پیپلز پارٹی نے کراچی کو لسانی بنیادوں پر6ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا آغاز کردیا ہے ، سید مصطفی کمال

ٰ جسطرح سندھ کی تقسیم نامنظور ہے، اسی طرح سندھ کے دارالخلافہ کراچی کی تقسیم بھی نا منظور ہے، جو کام پاکستان کے دشمن آج تک نہیں کرسکے وہ پیپلز پارٹی کی تعصب زدہ، نااہل اور کرپٹ سندھ حکومت کررہی ہے،، چیئرمین پاک سرزمین پارٹی

جمعرات 6 اگست 2020 22:40

گ*کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 اگست2020ء) پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کے دارالخلافہ کراچی کو لسانی بنیادوں پر چھ ٹکڑوں میں تقسیم کرکہ سندھ کی تقسیم کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے، جسطرح سندھ کی تقسیم نامنظور ہے، اسی طرح سندھ کے دارالخلافہ کراچی کی تقسیم بھی نا منظور ہے، جو کام پاکستان کے دشمن آج تک نہیں کرسکے وہ پیپلز پارٹی کی تعصب زدہ، نااہل اور کرپٹ سندھ حکومت کررہی ہے، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنی بدترین کارکردگی سے عوام کے دل سے پاکستان کی محبت کم کررہی ہے۔

بنیادی سہولیات سے محروم افراد ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیں، پیپلز پارٹی کی تعصب زدہ صوبائی حکومت کے باعث پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی سیکیورٹی تھریٹ بن سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اس سے بڑا اور کیا ڈیزاسٹر ہوگا کہ این ڈی ایم اے کراچی کے نالے صاف کرنے پر مجبور ہے، این ڈی ایم اے کے کام سے کراچی کو فرسٹ ایڈ ضرور مل جائے گی لیکن یہ علاج نہیں ہے، کراچی کی صفائی میں اگر این ڈی ایم اے اور فوج بھی ناکام ہوگئی تو پھر قوم کس کو آواز لگائے گی۔

سندھ پاکستان کا صوبہ ہے، کوئی دوسرا ملک نہیں جو وفاق مداخلت نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم عمران اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کیساتھ کراچی پہنچیں اور اسوقت تک کراچی سے نا جائیں جب تک سندھ حکومت پاکستان کی معاشی شہ رگ کے مسائل حل نہیں کرتی۔ کراچی ایک ڈسٹرکٹ تھا، 18 ٹاؤن ایک ڈسٹرکٹ کے نیچے کام کرتے تھے۔ ڈی سینٹرلازیشن کا بہترین نمونے تھا، اب کراچی کو لسانی بنیادوں پر چھ ڈسٹرکٹ میں تقسیم کر کے ناصرف ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی افادیت کو ختم کر دیا گیا ہے بلکہ ایک بار پھر لسانی فسادات کا خطرہ بڑھا دیا ہے، آج کراچی میں ایک کی جگہ 6 مئیر کام کررہے ہیں۔

اختیارات کا رونا رو کر عوام کو گمراہ کرنے والے کراچی و حیدرآباد کے نام نہاد ٹھیکیداروں نی31 اکتوبر 2013 کو پیپلز پارٹی کی صوبائی کابینہ کا حصہ بن کر بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات اور وسائل اپنے ہاتھوں سے صوبائی حکومت کو دیے ہیں، 2013 میں سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کے 12 وزرائ و ایڈوائزر کے علاوہ گورنر سندھ تھے۔کراچی کے 6 میں سے 4 ڈسٹرکٹ آج بھی ایم کیو ایم کے ہی پاس ہیں۔

یہ مہینہ بلدیاتی نظام کا آخری مہینہ ہے، بلدیاتی اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے جسکی تحقیقات ہونی چاہیے، اہلیانِ کراچی و حیدرآباد کو خوف ہے کہ مئیر اور ڈپٹی مئیر ملک سے فرار ہوجائیں گے، اسی لیے بلدیاتی حکومتوں کے خاتمے کے ساتھ کراچی و حیدرآباد کے میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمینز کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔پاک سرزمین پارٹی نے جس مسئلے پر بھی آواز اٹھائی اس کا حل دیا اور ہم نے جو بھی حل تجویز کیا وقت نے اسے درست ثابت کیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر انیس قائم خانی ، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نیشنل کونسل کے زمہ داران بھی موجود تھے۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کراچی والوں کو چوروں نے نہیں بلکہ چوکیداروں نے لوٹا ہے۔ کراچی کو وفاق یا فوج کے حوالے کرنا مسائل کا حل نہیں، وزیراعظم خود کھڑے ہو کر سڑکیں نہیں بنوائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کا مقصد وزیر اعلیٰ کو خود مختار کرنا نہیں بلکہ صوبوں کو جو ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہیں، انہیں خودمختار کرنا ہے۔ جو اختیارات اور وسائل اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو ملے ہیں وہ گلی محلے تک جانے چاہیے، وزیر اعلیٰ کی صوابدید پر نہیں ہونا چاہیے کہ اختیارات اور وسائل نیچے منتقل کرے یا نہیں،جس طرح این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو پیسے ملتے ہیں ویسے ہی پی ایف سی ایوارڈ کے ذریعے ڈسٹرکٹ تک پیسے منتقل ہونے چاہئیں، کراچی کی تباہی روک کر اس کے زخموں پر مرہم رکھا جائے تو یہ شہر اکیلا آٹھ ہزار ارب روپے کما کر دے سکتا ہے۔ اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے جماعت اسلامی کی ریلی میں گزشتہ روز ہونے والی دہشتگردی کی پرزور مذمت بھی کی

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں