Open Menu

Ummul Momineen Hazrat Khadija Tul Kubra RA - Article No. 3395

Ummul Momineen Hazrat Khadija Tul Kubra RA

ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا - تحریر نمبر 3395

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد میں حضور رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک نم ہو جاتی تھی

بدھ 29 اپریل 2020

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ!”جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں ،جب لوگوں نے مجھے معاش سے محروم کر دیا تو انھوں نے مال سے میری مدد کی ،جب خدا نے دوسری بیویوں سے مجھے اولاد سے محروم رکھا تو ان سے مجھے اولاد عطا فرمائی۔
“حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ کو عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے ۔عمر میں بڑی ہونے کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے نکاح فرمایا اور آپ کے ہوتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

(جاری ہے)

آپ نے 25پچیس برس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وخدمت میں بیوی ہونے کی حیثیت سے گزارے اور اپنی تمام دولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھا ور کردی۔حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کے ایک ایسے گھر کی خوشخبری سنائی جو تازہ آبدار مرادید یا زبرجد(موتی) کا ہو گا جس میں شور ہو گا اور نہ ہی رنج وملال۔

ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حُسن سیرت،اعلیٰ اخلاق ،بلند کردار،عزت وعصمت اور شرافت ومرتبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقوں میں ”طاہرہ“ کے خوبصورت اور پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب ”قصی“ پر پہنچ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتاہے ۔
ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد خویلد کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا جو کہ بہت بڑے اور کامیاب تاجر تھے۔عام روایت کے مطابق حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”عام الفیل“سے پندرہ برس قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں تھیں،آپ کی تربیت وپرورش انتہائی نازہ نعم میں ہوئی․․․․․․ بالغ ہونے کے بعد آپ کا نکاح ابو ھالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا،ان سے آپ کے دولڑکے اور ایک روایت کے مطابق تین لڑکے ہالہ،طاہر اور حارث پیدا ہوئے اور یہ تینوں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتے ہوئے صحابیت کے مرتبہ پر فائز ہوئے․․․․․
ابوھالہ کے انتقال کے بعد حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوا۔
اس سے ایک لڑکی ہند پیدا ہوئی اور کچھ عرصہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے خاوند عتیق بن عائذ مخزومی بھی انتقال کر گئے․․․․دوسری بار بیوہ ہونے کے بعد آپ نے مزید نکاح کا ارادہ ترک کر دیا اور اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں تجارت کے فروغ میں صرف کرنا شروع کردیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعلیٰ اخلاق، بلند کردار،دولت وشرافت اور عزت کی وجہ سے قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے آپ کو کئی بار نکاح کا پیغام بھیجا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی حکمت اور خاموشی سے رد کر دیا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مال ودولت اور سامان تجارت کی کثرت تھی ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود لکھنا پڑھنا جانتی تھیں جس کی وجہ سے آپ اپنے کاروبار اور سامان تجارت کی خودنگرانی کیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تجارتی کاروبار شام اور یمن تک پھیل گیا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تجارتی قافلہ سب سے بڑا ہوتاتھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سامان تجارت مختلف لوگوں کے ذریعہ شام اور یمن تجارت کی غرض سے بھیجا کرتی تھیں اور ان کو بھی منافع میں شریک کر لیتیں ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تجارتی قافلوں کی نگرانی آپ کا قابل اعتماد اور معاملہ فہم غلام مسیرہ کیا کرتا تھا․․․․․ابن ہشام اور دیگر روایات کے مطابق ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام مسیرہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کی امانت ودیانت ،شرافت اور عالی نسب کا ذکر کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس مرتبہ تجارتی قافلہ کا نگران اور شریک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کو بنا کر بھیجا جائے․․․․․
اس دوران آپ ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے اور آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے غلام مسیرہ کے مشورہ کو مانتے ہوئے اس سلسلہ میں مسیرہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے کے لئے کہا․․․․․حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا اور سر پر ست ابو طالب کے مشورہ سے ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام مسیرہ کے ہمراہ تجارتی قافلہ کولے کر شام کے سفر پر روانہ ہو گئے ․․․․دو ماہ بعد جب تجارتی قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام مسیرہ نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان الفاظ میں شام کے تجارتی قافلہ اور سفر کے حالات وواقعات بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں کافی عرصہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ہوں اس دوران ہر طرح لوگوں کے ساتھ میرا واسطہ پڑا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کی رفاقت میں جو کچھ میں نے دیکھا وہ عجیب ترہے۔
میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کو مشکلات میں بلند حوصلہ ،مصائب میں پر سکون ،ہجوم میں باوقار اور خرید وفروخت میں انتہائی ذہین وفہیم اور دور اندیش دیکھا ہے ۔وہ بردبار اور متحمل مزاج نوجوان ہیں ان کی خاموشی میں وقار اور گفتگو میں دلکشی ہے، ان کے منہ سے کوئی فضول بات نہیں نکلتی ،لوگ اگر ان کو صادق وامین کہتے ہیں تو حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں ۔

ان کے موتی جیسے دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں ،پسینہ انتہائی خوشبودار ہے وہ دن کی روشنی میں حسین اور رات کی روشنی میں حسین تر نظر آتے ہیں۔ ان کی سوچ بہت وسیع اور کردار میں تنہا دیکتا وہ لاکھوں میں ایک اور اپنی مثال آپ ہیں ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تجارت ان کے سپرد کردیں بس کاروبار چمک اٹھے گا․․․․غلام مسیرہ نے مزید کہا کہ جب دوران سفر ”بصرٰی“ کے مقام پر پہنچے اور ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے تو اس خانقاہ کے راہب ”نسطورا“نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں؟میں نے جواب میں کہا کہ یہ بنو ہاشم کے گھرانے کا ایک پاکباز نوجوان ہے ۔
تو نسطورا نے کہا کہ اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرتا ۔پھر اس نے مجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کی آنکھوں میں سرخی کے بارے میں دریافت کیا اور جب میں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہر وقت موجود رہتے ہیں تو نسطور ابولا کہ وہ یقینا نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں․․․․دوسرے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے تجارتی سفر کا حساب کتاب پیش کیا ،اس دفعہ میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو توقع سے بڑھ کر نفع ہوا تھا(بحوالہ کتاب خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ص19)
کاروبار تجارت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت وامانت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی نے حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا․․․․حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ نے اپنی عزیز ترین سہیلی نفیسہ کے ذریعہ آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا اور سر پرست ابو طالب کی اجازت ورضا مندی کے بعد نکاح کے اس پیغام کو قبول کیا․․․․․
مقررہ تاریخ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے ملت ابراہیمی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح پڑھایا۔بوقت نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25پچیس برس اور حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 40چالیس برس تھی ۔
ابن سعد نے مہر کی رقم پانچ سو درہم بتائی ہے جبکہ ابن ہشام نے بیس اونٹینوں کا ذکر کیا ہے۔دعوت ولیمہ میں گوشت اور روٹی کا انتظام تھا،شادی کے دو اڑھائی سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتے ہوئے فرزند سعید عطا کیا ،جس کا نام قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکھا گیا جس کی نسبت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابو القاسم کہلانے لگے اور ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو القاسم کہہ کہ مخاطب کیا کرتی تھیں․․․․جب قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑسا چلنے لگے اچانک بیمار ہو کر وفات پاگئے․․․․․ قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے اڑھائی سال بعدا للہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی سعادت مند بیٹی سے نوازا، اس کے بعد یکے بعد دیگر حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیدا ہوئیں․․․․․جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 39برس سے زائد ہو گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے اڑھائی میل دور غار حرا میں عبادت کے لئے تشریف لے جاتے ۔
ابن ہشام کی ایک روایت کے مطابق ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہاں عبادت کے لئے جایا کرتی تھیں․․․․․
غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ورسالت کا اعلیٰ منصب پر فائز ہو جاتے ہیں․․․․اور دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع فرمارتے ہیں․․․دوسری طرف کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کرام کو مختلف انداز میں ستانا اور تکلیفیں دینے کا سلسلہ شروع کردیا․․․․․
شعب ابی طالب میں تین سال کا عرصہ مسلمانوں نے انتہائی دکھ،تکلیفوں ،اذیتوں اور مصیبتوں میں گزارا․․․․ان قیامت خیز لمحات اور آزمائش کی گھڑیوں میں ام الموٴ منین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑے صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا اور اس دوران ہر ممکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور آرام کا خیال کیا،جبکہ اپنا تمام مال ودولت پہلے ہی اللہ کے راستہ میں قربان کر چکی تھیں․․․․․اور شعب ابی طالب میں ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ کی صحت تیزی سے گرنے لگی،ناقص خوراک اور تفکرات کے ہجوم کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت خراب رہنے لگی ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی وفات کے چند روز بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون اور رفیقہ حیات بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں 25پچیس برس گزارنے کے بعد ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 10دس رمضان المبارک کو 65برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قبر میں اتر کر ام الموٴمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دفن فرمایا اور ہمیشہ ان کو یاد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے ․․․․آپ صلی اللہ علیہ وسلم چچا ابو طالب کی وفات کے بعد رفیقہ حیات حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کی وجہ سے غمگین رہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو ”عام الحزن(غم کا سال)قرار دیا․․․․․۔

Browse More Islamic Articles In Urdu