٰ - اَلسَّلاَمُ - تحریر نمبر 1822

اسم السلام اللہ تعالیٰ کا نہایت با برکت اور بزرگی والا اسم ہے ہر قسم کی بیماری سے شفا زندگی میں حفاظتی معاملات اور امور سلامتی میں اسکا ورد موثر ہے۔ اسم یا سلام پڑھنے والا شخص اس اسم کی برکات سے کسی مہلک اور لا علاج بیماری کا شکار نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ خوف، دشمنوں اور مقدمات وغیرہ سے پریشان ہوتا ہے

ہفتہ 19 مئی 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
سلامتی، صحت بخشنے والا، اعداد ابجد 131،شفائے امراض ، صحت و سلامتی۔
اسم السلام اللہ تعالیٰ کا نہایت با برکت اور بزرگی والا اسم ہے ہر قسم کی بیماری سے شفا زندگی میں حفاظتی معاملات اور امور سلامتی میں اسکا ورد مو¿ثر ہے۔ اسم یا سلام پڑھنے والا شخص اس اسم کی برکات سے کسی مہلک اور لا علاج بیماری کا شکار نہیں ہوتا۔

نہ ہی وہ خوف، دشمنوں اور مقدمات وغیرہ سے پریشان ہوتا ہے بلکہ اس اسم کے اعداد کے مطابق ورد کی بدولت ذاکر اپنے معاملات میںخدا کی حفاظت میں آجاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسم یا سلام کو پیر کے دن بوقت طلوع آفتاب پڑھے (اس اسم کے اعداد یعنی 131بار)پھر مریض کی دوا پر دم کر کے وہ دو امراض کو کھلائے، انشاءاللہ جلد شفا پائے ۔

(جاری ہے)

اسی طرح خوف ، پریشانی ، دل کی گھبراہٹ اور دیگر امراض قلب میں باقاعدگی سے 131بار پڑھ کر پانی پر دم کرے اور وہ پانی مریض کو پلائے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے۔

اسم السلام دوستی، محبت اور حفاظت کے لیے مو¿ثر ہے ، عروج ماہ میں بعد نماز فجر اگر 1310بار اسم یا سلام چالیس دن باقاعدگی سے پڑھے تو علم میں اضافے کا ذریعہ ہے حافظہ اور علمیت بڑے بڑے عالموں سے بڑھ جائے۔ اسم یا سلام کا پڑھنے والا آگ، پانی یا حادثے سے موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ طبعی اور پر سکون موت پاتا ہے۔ اسم یا سلام کو لکھ کر پاس رکھنے سے انسان ہر دکھ، بیماری اور آزار سے اللہ کی امان میں آ جاتا ہے جو شخص چالیس دن اسم یا سلام کو بعد نماز عشاءباقاعدگی سے پڑھتا رہے جو نتائج اور اطمینان پائے گا حیران ہو گا۔
اسم یا ” السلام“ کے لغوی معنی سالم یعنی سلامت کے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت سر برسر سلامتی اور حفاظت ہے اور وہ اس اسم پاک کی برکت سے اس کا ورد کرنے والوں کو بھی سلامتی بخشتا ہے۔ حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ خود سلامتی کا مالک ہے اور ہم کو سلاتی اسی کی ذات سے ملتی ہے۔ سورہ¿ یٰسین میں سلام قولاََمن رب الرحیم کی آیت بھی اسی سلامتی کو ظاہر کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے جوحقوق امت مسلمہ پر فرض کیے ہیں ان میں حضور اکرم ﷺ کے لیے صلواة والسلام کا پڑھنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نماز میں التحیات کے بعد درودشریف پڑھتے ہیں، جسے دور ابراہیمی کہا جاتا ہے۔
اسم سلام کا دین اسلام سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ آپ اس مفہوم سے لگا لیجئے کہ اسلام کا مطلب بھی سلامتی ہے ۔ ہم عملی زندگی میں بھی ہر وقت ایک دوسرے کو السلام علیکم کا تحفہ دیتے رہتے ہیں جس میں سلامتی کی دعا ہے۔
جب ہم اسم السلام کے علمی پہلوو¿ں پر غوروخوض کرتے ہیں تویہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ زمین و آسمان میںنجانے کتنے ہماری جان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں ہم کھانے کی میز پر بیٹھے قسم قسم کی نعمتوں کا لطف اٹھاتے ہیںمگر بھول جاتے ہیں کہ ان میںایسی اشیاءبھی ہو سکتی ہے جن سے ہماری جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہم اکثر چھوٹی بڑی عمارات کے نیچے سے گزرتے ہے جہاں سے کوئی اینٹ کوئی پتھر گر کر ہمارا کام تمام کر سکتا ہے گاو¿ںدیہات میںایک دوسرے کے دشمن موجود ہوتے ہیں جو کسی وقت بھی کسی کی جان لے سکتے ہیں مگر ان تمام حالات میں ایک یا سلام ہی ہے جو ہماری حفاظت فرماتا ہے اور موت اتنے بڑے سلامتی کے مالک کے سامنے صرف دانت پیستی رہ جاتی ہے۔
اسم السلام کی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر اللہ تعالیٰ مدد اور حفاظت نہ فرمائے تو کوئی گھر تاقیامت آباد نہ ہو سکے اور خدانہ کرے کہ ہنستے بستے گھروں کو بد نظر لگ جائے اور دنیا کے وسائل و اسباب رکھنے والے امرائ، فقیروں سے برے حالات کو پہنچ جائیں۔ غور کرنے کی چیز ہے کہ یہ آگ، پانی اور ہوا اگر سرکشی پر آجائیں تو کون ان کو گھر پھونکنے سے روکے گا کون طوفانوں کو سر چڑھنے سے ہٹائے گا اور کون ہوا کے زور سے بستیوں اور فصلوں کو برباد ہونے سے بچائے گا۔
صرف اور صرف السلام ہی اس سلامتی کا ذمہ لینے والا ہے۔ اسم السلام کی حفاظت وکرشمہ سازیاں ہماری معاشرتی زندگی میںہر وقت دیکھنے میں آتی ہیں، مثلا ہم گھروں میں بجلی کی لاتعداد اشیاءاستعمال کرتے ہیں مگر بعض اوقات بجلی کا بٹن دباتے ہی کرنٹ لگنے سے انسان اپنی جان سے چلا جاتا ہے تیز رفتار سواریوں کی دوڑ بھاگ میںجب جان سولی پر لٹکتی محسوس ہوتی ہے انسان حادثے سے محفوظ رہتا ہے یہ حفاظت صرف السلام کی جانب سے ہوتی ہے۔
اگر ہم غور کریں تو بڑی خوبصورت بات سامنے آتی ہے کہ دنیا بھر کی قوموں کے مختلف قسم کے سلام ہیں جو وقت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں مگر اسلام کے ماننے والوں کے لیے ایک سلام ہے یعنی السلام علیکم جس کا مطلب ہے تم پر سلامتی ہو یہ اس السلام رب کا امت مسلمہ پر خاص احسانِ سلامتی ہے اور اس نبی رحمت ﷺ کا طریقہ رحمت جو اپنی امت کی سلامتی کے لیے دعائیں فرماتے رہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ عربی نحو کے مطابق السلام علیکم کہنا چاہیے کیونکہ جب یہودی حضور اکرم ﷺ کے پاس آتے تو السلام علیکم کہنے کے بجائے اسام کہتے سام کے معنی تجھے موت آئے کے ہیں۔ اس طرح منافقین حضور اکرم ﷺ کو راعنا کے بجائے راعینا کہا کرنے تھے راعنا کا مطلب ہوتا ہے یا رسول اللہ ﷺ ہمارا خیال فرمائیے مگر منافقین راعینا کہتے تھے جس کا معنی ہمارے چرواہے کے ہوتے ہیں۔
اللہ رب العزت کب اپنے پیارے رسول ﷺ کی شان میںکمی برداشت کر سکتا تھا سورہ¿ بقر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے۔
” تم(رسولﷺ) ان کو راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظر نا کہا کرو“
جس کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ ” یا رسول اللہ‘ ہمارا خیال فرمائیے۔
میری بھی التجا ہے کہ میرے پیارے حبیب ﷺ ہم سب کا خیال فرمائیے اور اپنی رحمت سے ہم سب کی جھولیاں بھروائیے، ہمارا بیڑا پار کرائیے۔(آمین)
آپ دیکھئے کہ جب ہم اللہ اور اس کے اسم مبارکہ السلام کی حفاظت میں آجاتے ہیں تو دشمن خواہ کتنی ہی کوشش کر لے بال بیکا نہیں کر سکتا سو ہم کہہ سکتے ہیں یا سلام ہماری بھر پور حفاظت و نصرت فرما، اور ہمیں ہر تکلیف و پریشانی پر غلبہ عطا فرماا۔(آمین)

Browse More Islamic Articles In Urdu