سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقیات و اصلاحات کا اجلاس

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ملک بھر کے طلبہ و طالبات کو دیئے جانے والے وظائف اور اٴْن کے صوبہ وائز تقسیم کے علاوہ پارلیمنٹ لاجز میں اضافی فیملی سوٹس کی تعمیر میں تاخیر کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

جمعہ 15 نومبر 2019 22:49

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 نومبر2019ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقیات و اصلاحات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 7 اکتوبر 2019 کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، گوادر میں صاف پانی کی سپلائی اور تقسیم کے پی ایس ڈی پی کے منصوبے کے حوالے سے 6 ستمبر 2019 کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ملک بھر کے طلبہ و طالبات کو دیئے جانے والے وظائف اور اٴْن کے صوبہ وائز تقسیم کے علاوہ پارلیمنٹ لاجز میں اضافی فیملی سوٹس کی تعمیر میں تاخیر کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

سفارشات پر عملد رآمد کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ نئی گنج ڈیم کے منصوبے کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ منصوبہ شروع سے نقائص کا شکار ہو گیااور منصوبے کے لاگت ریوائز ہوتی رہی۔ یہ منصوبہ 59ارب کا منظوری کیلئے بھیجا گیا 26ارب منظور ہوا اور 38ارب کا ایوارڈ کیا گیا اس منصوبے کے ڈئزاننگ میں مسئلہ تھا۔

اس کی بہتر منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔وزارت منصوبہ بندی کی طرف سے فنڈنگ میں تاخیر کی وجہ سے مسائل سامنے آئے۔26 ارب میں سی5 ارب روپے جاری کیے گئے۔ واپڈا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ منصوبہ 2012میں کنٹریکٹ ہوا 3سال میں مکمل ہونا تھا 2015میں اس کا پی سی روائز ہوا مگر کام منظور نہیں ہوا اور 2018میں پھر روائز کیا گیا یہ منصوبہ ایک صوبے سے متعلق تھا سندھ حکومت نے 7507ایکٹر میں سے 303ایکٹر زمین دی اور 50فیصد فنڈ بھی نہیں دیئے اس منصوبے کے کنسلٹنٹ نیسپاک اور ٹیکو تھے۔

رکن کمیٹی سینیٹر رخسانہ زبیری نے کہا کہ کوتاہی برتنے والے کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔ سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ جب فنڈ نہیں ہوتے تو نئے منصوبے شروع نہیں کرنے چاہئے جاری منصوبو ں کو وقت پر مکمل کرنے سے اضافی لاگت بچائی جا سکتی ہے۔ چیئرمین سینیٹر آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے 8ماہ پہلے واضح ہدایت کی تھی کہ وزارت منصوبہ بندی اور واپڈا اپنی اپنی مانیٹرنگ ٹیمیں بھیج کر رپورٹ پیش کریں اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ مختصر مدت کی چارسو اسکیموں کو ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں واپڈا،وزارت پلاننگ اور سندھ حکومت مانیٹرنگ رپورٹ کمیٹی کو پیش کریں۔ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے ہر منصوبے میں پی ای سی کے کنسلٹنٹ کو شامل کرنے کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی ڈبلیو پی کے ہر منصوبے میں پی ای سی کا کنسلٹنٹ ممبر شامل ہوتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 60 فیصد منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو سی ڈی ڈبلیو پی کے پاس نہیں جاتے اٴْن میں بھی پی ای سی کا ممبر ہونا چاہئے۔

300 وظائف کو مختلف 50 سیکٹر میں دینے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس پر بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کے حوالے سے ان وظائف کا مطالبہ کیا گیا تھا تا کہ دیہی علاقوں کی خواتین کے لئے کام کیا جا سکے۔ جس پر ایچ ای سی حکام نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے تفصیلی آگاہ کردیا جائے گا۔

کمیٹی اجلاس میں قابل تجدید توانائی پالیسی 2006اور 2019کی موازنہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2019کی قابل تجدید توانائی پالیسی بہت جامع اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کے ساتھ مل کر ترتیب دی گئی ہے اس پالیسی میں ٹارگٹ فکس کئے گئے ہیں جو پہلے نہیں تھے تمام صوبوں کو یکساں مواقع دیئے گئے ہیں اس پالیسی کو کیبنٹ کے آئندہ اجلاس میں پیش کر د یا جائے گا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ جو بجلی پیدا کرے گا اٴْس سے خرید ی جائے گی بلوچستان کے تین اضلاع میں قابل تجدید توانائی کو متعارف کرا رہے ہیں جہاں بجلی نہیں ہے وہاں لوگوں کو سستی سے سستی بجلی فراہم کی جائے گی۔ منی گریڈ ہو گا اور اگلے دوسالوں میں منی اور گرین انرجی کا سسٹم پاکستان میں کام کرے گا۔ 145کے قریب کمپنیاں آن بورڈ ہیں اور گرین انرجی سسٹم کیلئے معلومات ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

گوادر میں صاف پانی کی سپلائی اور تقسیم کے پی ایس ڈی پی کے منصوبے کے حوالے سے 6ستمبر 2019کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمدپر کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس منصوبے پر گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کام کر رہی ہے اور اس منصوبے کا بنیاد ی مقصد گوادر کی عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا تھا اس منصوبے کی لاگت 11ارب روپے ہے۔

ایکنک 2015میں اس کی منظور ی دی تھی اس منصوبے پر فروری 2017میں کام شروع ہوا اور پی سی ون کے مطابق 30جون 2019کو مکمل ہونا تھا اس پر عملی کام 45فیصد ہو چکا ہے جس پر 4500ملین خرچ ہو چکا ہے۔ 2019-20ء کے لئے 800 ملین مختص کئے گئے ہیں۔چیف پلاننگ گوادر ڈیولمپنٹ اتھارٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ پہلے کوارٹر کے فنڈز کی ریلیز بھی ابھی تک نہیں ملی وزارت پلاننگ حکام نے کہا کہ وزارت خزانہ اور اے جی پی آر بھی اس میں شامل ہوتے ہیں وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ پہلے کوارٹر کی ریلیز ہمارے پاس نہیں آتی۔

منصوبوں کیلئے پی ایس ڈی پی میں فنڈنگ پہلے اور دوسرے کوارٹر کیلئے، 20،20تیسرے اور چوتھے کواٹر کیلئے 30اور 30فیصد کی جاتی تھی۔اب 20، 30،30،20کے حساب سے کی جاتی ہے تا کہ منصوبے بروقت مکمل ہوسکیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فنڈز صوبائی کانسولیڈیڈ فنڈ میں چلا جاتا ہے جسے کمیٹی نے چیک کرنے کی ہدایت کر دی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایچ ای سی نے 17سالوں میں 2لاکھ 43ہزار 7سو 31وظائف ایوارڈ کئے جن میں سے 6ہزار 6سو 35غیر ملکی اور 237058مقامی وظائف شامل ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ انڈر گریجویٹ وظائف 45104ہیں ماسٹر کے 129652، ایم فل کے 45298اور پی ایچ ڈی کے 23639شامل ہیں۔صوبہ پنجاب کو 87ہزار 7سو 93، سندھ 33442کے پی کے 49277، اسلام آباد 6232بلوچستان 38294، آزاد جموں کشمیر 19194اور فاٹا کے 2570ایوارڈ کئے گئے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور غیر ملکی وظائف کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں تا کہ دیکھا جائے کہ ان میں کوئی جعلی ڈومیسائل والے شامل تو نہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ و طالبات کیلئے میڈیکل کے 5سو وظائف تھے اس کو کم کر کے 29پر لایا گیا ہم نے احتجاج کیا تو 150کر دیا گیا اس سا ل پھر 29کر دیا ہے کمیٹی سفارش کرے کہ اس سال اور آنے والے اگلے دو سالوں کیلئے اس کو گزشتہ دو سالوں کی طرح جاری رکھا جائے۔ جس پر ایچ ای سی حکام نے کمیٹی کو بتا یا کہ فاٹا اور بلوچستان کیلئے پانچ سو وظائف ہیں جو جنرل وظائف ہیں صوبہ کے پی کے نے میڈیکل کیلئے 29سیٹیں 2008میں مقرر کی تھیں۔

دو سا ل پہلے پارلیمنٹ ہاؤس سے سفارش کر کے ہر میڈیکل کالج کیلئے تین سیٹیں اور پھر اگلے سال کے لئے چار سیٹیں بڑھائی گئیں۔قائمہ کمیٹی نے اس حوالے سے پی ایم سی اور ایچ ای سی کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بلوچستان یونیورسٹی سے بلوچستان ائیکورٹ نے معطل کیا ہے اس کی انکوائری ہو رہی ہے اس کو لاہور کی یونیورسٹی میں ڈین بنایا جائے رہا ہے اس کو گرفتار کرنا چاہیے۔

پارلیمنٹ لاجز میں اضافی بلاکس کی تعمیر کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 104 فیملی سوٹس اور500 سرونٹ کوارٹر تعمیر کرنا تھے۔ یہ منصوبہ 29 ارب کا تھا۔ ایکنک نے 2010 میں اس کی منظوری دی۔منصوبے پر 2011 میں کام شروع ہوا اور اس پر1292 ملین روپے خرچ کیے گئے۔52 فیصد اس پر کام مکمل ہو چکا ہے۔

سرونٹ کوارٹرو دیگر مسائل کی وجہ سے اس کے کام میں مسائل کا سامنا کرناپڑا ہے۔ یہ منصوبہ 2013 میں مکمل ہونا تھا۔ مسائل کی وجہ سے ایک سال کی توسیع دی گئی۔دوسری مرتبہ 2016 میں بھی توسیع دی گئی اور منصوبے پر کام دسمبر2016 سے روکا ہوا ہے۔ معاملہ عدالت میں بھی ہے۔ ایوان بالاء اور ایوان زیریں کی بھی ہاؤس لائبریری کمیٹیاں بھی اس پر کام کر رہی ہیں اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہاؤس کمیٹی کی ہدایت پر مشترکہ پیمائش کر لی گئی ہے۔

نئے کنسلٹنٹ ایک ماہ ہائیر کر لیا جائے گا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹینڈر جاری کرنے میں چیزوں کو واضح کرنا چاہے کہ جو کام نہیں کرے گا اس کو اتنا جرمانہ ہوگا۔ڈپٹی چیئرمین کی کمیٹی کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو مکمل کرایا جائے گا۔ اراکین کمیٹی نے پارلیمنٹ لاجز میں صفائی اور دیگر مینٹیننس کے کاموں پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ قائمہ کمیٹی نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی، سیکرٹری منصوبہ بندی اور چیئرمین ایچ ای سی کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔

اجلاس میں سینیٹر زڈاکٹراسد اشرف، عثمان خان کاکڑ، رانا مقبول احمد، انجینئر رخسانہ زبیری، گیان چند کے علاوہ وزارت منصوبہ بندی، ایچ ای سی، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں