Open Menu

Hazrat Syedina Wahab Ibn Abdullah Ki Azeem Shahadat - Article No. 2462

Hazrat Syedina Wahab Ibn Abdullah Ki Azeem Shahadat

حضرت سید نا وہب ابن عبداللہ کلبی رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت ! - تحریر نمبر 2462

آپ رضی اللہ عنہ ماں کے حکم پر اسلام دُشمنوں کو واصل جہنم کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے حسینی دولھا ․․․․

پیر 8 اکتوبر 2018

محمد الیاس
حضرت سیدنا وہب ابن عبداللہ کلبی رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی کلب کے نیک خو اور خوبرو جوان تھے ،عنفوانِ شباب ،اُمنگوں کا وقت اور بہاروں کے دِن تھے،صرف سترہ دن شادی کو ہوئے تھے اور ابھی ساطِ عشرت ونشاط گرم ہی تھی کہ والدئہ ماجدہ تشریف لائیں جو ایک بیوہ خاتون تھیں ،جن کی ساری کمائی اور گھر کا چراغ یہی ایک نوجوان بیٹا تھا ۔

مادرِ مشفقہ نے رونا شروع کر دیا۔بیٹا حیرت میں آکرماں سے پوچھتا ہے :”پیاری ماں , رَنج وملال کا سبب کیا ہے ؟مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اپنی عمر میں کبھی آپ کی نافرمانی کی ہو،نہ آئندہ ایسی جرأت کر سکتا ہوں ۔آپ کی اطاعت وفرمانبرداری مجھ پر فرض ہے اور میں ان شاء اللہ عزوجل تابہ زندگی مطیع و فرمانبردار رہوں گا ۔

(جاری ہے)

ماں ! آپ کے دِل کو کیا صد مہ پہنچا اور آپ کو کس غم نے رُلایا ؟میری پیاری ماں! میں آپ کے حکم پر جان بھی فدا کر سکتا ہوں ،آپ غمگین نہ ہوں “۔

سعادت مند بیٹے کی یہ گفتگو سن کر ماں اور بھی چیخ مار کر رونے لگی اور کہنے لگی :”اے فرزند ! تو میری آنکھ کا نور ،میرے دل کا سرور ہے،اے میرے گھر کے روشن چراغ اور میرے باغ کے مہکتے پھول،میں نے اپنی جان گھلا گھلا کر تیری جوانی کی بہار پائی ہے ،تو ہی میرے دل کا قرار اور میری جا ن کا چین ہے ۔ایک پل تیری جدائی اور ایک لمحہ تیرا فراق مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا ۔

اے جانِ مادر! میں نے تجھے اپنا خونِ جگر پلایا ہے ۔آج اس وقت دہشت کر بلا میں نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ظلم وستم سے نڈھال ہے ۔میرے لال ! کیا تجھ سے ہو سکتا ہے کہ تو اپنی جان اُن کے قدموں پر قربان کر ڈالے ۔اس بے غیرت زندگی پر ہزار تف ہے کہ ہم زندہ رہیں اور سلطانِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لاڈلا شہزادہ ظلم وجفا کے ساتھ شہید کر دیا جائے ،اگر تجھے میری محبتیں کچھ یاد ہوں اور تیری پرورش میں جو مشقتیں میں نے اٹھائی ہیں ان کو تو بھولا نہ ہو تو اے میرے چمن کے مہکتے پھول! تو پیارے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر صدقے ہو جا ۔
حسینی دولہا سید نا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی ،”اے مادرِ مہربا ن،خوبی نصیب ،یہ جان شہزادہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قربان ہو،میں دِ ل وجان سے آمادہ ہوں ،ایک لمحہ کی اجازت چاہتا ہوں تا کہ اس بی بی سے دو باتیں کر لوں جس نے اپنی زندگی کے عیش وراحت کا سہرا میرے سر پر باندھا ہے اور جس کے ارمان میرے سو ا کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ،اس کی حسرتوں کے تڑپنے کا خیال ہے ،اگر وہ چاہے تو میں اس کو اجازت دیدوں کہ وہ اپنی زندگی کو جس طرح چاہے گزارے۔
ماں نے کہا :بیٹا! عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں ،مباداتو اس کی باتوں میں آجائے اور یہ سعات سر مدی تیرے ہاتھوں سے جاتی رہے ۔
سید نا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :پیاری ماں ! امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کی گرہ دِل میں ایسی مضبوط لگی ہے کہ ان شاء اللہ عزوجل اس کو کوئی کھول نہیں سکتا اور اُن کی جانثاری کا نقش دِل پر اس طرح کندہ ہے جو دُنیا کے کسی بھی پانی سے نہیں دھو یا جا سکتا ،یہ کہہ کر بی بی کی طرف آئے اور اسے خبر دی کہ فرزندر سول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،ابن فاطمہ بتول ،گلشن مولیٰ علی کے مہکتے پھو ل میدانِ کر بلا میں رنجید ہ و ملول ہیں ،غداروں نے ان پر نرغہ کیا ہے ،میری تمنا ہے کہ ان پر جان قربان کروں ،یہ سن کر نئی دلہن نے ایک آہِ سردولِ پر درد سے کھینچی اور کہنے لگی:”اے میرے سر کے تاج ! افسوس کہ میں اس جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔
شریعت اسلامیہ نے عورتوں کو لڑنے کیلئے میدان میں آنے کی اجازت نہیں دی ۔افسوس ! اس سعادت میں میرا حصہ نہیں کہ تیرے ساتھ میں بھی دُشمنوں سے لڑ کر امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی جان قربان کروں ،سبحان اللہ ! آپ نے تو جنتی چمنستان کا ارادہ کر لیا،وہاں حوریں آپ کی خدمت کی آرزومند ہو ں گی ،بس ایک کرم فرما دیں کہ جب سردار انِ اہل بیت علیہم الر ضوان کیساتھ جنت میں آپ کیلئے نعمتیں حاضر کی جا ئینگی اور جنتی حوریں آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہوں گی ،اس وقت آپ مجھے بھی ہمراہ رکھیں ۔
حضرت وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اس نیک دلہن اور برگزیدہ ماں کو لے کر فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،دلہن نے عرض کی :اے ابن رسول !شہد اء گھوڑے سے زمین پر گرتے ہی حوروں کی گود میں پہنچتے ہیں اور غلمان ِجنت کمالِ اطاعت شعاری کیساتھ ان کی خدمت کرتے ہیں ‘یہ حضور پر جا نثاری کی تمنا رکھتے ہیں اور میں نہایت ہی بے کس ہوں کوئی ایسے رشتہ دار بھی نہیں جو میری خبر گیری کر سکتیں ۔

التجا یہ ہے کہ عرصہ گاہ محشر میں میری ”اِن “سے جدائی نہ ہو،اور دُنیا میں مجھ غریب کو آپ کے اہل بیت اپنی کنیزوں میں رکھیں اور میری تمام عمر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک بیبیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گزر جائے ۔حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ عہدوپیماں ہو گئے اور سید نا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی عرض کر دی کہ یا امام عالی مقام ! اگر حضور تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے مجھے جنت ملی تو میں عرض کروں گا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ! یہ بی بی میرے ساتھ رہے “۔
حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اجازت لے کر سیدنا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان میں چل دئیے ،یہ دیکھ کر لشکر اعداء پر لرزہ طاری ہو گیا کہ گھوڑے پر ایک ماہ رُوشہسو ا راَجل نا گہانی کی طرح لشکر کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے ،ہاتھ میں نیز ہ ہے ،دوش پر سپر ہے اور دل ہلا دینے والی آواز کے ساتھ یہ رَجز پڑھتا آرہا ہے :ترجمہ”حضرت حسین رضی اللہ عنہ امیر ہیں اور بہت ہی اچھے امیر،ان کی چمک دمک روشن چراغ کی طرح ہے “،پھر آپ برقِ خاطف(اُچک لیے والی بجلی )کی طرح میدان میں پہنچے ،کوہ پیکر گھوڑے پر سپہ گری کے فنون دکھائے ،صف اعداء سے مبارِز طلب فرمایا جو سامنے آیا تلوار سے اُس کا سراڑایا ،گردوپیش خود سروں (یعنی کر کشوں )کے سروں کے انبار لگا دیا ۔
ناکسوں (نا اہلوں )کے تن خاک وخون میں تڑپتے نظر آنے لگے۔
یکبارگی گھوڑے کی باگ موڑدی اور ماں کے پاس آکر عرض کی کہ اے مادرِ مشفقہ ! تو مجھ سے اب تو راضی ہوئی ! اور دلہن کے پاس پہنچے جو بے قرار رورہی تھی ۔اور اس کی صبر کی تلقین کی،اتنے میں اعداء (دشمنوں )کی طرف سے آواز آئی :”کوئی ہے مقابلہ پر آنے والا؟“سید نا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے پر سوار ہو کر میدان کی طرف روانہ ہوئے ،نئی دلہن ٹکٹکی باندھے ان کو جاتا دیکھ رہی ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہار ہی ہے ۔
حسینی دلہا شیر ژِیاں (غضبناک شیر)کی طرح تیغ آبدار ونیز ئہ جاں شکار لے کر معرکہ کارزار میں صاعقہ وار آپہنچا،اس وقت میدان میں اعداء کی طرف سے ایک مشہور بہادر اور نامدار سوار حکم بن طفیل جو غرورِنبرد آزمائی میں سرشار تھا ،تکبر سے بل کھاتا ہوا لپکا ،سیدنا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہی حملے میں اس کو نیز پراٹھا کر اس طرح زمین پر دے مارا کہ ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں اور دونوں لشکروں میں شو ر مچ گیا اور مبارزوں میں ہمت مقابلہ نہ رہی۔
سید نا وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے قلب دشمن پر پہنچے ۔جو مبارزسامنے آتا،اس کو نیزہ کی نوک پر اٹھا کر خاک پر پٹخ دیتے یہاں تک کہ نیز ہ پارہ پار ہو گیا ۔تلوار میان سے نکالی اور تیغ زنوں کی گردنیں اُڑاکر خاک میں ملا دیں جب اعداء اس جنگ سے تنگ آگئے تو عمر وبن سعد نے حکم دیاکہ سپاہی اس نوجوان کے گرد ہجوم کرکے حملہ کریں اور ہر طرف سے یکبار گی ٹوٹ پڑیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جب حسینی دلہا زخموں سے چو ر ہو کر زمین پر تشریف لائے تو سیاہ دِلانِ بد باطن نے اُن کا سرکاٹ کر حسینی لشکر کی طرف اچھال دیا۔
ماں اپنے لخت جگر کے سر کو اپنے منہ سے ملتی تھی اور کہتی تھی ،”اے بیٹا ! میرے بہادر بیٹا ! اب تیری ماں تجھ سے راضی ہوئی ،پھر وہ سر اس کی دلہن کی گود میں لاکر رکھ دیا،دلہن نے ایک جھرجھری لی اور اسی وقت پروانہ کی طرح اس شمع جمال پر قربان ہو گئی اور اس کی رُوح حسینی دُلہا سے ہم آغوش ہو گئی ۔
سر خروئی اسے کہتے ہیں کہ راہِ حق میں
سر کے دینے میں ذرا تو تا مل نہ کیا

Browse More Islamic Articles In Urdu