Open Menu

Shab E Baraat K Fazal O Amaal - Article No. 3363

Shab E Baraat K Fazal O Amaal

شب برات کے فضائل و اعمال : متفقہ امور کا جائزہ - تحریر نمبر 3363

علماء کے اس برکت والی رات بارے دو قول ہیں۔ حضرات ابن عباس ، قتاد ہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر تھی، کیونکہ سورۃ قدر میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے اور عکرمہ اور ایک جماعت کا خیال ہے

Prof Allah Ditta پروفیسر اللہ دتہ بدھ 8 اپریل 2020

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ ۝ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ۝
بے شک اسے ہم نے ایک بڑی برکت والی رات میں نازل کیا۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ (سورۃ الدخان:3-4)
علماء کے اس برکت والی رات بارے دو قول ہیں۔
حضرات ابن عباس ، قتاد ہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر تھی، کیونکہ سورۃ قدر میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے اور عکرمہ اور ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ پندرہ شعبان کی رات تھی لیکن صحیح پہلا قول ہے۔ (مدارک التنزیل :3/286)
ویسے نصف شعبان کی رات بھی بڑی برکتوں والی رات ہے۔

(جاری ہے)

اس کی فضیلت میں متعدد احادیث مروی ہیں:
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لیے کہ اس میں غروب شمس سے فجر طلوع ہونے تک آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اس کی مغفرت کروں۔

کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی دوں۔ ہے کوئی بیمار کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا ۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ: 1388 )
ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات اپنے بندوں کی طرف خصوصی رحمت سے دیکھتے ہیں، (تو اس رات) استغفار (رحمت) طلب کرنے والوں کی بخشش کردیتے ہیں، اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور حسد کرنے والوں کو انہی کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
(کنزالعمال:7450)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے ۔ کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھایا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہیں اتنے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے۔
(ترمذی: 739)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے عیدین کی راتوں میں اور پندرہ شعبان کی رات میں عبادت کی اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن اور دل مردہ ہوجائیں گے ۔ (کنزالعمال:24107)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ راوی ہیں کہ بنى محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا کہ " کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہ (مجھے تو معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بتائیے کہ) کیا ہوتا ہے ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات کو لکھا جاتا ہے، بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے اس رات میں بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں " حضرت عائشہ نے عرض کیا۔
" یا رسول اللہ ! کوئی آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر بہشت میں داخل نہیں ہوسکتا " آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے میں نے عرض کیا " اور نہ آپ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی (آپ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گے ؟ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک اپنے سر مبارک پر رکھا اور فرمایا " اور نہ میں ! (یعنی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گا) مگر یہ کہ اللہ جل شانہ (اپنے فضل و کرم کے صدقہ) مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے " یہ الفاظ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمائے۔
(بیہقی نے یہ روایت الدعوات الکبیر : 530)
حضرت ابوموسی اشعری راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اللہ جل شانہ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برأت کو دنیاوالوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے " (سنن ابن ماجہ:1390)
بعض دیگر روایات میں ناحق کسی کی زندگی ختم کردینے والے، کافر ، حقوق العباد تلف کرنے والے، رشتہ داروں سے قطع تعلقی کرنے والے، ٹخنوں سے نیچاپاجامہ ، شلواریالنگی لٹکانے والے، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے، شراب پینے والے، زنا کرنے والے، عشار یعنی ظلم کے ساتھ محصول لینے والے، جادو کرنے والے، کاہن، عریف یا غیب کی باتیں بتانے والے ، صاحب عرطبہ یعنی باجا بجانے والے ، صاحب الشرطہ یعنی ظالموں کے نائب، احسان جتلانے والے ، مال تجارت کو جھوٹی قسموں کے ساتھ بیچنے والوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
یعنی یہ وہ بدبخت لوگ ہیں جو اس مقدس شب میں پروردگار کی عام رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالی محفوظ فرمائے آمین۔( ماخوذ ماثبت من السنۃ)
چونکہ حدیث میں کینہ رکھنے والوں کی بخشش نہ فرمانے کا کہا گیا جب تک صلح نہ کر لیں ۔ اس لیے بعض اسلاف اس رات کے آنے سے پہلے ناراض لوگوں کی صلح کروایا کرتےتھے اور ایک دوسرے سے حقوق العباد کی معافی مانگنے کا درس دیتے تھے۔
ہمیں چاہیے کہ حتی الامکان کسی کا دل دکھانےیا حقوق العباد کے ضائع کرنے سے باز رہیں اور اگر کبھی بتقاضائے بشریت ایسا ہو جائے تو معافی و تلافی میں دیر نہ کریں۔ اس کے لیےشب برات کا انتظار کرنا سخت مذموم ہے بہرحال سستی یا کسی اور وجہ سے اگر ایسا نہ کر سکیں ہوں تو اس رات کے آنے سے پہلے اپنے ناراض مسلمان بھائیوں کو منا لیا جائے۔ آج سوشل میڈیا نے جن اچھائیوں کو ختم کیا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آج خود چل کر کسی کے گھر جا کر منانے کے بجائے ایک میسج بھیج دیا جاتا ہے اور یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ میں نے معافی مانگ لی ہے بلکہ ایک اجتماعی میسج ٹائپ کر کےخود کو ہر طرح کے حقوق سے بری الذمہ سمجھ لیا جاتا ہے ایسا عمل درست نہیں ہے ۔
اس کی بجائے ناراض لوگوں سے قریب ہونے کی صورت میں بذات خود جاکر اور دور ہونے کی صورت میں فون کے ذریعے معذرت طلب کی جائے اور اگر کچھ حقوق ذمے آتے ہوں تو انہیں ادا کرنے کی سبیل کی جائے۔
یہ بڑی فضیلت والی رات ہے اس رات خوب عبادت کریں اور اللہ رب العزت سے اپنی بخشش کی دعا مانگیں اس لیے کہ اس رات میں دعا قبول ہوتی ہے حضرت عمر ؄فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان راتوں میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی (۱)جمعہ کی رات (۲)رجب کی پہلی رات(۳)پندرہ شعبان کی رات(۵،۴)عیدین کی راتیں۔
)مصنف عبدالرزاق: 7927)
پندرہویں شعبان کی شب میں اکثر صحابہ مثلاً حضرت عمر فاروق اور حضرت عبداللہ ابن مسعود وغیرھما سے منقول ہے کہ وہ اس رات کو یہ دعا بطور خاص پڑھا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِي فِي أَهْلِ السَّعَادَةِ فَأَثْبِتْنِي فِيهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَ عَلَيَّ الذَّنْبَ وَالشِّقْوَةَ فَامْحُنِي وَأَثْبِتْنِي فِي أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ، وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ
اے پروردگار! اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں اہل سعادت سے لکھ رکھا ہے تو اسے قائم رکھ، اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں گناہ گار و شقی لکھ رکھا ہے تو اسے مٹا دے اور ہمیں سعید و نیک بخت لکھ دے۔
بیشک جسے تو چاہے مٹائے اور جسے چاہے قائم رکھے اور تیرے ہی پاس امر الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ ( جامع البيان13/564)
مولانا قطب الدین خان دہلوی جن کی رائے کو علمائے دیو بند میں احترام و وقعت کی رائے سے دیکھا جاتا ہے آپ لکھتے ہیں کہ :"شب برأت کی عظمتوں اور فضیلتوں کا کیا ٹھکانہ ؟ یہی وہ مقدس شب ہے کہ پروردگار عالم اپنی رحمت کاملہ اور رحمت عامہ کے ساتھ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے دنیا والوں کو اپنی رحمت کی طرف لاتا ہے، ان کے دامن میں رحمت و بخشش اور عطاء کے خزانے بھرتا ہے۔
خوشخبری ہو ان نفوس قدسیہ کو اور ان خوش بختوں کو جو اس مقدس شب میں اپنے پروردگار کی رحمت کا سایہ ڈھونڈھتے ہیں عبادت و بندگی کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کی درخواست پیش کرتے ہیں اور مولیٰ ان کی درخواستوں کو اپنی رحمت کاملہ کے صدقے قبول فرماتا ہے۔" (مظاہر حق:1/824)
دارالافتاء دیو بند انڈیا نے اپنی ویب سائٹ پرشب برات بارے اپنے ایک فتوی میں لکھا ہے :"سورہٴ دخان میں ” لیلة المبارکہ“ کا ذکر آیا ہے، راجح قول کے مطابق اس سے شب قدر مراد ہے جس کی فضیلت بیشمار احادیث میں وارد ہے، اور قرآن پاک میں پوری ایک سورت ”قدر“ کے نام سے نازل ہوئی ہے، جس میں اس کی فضیلت خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔
اگرچہ بعض حضرات مفسرین نے سورہٴ دخان میں مذکور لیلة مبارکہ سے شب برأت مراد لی ہے۔شب برأت کی فضیلت بعض روایات میں آئی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالی بندوں کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں، توبہ کرنے والوں استغفار کرنے والوں، اپنی ضروریات کا سوال کرنے والوں کی دعائیں قبول فرماتے ہیں، اس لیے جس قدر آسانی سے ہوسکے، انفرادی طور پر ذکر تلاوت نماز میں مشغول ہوجائے اور ۱۵/ شعبان کے دن میں روزہ رکھنا مستحب ہے۔
"( جواب :40344)
مولانا شمس الحق عظیم آبادی جو علمائے اہل حدیث میں سے ہیں اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ" نصف شعبان کی شب کو قرآن شریف تلاوت کرنا ، ادعیہ ماثورہ اذکار صحیحہ پڑھنا ، صلوۃ نافلۃ اول شب کو بغیر جماعت اور بغیر ہیئت مخصوصہ کے یا آخر شب کو بجماعت لیکن بغیر ہئیت مخصوصہ کے ادا کرنا اور اللہ تعالی سے مغفرت چاہنا ، رحمت کی خواستگاری کرنا اور اپنے لئے دعائیں مانگنا اور دعا میں گریہ و زاری کرنا بھی بدعت نہیں ہے بلکہ موجب اجر جزیل و ثواب عظیم ہے اور اس باب میں بھی روایات متعدد ہ وارد ہیں۔
( فتاوی ص181) اس کے بعد انہوں نے متعدد روایات شب برات کے فضائل کے بارے میں روایت کی ہیں پھر لکھتے ہیں کہ " ان روایات سے معلوم ہوا کہ ماہ شعبان میں شب پندرہ بالخصوص بہت بزرگ ہے۔ اس میں نماز پڑھنا دعائیں مانگنا ثواب ہے۔ یہ روایتیں اگرچہ علیحدہ علیحدہ بہت قوی درجے کی نہیں ہیں مگرچونکہ متعدد طرق سے مروی ہیں اس لیے ایک کو دوسرے سے قوت حاصل ہے اور قابل احتجاج و عمل ہے کیونکہ اس سے زیادہ صحیح حدیث اس کے مخالف نہیں وارد ہے "( فتاوی ص182)
اور ہمارے اسلاف بھی اس رات کو عبادت کرنے کی اپنے متعلقین کو تاکید کیا کرتے تھے حضرت نظام الدین اولیا کے ملفوظات میں ہے کہ آپ اپنے مریدین کو اس رات کو عبادت میں گزارنے کی تلقین کیا کرتے تھے اور ممنوعات سے پرہیز کا درس دیتے تھے۔
(راحت المحبین ص150)
پچھلے دنوں مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایک شخص کا خواب بیان کیا ہےکہ ایک صالح شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ وظائف و اعمال بجا لانے کا کہا ہے جن کی بدولت کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے محفوظ رہا جاسکتا ہے ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس خواب کو بیان کرکے اپنے متعلقین کو درس دیا ہے کہ وہ ان وظائف و اعمال کو بجا لائیں۔
ہماری گزارش اتنی ہے کہ جب مفتی تقی عثمانی صاحب ایک صالح شخص کے خواب سے حجت پکڑسکتے ہیں اور کچھ وظائف و اعمال کے بجا لانے کا اپنے متعلقین کو درس دے سکتے ہیں تو وہ بزرگان دین جن کی حیثیت مسلمہ اور متفقہ ہے اور ان کی صالحیت و مشیخیت ، تقوی و پرہیز گاری اور امت میں ان کی قدر و منزلت پر اتفاق ہے بہت زیادہ لائق التفات ہیں کہ اس رات بارے اور دیگر امور بارے ان کے ارشاد فرمودہ وظائف و اعمال پر عمل کیا جائے ۔
اور ان بزرگان دین کی تعلیمات کے ذریعے امت میں موجود افتراق و انتشار کو ختم کرکے اتحاد و اتفاق ، امن وآشتی اور پیار و محبت کے جذبات کو عام کیا جائے ۔ پھر بھی اگر کوئی شخص ان وظائف کو بچا نہیں لانا چاہتا تووہ انہی امور کو بجالائے جس پر اس کا دل مطمئن ہو۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ شب برات کی فضیلت پر سبھی متفق ہیں اور اس رات انفرادی عبادت پر بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔
کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اجتماعی عبادت پر ویسے بھی حکومت نے پابندی لگا دی ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم انفرادی طور پر اپنے گھروں میں رہ کر خوب عبادات بجا لائیں ۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برأت کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں۔ اس رات کی تقدیس کا احترام کریں اور عبادت و بندگی، فرائض و قضا نمازوں کی ادائیگی، کثرت نوافل، صلوۃ التسبیح، صلوۃ التوبۃ، صلوۃ الحاجات، تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار کا مخلصا نہ نذرانہ پروردگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کی سعادتوں اور کامرانیوں کو حاصل کریں۔آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم .

Browse More Islamic Articles In Urdu