Open Menu

Gazwa Badar - Article No. 3425

Gazwa Badar

غزو ہ بدر ۔اسلامی افواج کی پہلی تاریخ ساز فتح - تحریر نمبر 3425

غزوہ بدر تاریخ اسلام کا وہ پہلا معرکہ ہے جب اسلام اور کفر، حق اور باطل کی پہلی براہ راست ٹکر ہوئی۔ اس معرکہ کے دوران مسلمان بہت قلیل تعداد میں جبکہ کفار کثرت تعداد میں ان سے کئی گنا زیادہ تھے۔

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ اتوار 10 مئی 2020

غزوہ بدر تاریخ اسلام کا وہ پہلا معرکہ ہے جب اسلام اور کفر، حق اور باطل کی پہلی براہ راست ٹکر ہوئی۔ اس معرکہ کے دوران مسلمان بہت قلیل تعداد میں جبکہ کفار کثرت تعداد میں ان سے کئی گنا زیادہ تھے۔ وسائل اور اسلحہ کا بھی کوئی موازنہ نہ تھا۔ مسلما ن اسلحہ کے اعتبار سے بہت کمزور جبکہ کفار اسلحہ سے لیس تھے۔ جزیرہ عرب کا اجتماعی ماحول، موجود قبائل کی اکثریت، عوام الناس کی بڑی تعداد اسلام کے خلاف تھی۔
اور اسلام اورنبی کریمﷺ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ قریش مکہ غرور اور نخوت کے ساتھ مسلمانوں سے تین گنا بڑی طاقت لے کر مسلمانوں کو کچلنے کے خیال سے حملہ آور ہونے جارہے تھے۔لیکن اس معرکہ حق و باطل میں کفر کو ایسی ہزیمت کا سامنا کرناپڑا کہ جس نے ان کی کمر توڑ دی۔

(جاری ہے)

ان کی طاقت کا زعم ختم کر دیا۔ انکی طاقت، غرورو تکبر کا بت اسی طرح ٹکڑے ٹکرے ہوا کہ بعد میں کفار کو اس طاقت کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی۔

اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔اللہ کریم نے اس کی خبر سورة آل عمران کی آیت نمبر 123میں بیان کر دی جس میں ارشاد ہوا (ترجمہ)اور بے شک مدد فرمائی تھی تمہاری اللہ تعالیٰ نے (میدان)بدر میں حالانکہ تم بہت کمزور تھے ۔پس ڈرتے رہا کرو اللہ تعالیٰ سے تاکہ تم اس (بروقت امداد کا)شکر ادا کر سکو۔(ترجمہ از جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری)۔
اس کو غزوہ بدر الکبریٰ، غزوہ بدر العظمیٰ، بدر القتال بھی کہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دن کو یوم الفرقان کے لقب سے یاد فرمایا ہے۔
یعنی وہ دن جب حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔ اللہ کریم نے سورة الانفال کی آیت نمبر۴۱ میں ارشاد فرمایا(ترجمہ ) اور جسے ہم نے اتار ااپنے (محبوب) بندہ پر فیصلہ کے دن جس روز آمنے سامنے ہوئے تھے دونوں لشکر۔
غزوہ بدر ۲ ہجری بمطابق ۱۳ مارچ ۶۲۴ ء کو مدینہ منورہ کے جنوب مغرب کے واقع بدر کے مقام پر ہوا۔
غزوہ بدر کے اسباب۔
پس منظر:

سرکار دوعالمﷺ نے جس دن مدینہ منورہ سے ہجرت فرمائی تھی تب سے اسلام کا پیغام چہار دانگ عالم میں پھیل رہا تھا۔ مختلف قبائل کے لوگ اسلام کی دعوت کو قبول کر رہے تھے۔ مسلمان بھی قدرے سکون کے ساتھ اپنے تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے کام میں مصروف عمل ہو گئے تھے مسلمانوں کی ترقی کی باتیں اور اسلام کی پذیرائی کے قصے عالم عرب میں ہر جگہ زیر بحث تھے ان حالات نے قریش مکہ کی قبائلی تعصب کو زور سے جھنجھوڑ دیا اور مسلمانوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے متعلق سوچنے لگے۔

چراگاہ مدینہ پر حملہ۔ غزوہ بنی صفوان:
۱۰ ربیع الاول کو مدینہ کے نواح میں ایک چراگاہ پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لئے اس چراگاہ کے کئی درخت کاٹ دئے۔ چرواہے کو قتل کردیااور اور جتنے بھیڑ بکریاں ہانک کر لے جا سکتے تھے لے گئے۔حضور اکرمﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے صحابہ کی ایک جماعت کے ہمراہ انکا تعاقب کیا اور وادی صفوان تک ان کے پیچھے گئے تاہم وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔
مسلمانوں کی چیلنج کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔
کفار کے تجارتی قافلوں کے تعاقب کی سرگرمی/سریہ عبداللہ بن حجش:
رجب ۲ ہجری میں ہجرت کے ۱۷ ماہ بعد حضور اکرمﷺ نے اپنے ایک غلام عبد اللہ بن حجش اسدی کو خفیہ طورپر کفار کے مختلف قافلوں کی خبر گیری کیلئے بھیجا۔ عبد اللہ بن حجش کے ساتھ ۱۲ مجاہدین کا ایک دستہ تھا۔ اتفاق سے انہیں ایک قریشی تاجروں کا قافلہ مل گیا لیکن چونکہ رجب حرمت والا مہینہ تھا اس لئے براہ راست حملہ نہ کر سکے۔
تاہم قریش کے قافلہ کی جانب سے اچانک حملہ کے پیش نظر واقد بن عبد اللہ نے ایک تیر مارا جس سے عمرو بن خضرمی ہلاک ہو گیا۔ مسلمان مجاہدین نے دولوگوں کو گرفتار کرلیا۔ باقی لوگ بھاگ نکلے اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ۔ حضور اکرم نے اس حرکت پر ان سے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اس ماہ میں جنگ کیوں کی تاہم بعد میں قرآنی آیات نازل ہوئیں اور قیدیوں سے فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا۔

غزوہ بدر کی فوری وجہ:
ابو سفیان جو اسلام دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا وہ ایک تجارتی قافلہ لیکر بغرض تجارت شام کی طرف روانہ ہوا۔یہ ایسا تجارتی قافلہ تھا جس میں مکہ کے ہر گھر نے اپنی استطاعت کے مطابق سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔آقائے دوعالمﷺ ان کی روانگی کی اطلا ع پا کر اس کے تعاقب میں نکلے لیکن رسول اللہﷺ کے پہنچے سے قبل وہ قافلہ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
اب اسی قافلہ کی واپسی کا وقت ہو رہا تھا ابو سفیان سے مسلمانوں کو خیر کی توقع نہ تھی۔ آپ کو معلوم تھا کہ اگر اس کو موقع ملا تو وہ ضرور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ اللہ کے نبی نے گھر بیٹھ کر اس کے حملے کا انتظار کرنے کی بجائے خود پیش قدمی کر کے اس کے تجارتی قافلہ پر حملہ کا فیصلہ کیا۔ہجرت کے انیس ماہ بعد بارہ رمضان المبارک بروز ہفتہ تین سوتیرہ یا تین سو پندرہ جانثاروں کو لیکر مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔

ابو سفیان کو اپنے جاسوس کے ذریعے مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اطلاع مل گئی۔ اس نے ایک شخص ضمضم بن عمروالغفاری ۲۰۰ اوقیہ چاندی بطور معاوضہ دے کر مکہ مکرمہ روانہ کیا۔ اس عرب کے دستور کے مطابق اونٹ کی ناک چیردی کان کاٹ دئے ۔ کچاوہ الٹ دیا اور زور زور سے کہنے لگا کہ اپنے قافلہ کو بچاوٴ اس پر محمد اور اس کے ساتھیوں نے چڑھائی کر دیاہے۔
یہ سن کر کفار مکہ نے بھرپور تیاری کی مسلح لشکر تیار کیا اور مسلمانوں کا نام و نشان ختم کرنے کا عزم لیکر تقریبا ۹ سو یا ۱۰۰۰ افراد پر مشتمل قافلہ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا۔لیکن اسی دوران ابوسفیا ن نے بہت چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمندر کے ساتھ ساتھ ایک طویل راستہ اختیار کیا اور بخیریت منزل کے قریب پہنچ گیا۔ اب تجارتی قافلہ کی طرف تو مکمل خیریت رہی تھی لیکن کفار مکہ کے سرداروں نے مسلمانوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔

دوسری طرف سرکار دوعالمﷺ جب زفران کے مقام پر پہنچے تو پتا چلا کہ تجارتی قافلہ تو نکل گیا ہے اس مقام پر حضور کے مجلس مشاورت طلب کی۔جبکہ آپ کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ کفار مکہ کا لشکر پور ی شان و شوکت کے ساتھ پیش قدمی کر رہا ہے۔حضور نے مجلس مشاورت میں تمام افراد کو جمع کیا اور رائے طلب کی۔ مہاجرین میں سے سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے خوبصورت گفتگو کے ذریعے اپنی وفاداری کا اظہار فرمایا ۔
پھر مقداد بن عمرو اٹھے اور انہوں نے بھی اپنی وفاداری کا اظہار فرمایا انکا یہ جملہ تو تاریخ میں سنہرے الفاظ کے ساتھ موجود ہے کہ ہم وہ جواب نہیں دیں گے جو بنو اسرائیل نے دیا تھا کہ آپ جانیں اور آ پ کا خدا جانے بلکہ آپ اگر ہمیں برک الغماد تک بھی جانے کا حکم کریں گے تو ہم وہاں تک جائیں گے۔ پھر حضرت سعد بن معاذ نے کھڑے ہو کر ایک شاندار خطبہ ارشاد فرمایا جو ایک طرف کو عربی ادب کا شاکار ہے تو دوسری طرف معانی کا ایک جہاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
انہوں نے علی الاعلان عرض کی کہ ہمیں قسم ہے اس ذات کی جسکے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے کہ اگر آپ ہمیں سمندر میں اترنے کا حکم بھی جاری کر دیں تو ہم وہاں بھی چھلانگ لگانے سے گریز نہیں کریں گے۔
واقعات بدر:
مشاورت کے بعد ۳۱۳ مجاہدین ۷۰ اونٹوں اور ۲ گھوڑوں پر مشتمل قافلہ روانہ ہوا۔راستہ میں کم عمر بچوں کو واپس بھیج دیا گیا لیکن کچھ معصوم صحابہ کرام شوق شہادت سے سرشار ہو کر لشکر کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
یہ ایک ایسا لشکر تھا جس کے پاس ہتھیار پورے نہ تھے۔گھوڑے اور تلواریں بھی پوری نہ تھیں لیکن اللہ اور اس کے نبیﷺ پر بھروسے کی طاقت سے مالامال تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہوا یہ اپنی نوعیت کا منفرد جنگی لشکر میدان بدر پہنچ گیا۔اللہ کریم کو اس گروہ کی یہ نقل وحرکت اتنی محبوب تھی کہ جہاں جہاں نبی پاکﷺ نے اپنی قیام گاہ قائم کی اس کا ذکر بھی قرآن میں کر دیا۔
سر کار دوعالمﷺ عدوةالدنیا کی طرف سے میدان بدر میں داخل ہوئے اور ایک جگہ پر خیمہ زن ہونے کا حکم ارشاد فرمایا۔حضرت خباب بن منذر نے دریافت کیا کہ کیا یہ قیام اللہ کے حکم کے ساتھ ہے یا جنگی چال ہے تو آقائے دوعالمﷺ نے فرمایا یہ جنگی چال ہے۔ تو خباب بن منذر نے اس جگہ کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے سرکار نے خیمہ گاہ تبدیل کردی۔
حضرت سعد بن معاذ کے مشورے سے حضور کے قیام کے لئے ایک اونچی جگہ منتخب کی گئی جہاں پر حضور اکرمﷺ اور سیدنا صدیق اکبر تشریف فرما ہوئے۔ اور حضرت سعد بن معاذ خود تلوار لے کر آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہو گئے۔
جنگ سے پہلے کی رات کے حالات:
یہ جمعہ کی رات تھی تمام مجاہدین تھکن سے چور تھے اللہ تعالیٰ نے تمام لشکر پر نیند غالب کر دی اور سارا لشکر خوب سویا یہاں تک کہ وہ ترو تازہ ہو گئے ۔
سرکاردوعالمﷺ ساری رات جاگتے رہے اور اللہ کے حضور سر بسجود رہے۔ جبکہ لشکر کفار ساری رات شراب پیتا رہا اور داد عیش دیتا رہا رقص و سرود کی محفلیں سر گرم رہیں۔
میدان بدر میں حضورﷺ کی دعائیں:
یوں تو ہر لمحہ حضور اکرمﷺ کی زباں اللہ کے حضورسراپا دعا تھی لیکن کچھ خاص دعاوٴں کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ ان دعاوٴں کو جسٹس پیر محمد کرم شا ہ الازہری  نے ضیاء النبی میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔
ان میں سے کچھ حصول برکت کیلئے پیش خدمت ہیں۔
حضرت علی شیر خدا راوی ہیں کہ جس روز بدرکی جنگ شروع ہو گئی تو حضور کی زباں پر یاحیی یا قیوم کا ورد تھا۔ حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں نے اس دن اس کثرت اور قوت سے کسی کو اپنے حق کا واسطے دیتے نہیں سنا۔حضور عرض کرتے رہے اے اللہ اگر تو اس گروہ کو ہلاک کر دے گا تو پھر تیری عبادت بھی نہیں کی جائے گی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ بدر کے دن حضور اپنے قبہ میں تشریف فرما تھے اور یہ دعا مانگ رہے تھے کہ اے اللہ میں تجھے اس عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے۔ اے اللہ اگر تو اسے پورا نہیں کرے گا تو پھر تا ابد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔صاحب ضیاء النبی لکھتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر نے آقائے دوعالمﷺ کے ہاتھ پکڑ لئے اور عرض کیا کہ یہ کافی ہے یہ کافی ہے۔
آپ نے اصرار کی حد کر دی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ یوم بدر کو حضور نے مشرکین کی طرف دیکھا جنکی تعداد ایک ہزار تھی اور مسلمان ۳۱۳ تھے۔ یہ دیکھ کر حضور قبلہ رو کھڑے ہوئے اور رب کے حضور فریاد شروع کردی۔ حضور کے کندھے سے چادر گر گئی تو حضرت صدیق اکبر نے چادر دوبارہ آپ کے کندھے پر رکھی اور آپ کو پیچھے سے سینے سے لگا لیا اور عرض کی اے اللہ کے پیارے نبی آپ نے واسطہ دینے کی حد کر دی ہے ۔
یہاں تک کہ جبرئیل امین یہ آیت لے کر حاضر ہوئے سورة الانفال نمبر۹ (ترجمہ) اور یاد کرو جب تم فریاد کر رہے تھے تو اپنے رب سے اس نے تمہاری فریاد سن لی میں مدد کرنے والا ہوں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ جو پے در پے آنے والے ہیں۔
واقعات جنگ:
۱۷ رمضان المبارک ۱۷ مارچ۶۲۴ فجر کی نماز کے بعد حضور نے صف بندی فرمائی اور روایات کے مطابق انفرادی مقابلہ جات شروع ہوئے۔
سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی نکلا جس کو حضرت عمر کے غلام نے چشم زدن میں قتل کر دیا۔اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیع اور ولید بن عتبہ میدان میں اترے ان کے مقابلے میں حضرت حمزہ ، حضرت علی میدان میں اترے حضرت حمزہ نے شیبہ کوقتل کیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کیا،اس دوران عتبہ اور حضرت عبیدہ کی لڑائی شروع ہوئی اور حضرت علی نے ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کردیا پھر گھمسان کی جنگ شروع ہوئی ااس جنگ کے دوران دو ننھے مجاہدین معاذاور معوذ نے حضرت عبد الرحمان بن عو ف سے ابوجہل کے متعلق پوچھا۔
آپ کی نشاندہی پر دونوں ننھے مجاہدین ابوجہل کی طرف لپکے اس کو گھوڑے سے گرا دیا۔ معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ نے ابوجہل کا سر تن سے جدا کردیا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن معوذ نے اسکا سر تن سے جدا کیا۔اس گھمسان کی جنگ میں مسلمانوں کے۱۴ افراد شہید ہوئے جبکہ قریش کے ۷۰ افرا قتل ہو گئے جس میں بعض روایات کے مطابق ۳۶ حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔
۷۰ سے زائد افراد گرفتار ہوئے ان گرفتار شدگان میں عرب کے چوٹی کے معززین بھی تھے جس میں سے عباس بن عبد المطلب، عقیل بن ابی طالب اور اسود بن عامر ،سہیل بن عمرو اورعبداللہ بن زمعہ وغیر ہ شامل تھے۔
قیدیوں سے حسن سلوک:
سرکار دوعالمﷺ نے اسیران جنگ کے حوالے سے مشاورت طلب کی۔ حضرت عمر بن خطاب نے سب قیدیوں کو قتل کرنے کی تجویز دی جبکہ حضرت سیدنا صدیق اکبر نے جزیہ دے کر رہا کرنے کی تجویز دی ۔
حضور نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا حکم دیا۔ جو قیدی بوجہ غربت فدیہ نہیں دے سکتے تھے ان کو حکم ہوا کہ دس دس مسلمانوں کو تعلیم دیں۔ ان کا یہی فدیہ مقرر ہو گیا۔ مسلمانوں نے ان کفار کے ساتھ حسن سلوک کی انتہا کر دی مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر اکثر قیدی مسلمان ہو گئے۔
جنگ بدر میں کامیابی کے اسباب:
اللہ کریم نے فرشتوں کے ذریعے مدد اتاری اور مسلمانوں کو جنگ میں فتح نصیب ہوئی۔

بہتر حکمت عملی:
سرکار دوعالمﷺ نے بہتر حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے اچھی جگہ کا انتخاب کیا اور کنووں پر قبضہ کر لیا۔لشکر کی صف بندی بھی اعلیٰ انداز میں کی۔
ذوق شہادت:
مسلمانوں کی تعدادمیں کمی کے باوجود ان میں جذبہ شہادت فراواں تھا جس کے سامنے کفار نہ ٹھہر سکے۔
قریشی سرداروں کی موت:
جنگ کے ابتدائی مرحلہ میں کفار کے سرداروں کی موت نے کفار کے لشکر میں بددلی پھیلا دی جس کے باعث وہ شکست سے دوچار ہوئے۔

اثرات:
اشاعت اسلام میں تیزی:
اس جنگ کے بعد کثیر تعدا د میں کفار اسلام کی طرف راغب ہوئے اور اشاعت اسلام میں تیزی آئی۔
اسلامی شوکت کا مظاہرہ:
ہجرت کے بعد پہلی دفعہ کوئی بڑا معرکہ ہو ااور اسلامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ کفار کی شکست نے اسلام کی شوکت میں اضافہ کردیا۔

قریش کے غرورکا خاتمہ:
قریش مکہ جو کہ غرور اور نخوت سے بھرے ہوئے تھے ان کا غرور کا بت پاش پاش ہو گیا اور اسلام کی ہیبت طاری ہوگئی۔
حق اور باطل میں واضح فرق:
اس جنگ کی طرف روانہ ہونے سے قبل ابوجہل اور دیگر سرداران مکہ نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ خدایا دونوں جماعتوں میں جو بہتر ہے اسکو فتح عطا فرما اور جو ظلم پر ہو اسکو تباہ کردے۔
چنانچہ ان کی دعا کی مناسبت سے بھی حق و باطل کی وضاحت ہو گئی اور پورے عرب کو پتہ چلا کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔
خلاصہ کلام:
غزوہ بدر محض ایک جنگ نہیں بلکہ دو نظریات کا پہلا مقابلہ تھا ۔اس میں یہ بات واضح ہو گئی کہ محض عددی قوت معنی نہیں رکھتی بلکہ ایمان اصل طاقت ہے اگر اللہ کریم پر ایمان پختہ ہو گا تو کامیابی قدم چومے گی۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Browse More Islamic Articles In Urdu