Open Menu

Hazrat Umm E Umara K Hamla Karne Per - Article No. 3256

Hazrat Umm E Umara K Hamla Karne Per

حضرت اُمّ عمارہ کے حملہ کرنے پر - تحریر نمبر 3256

حضرت اُمّ عمارہ اُن انصاری عورتوں میں سے تھیں جو شروع میں مسلمان ہوئیں۔وہ بیعت العقبہ میں بھی شریک تھیں۔انھوں نے اکثر لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔

بدھ 16 اکتوبر 2019

پروفیسر مولانا محمد رفیق
حضرت اُمّ عمارہ اُن انصاری عورتوں میں سے تھیں جو شروع میں مسلمان ہوئیں۔وہ بیعت العقبہ میں بھی شریک تھیں۔انھوں نے اکثر لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔
غزؤہ اُحد کا واقعہ وہ خود سناتی ہیں کہ میں پانی کا مشکیزہ لے کر چلتی تاکہ کسی پیاسے یا زخمی مجاہد کو پانی پلاؤں ۔اس وقت میری عمر 43برس کی تھی۔

میرا خاوند اور دوبیٹے بھی اس جنگ میں شریک تھے۔
مسلمانوں کو فتح ہورہی تھی مگرکچھ دیر بعدکفار کا غلبہ ہو گیا۔میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب چلی گئی۔جو کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوتا میں اسے ہٹادیتی ۔پہلے میرے پاس ڈھال نہ تھی ،بعد میں ملی تو میں اس کے ذریعے کافروں کا حملہ روکتی تھی۔میں نے کمرپر کپڑا باندھا ہوا تھا،جس میں کئی چیتھڑے بھرے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

جب کوئی مسلمان زخمی ہوجاتا تومیں کپڑے کا ایک ٹکڑا جلا کر زخم میں راکھ بھر دیتی۔
وہ خود بھی زخمی تھیں۔ان کو ایک درجن کے قریب زخم لگے تھے اور ان میں سے ایک زخم بہت گہرا تھا۔
اُمّ سعید کہتی ہیں کہ میں نے اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کے کندھے پر ایک گہرا زخم دیکھا۔میں نے پوچھایہ کیسے لگا۔وہ کہنے لگیں کہ جب اُحد کی جنگ میں لوگ پریشانی میں اِدھر اُدھر پھررہے تھے تو ابن قمیہ نامی کافر یہ کہتاہوا آیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں۔
کوئی بتائے کہ وہ کہاں ہیں۔آج وہ بچ کر نہیں جاسکتے۔
حضرت معصب بن عمررضی اللہ عنہ اور چنددوسرے صحابہ اس کے سامنے آگئے۔میں بھی ان میں شامل تھی۔ابن قمیہ نے میرے کندھے پر وار کیا۔میں نے بھی اس پروار کیے،مگر چونکہ اس نے دوہری زرہ پہن رکھی تھی،اس لیے وہ بچ جاتاتھا۔مجھے جو زخم لگا وہ ایک سال تک ٹھیک نہیں ہوا۔اس دوران میں نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے حمراء الاسد کی لڑائی کا اعلان کردیا۔
اُمّ عمارہ بھی اس میں جانے کے لیے تیار ہوگئیں مگر زخمی ہونے کی وجہ سے شرکت نہ کرسکیں۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد سے واپس آئے تو سب سے پہلے اُمّ عمارہ کی عیادت کی اور جب پتہ چلا کہ افاقہ ہے تو بہت خوش ہوئے۔
اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ غزوئہ احد میں کفار گھوڑوں پر سوارتھے اور ہم لوگ پیدل تھے۔اگر وہ بھی پیدل ہوتے تو پھر صحیح مقابلہ ہوتا۔
جب کوئی گھڑ سوار مجھ پر وار کرتا تومیں ڈھال سے حملہ روکتی۔پھر جب وہ منہ پھیر کر مڑتاتومیں اُس کے گھوڑے کی ٹانگ پر حملہ کرتی۔جب اُس کی ٹانگ کٹتی تو وہ بھی گرتا اور اپنے ساتھ سوار کو بھی گرادیتا۔سوار کے گرنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے بیٹے کو آوازدے کر میری مدد کے لیے بھیجتے اور ہم دونوں مل کر سوار کا خاتمہ کر دیتے۔
اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے بائیں بازو پر زخم آیا اور خون تھمتانہ تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اس پر پٹی باندھ لو۔“
میری والدہ نے اس پر پٹی باندھ دی اورکہا کہ جاؤ کافروں سے جاکر لڑو۔یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا!کون اتنی ہمت رکھتاہے جتنی تورکھتی ہے؟
اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے خاندان کو دعائیں دیں۔
اُن کی تعریف بھی فرمائی۔
ایک موقع پر ایک کافر سامنے آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ یہی ہے جس نے تیرے بیٹے کو زخمی کیا تھا۔میں نے آگے بڑھ کر اس کی پنڈلی پر وار کیا ،جس سے وہ زخمی ہو کر ایک دم نیچے بیٹھ گیا۔یہ منظر دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:”بیٹے کا بدلہ لے لیاہے؟“
اس کے بعد ہم لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کافر کا کام تمام کردیا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu