Open Menu

Syeda Imam Hassan RA - Article No. 3415

Syeda Imam Hassan RA

سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔۔فضائل و خصائل - تحریر نمبر 3415

تحریر پیر فاروق بہاؤالحق شاہ سیدنا اما م حسن رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور سیدہ فاطمہ کے بڑے صاحبزادے تھے۔آپکی ولادت 15رمضان المبارک 3ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ جمعہ 8 مئی 2020

سیدنا اما م حسن رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور سیدہ فاطمہ کے بڑے صاحبزادے تھے۔آپکی ولادت 15رمضان المبارک 3ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔
سرکار دو عالم ﷺ کو جب خبر ملی تو آپﷺ سیدہ فاطمہ کے گھر تشریف لائے ۔انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا اور اپنے لعاب دھن کے ساتھ گھٹی عطا فرمائی۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسن تجویز کیا۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حرب تجویز فرمایا تھا لیکن سرکار دو عالم ﷺ نے حسن پسند فرمایا۔ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا گیا اور اسی دن سرکار دو عالمﷺ نے آپکا نام تجویز فرمایا۔
خصائل و فضائل
حضرت سیدنا امام حسن سخیوں کے امام ،اولیاء کے تاجدار ،صاحب جود وسخا تھے۔

(جاری ہے)

آپ طبعا بہت ذیادہ منکسر المزاج ،حلیم الطبع ،کریم النفس ،سراپا عجز و انکسار تکالیف پر صبر کرنے والے ،اللہ پر کامل توکل رکھنے والے باوقار شخصیت تھے۔

زہد وعبادت میں ہمیشہ مشغول رہتے اور ہمہ وقت آپ کا دل اور زبان زکر الہی سے تر رہتا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سر سے لے کر سینہ اقدس تک آقائے دو عالم ﷺ کے مشابہ تھے۔جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سینہ اقدس سے لے کر پاؤں تک آقائے دو عالم ﷺ کے مشابہ تھے۔صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی بھی شخص حضرت حسن بن علیرضی اللہ عنہ سے بڑھ کر سرکار دو عالم ﷺ سے مشاہبت نہیں رکھتا تھا۔
(بخاری حدیث نمبر3752)
سن ۱۰ ھجری میں سورة آل عمران کی آیت نمبر61(آیت مباھلہ)نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ اس شان سے میدان میں تشریف لائے کہ حضرت اما م حسینرضی اللہ عنہ آقائے دو عالم ﷺ کی گود میں تھے ۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپکی انگلی تھامے ہوئے تھے۔سیدہ فاطمہ الزہرہ آپ ,ﷺ کے پیچھے تھی اور حجرت علی رضی اللہ عنہ انکے پیچھے تھے۔اس قافلے کا رعب اور جلال دیکھ کر کر نجرانیوں نے مباھلہ کرنے سے معزرت کر لی۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے خصوصی اعزازات
صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں حدیث مبارکہ موجود ہے جس میں بیان ہوا کہ ایک دن سرکار دو عالم ﷺ ممبر پر جلوہ افروز ہوئے اور آپﷺ کے پہلو میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما تھے۔ آپﷺ کبھی لوگوں کی طرف توجہ فرماتے اورکبھی حضرت امام حسن کی طرف پھر آپ نے ارشاد فرمایا یہ میرا بیٹا سردار ہے۔
یقینا اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گامعج۔مم کبیر طبرانی حدیث نمبر 18478 میں روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے حضور اکرم صلی اللہ وسلم مرض وصال میں تھے کہ سیدہ فاطمہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو آقائے دو عالم صلی اللہ وسلم کی بارگاہ میں لائیں اور عرض کی کہ ان کو کچھ عطا فرمائیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ حسن میری ہیبت اور سرداری کا مالک ہے جبکہ حسین میری جرات اور سخاوت کا۔

جنت میں نوجوانوں کے سردار
حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہ السلام ابھی عالم طفولیت میں تھے کہ آقائے دوعالم ﷺنے ان کو جنتی جوانوں کے سردار ہونے کی بشارت سنائی ۔کتب حدیث کی معتبر کتابوں معجم اوسط للطبرانی اور کنزالعمال وغیرہ میں یہ روایت موجود ہے( ترجمہ و مفہوم ) جب جنتی جنت میں قیام پذیر ہو جائیں گے تو جنت الفردوس کہے گی یا اللہ آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ مجھے آراستہ کریں گے تو اللہ کریم ارشاد فرمائیں گے کہ کیا میں نے تمہیں حسن اور حسین سے مزین نہیں کیا یہ سن کر جنت دلہن کی طرح ناز کرنے لگے گی۔

سنن ابن ماجہ میں حدیث مبارکہ درج ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
حضرت امام حسن کی جود و سخاء
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ جو دو سخا میں اپنی مثال آپ تھے ۔جو بھی آپ کے دروازے پر آتا اپ اسکو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے بلکہ انعام و اکرام سے مالا مال فرما دیتے ۔
عالم عرب میں آپکی سخاوت اور فیاضی کے چرچے تھے ۔آپ نے کبھی مال و دولت جمع نہ فرمایا ۔بلکہ جو مال بھی آتا اسکو تقسیم کر دیتے۔آپ کے دروازے پر ہر وقت حاجت مندوں کا ہجوم رہتا اور ہر شخص خالی جھولی بھر کر لے جاتا ۔حضرت اما م حسن رضی اللہ عنہ اکثر حج کے موسم میں پیدل حج کے لیے سفر فرماتے ۔اس وقت کے حالات کے مطابق عام تیز ذرائع سفر موجود ہونے کے باوجود وہ حرمت کعبہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اور اپنے تقوی کے پیش نظر پیدل حج فرماتے ۔
ایک دفعہ اس طرح کے سفر کے دوران آپ کے پاؤں مبارک متورم ہو گئے ،آپ نے اپنے غلام کو فرمایا کہ اپنی منزل پر پہنچ کر ایک حبشی ملے گا ،اس سے تیل خرید کر لے آناوہ اپنے پاؤں پر لگاؤں گا ۔وہ حبشی خود ہی حاضر ہو گیا۔جب اسکو معاوضہ دیا جانے لگا تو اس نے عرض کی مجھے رقم نہ دیں ۔بلکہ دعا فرما دیں ۔میری بیوی درد زہ میں مبتلا ہے ۔ کہ اللہ اسکو صحت دے اور بخیریت بچہ کی ولادت ہو جائے ،حضرت امام حسن نے فرمایا تم گھر جاؤ ۔
جیسا چاہتے ہو ویسا بیٹا پید ا ہوگا۔جب وہ گھر آیا تو جیسا امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔(شواھد النبوة صحفہ 302)
دلائل النبوة ازامام ابو نعیم میں درج ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک وقت اندھیری رات میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے تو عرض کی مجھے اپنی والدہ کے پاس جانا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں ساتھ جاؤں ؟ اس اثناء میں آسمان سے ایک نور ظاہر ہوا جسکی روشنی میں چلتے ہوئے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے پاس پہنچ گئے۔(دلائل النبوة صفحہ 487)
سنن ترمزی کتاب المناقب میں درج ہے کہ ایک بار حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کے کندھے پر سوار ہو گئے ۔
ایک صحابی نے عرض کی کیا شاندار سواری ہے ۔تو حضور اکرم ﷺ نے ازراہ محبت ارشاد فرمایا سوار کتناچھا ہے۔
سنن ترمزی میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ اکثر فرمایا کرتے کہ یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔یا اللہ میں انکو دوست رکھتا ہوں۔تو بھی انکو دوست رکھ۔ترمزی میں ایک اور مقام پر درج ہے کہ حضور اکرم ﷺ سیدہ فاطمہ کو فرماتے کہ میرے دونو ں بیٹوں کو لاؤ ۔
پھر ان دونوں کو سونگھتے اور سینے سے لگاتے۔
طبرانی میں ایک روایت موجود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے جبکہ آپ نے ایک چادر بچھا رکھی تھی ۔اس چادر پر حضور کے ساتھ سیدہ فاطمہ،حضرت علیرضی اللہ عنہ ،حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین بیٹھ گئے ۔حضور اکرم ﷺ نے چادر کے چاروں کونے پکڑ کر ان پر ڈال دی ۔
اور گرہ لگا لی ۔پھر دعا فرمائی یا اللہ تو بھی ان سے راضی ہوجا جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ایک وقت ایسا تھا کہ جب قریش کی جماعت سے ملتے تو ہمیں دیکھ کر وہ گفتگو روک دیتے ۔ہم نے بارگاہ رسالت میں شکایت کی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت کی قسم اس کا شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اسکے دل میں اہل بیت کی محبت نہ ہو۔

خلافت کا مختصر دور
امام حسن رضی اللہ عنہ 21رمضان المبارک 40ھ کو حضرت علی شیر خدا کی شہادت کے بعد 6ماہ سے8ماہ منصب خلافت پر متمن رہے ۔لیکن مسلمانوں کو باہمی افتراق سے بچانے کی خاطر آپ خلافت سے دست بردار ہو گئے اور باقی زندگی مدینہ منورہ میں عبادت میں گزاری۔
مدینہ منورہ مراجعت کے بعد آپرضی اللہ عنہ کا ذیادہ وقت لوگوں کو آقائے دو عالمﷺ کے فرامین کی تعلیم میں گزارا ۔
آپ رضی اللہ عنہ کا ذیادہ وقت مسجد نبوی میں بسر ہوتا ۔دور و نزدیک سے آنے والے علم کی پیاس بجھاتے ۔آپ رضی اللہ عنہ سے کئی روایات بھی مروی ہیں جو کتب احادیث میں موجد ہیں۔حج کے موقع پر اپرضی اللہ عنہ کے گرد ہجوم کثیر ہوتا ۔او ر زیارت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ۔
شہادت
شہادت کی تاریخ میں مورخین کا اختلاف ہے ۔
لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ آپرضی اللہ عنہ کی وفات زہر خوانی سے ہوئی ۔آپ رضی اللہ عنہ نے خود بھی ارشاد فرمایا کہ مجھے کئی دفعہ زہر دیا گیا لیکن موت نہ آسکی ۔لیکن اب کے زہر کی وجہ سے ہی موت آئے گی۔آپ رضی اللہ عنہ کو کس نے زہر دی اس میں بھی مختلف نام تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں ۔واللہ اعلم باالصواب
اللہ کریم ہمیں امام حسن رضی اللہ عنہ کے اسوة پر عمل کرنے کی توفیق دے امین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu