صحرائے تھر ایک بار پھر سنگین قحط سالی کی لپیٹ میں آگیا،بارشیں کم ہونے کے باعث غریب تھری باشندے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوگئے

قحط سالی کے بعد حکومت سندھ کی جانب امدادی گندم کی تقسیم شروع، امدادی گندم کی بندر بانٹ کی اطلاعات دوسری جانب قحط متاثر نادرا کے عمل سے نہ خوش قحط متاثرین کی بڑی تعداد امداد سے رہنے کا خدشہ ہے

جمعہ 28 ستمبر 2018 21:58

عمرکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2018ء) صحرائے تھر ایک بار پھر سنگین قحط سالی کی لپیٹ میں آگیاہے۔ اس سال بارشیں کم ہونے کے غریب تھری باشندے تھر سے بیراجی علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوگئے۔ قحط سالی کے بعد حکومت سندھ کی جانب امدادی گندم کی تقسیم شروع کردی گئی۔ گندم تقسیم میں اپنے اپنے بندوں میں امدادی گندم کی بندربانٹ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

عمرکوٹ کی قحط زدہ 25دیہاتوں میں 31390 خاندانوں کیلئے سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی ترسیل کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ دوسری جانب قحط متاثر نادرا کے عمل سے نہ خوش قحط متاثرین کی بڑی تعداد امداد سے رہنے کا خدشہ ہے۔ غریب لوگوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سندھ مستقل بنیادوں پر مسئلہ حل کرے۔

(جاری ہے)

پچاس کلو گندم کی فراہمی مسلئے کا حل نہیں ہے۔ تھرکے غریب متاثرین نے ’’این این آئی‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ امداد تو آٹے میں نمک کے مترادف ہے ۔

کئی متاثرین کا یہ بھی شکوہ تھا کہ یہ گندم سیاسی بنیادوں پر اپنے اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کی جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق تھرپارکر کے ساتھ عمرکوٹ کا صحرائی علاقہ بھی اس سال بارشیں کم ہونے کے باعث قحط سالی کے زد میں ہے جس کے باعث تھری باشندے اپنے مویشیوں کو لیکر بیراجی علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہے تھر ی باشندوں کے مطابق اس سال تھر میں بارش ایک سو ملی میٹر سے بھی کم ریکارڈ کی گئی ہے تھر کیلوگوں مطابق تھر میں دو ماہ میں تین سو ملی میٹر بارش ہونی چاہیئے تھی جوکہ نہ ہوسکی اس کی وجہ سے تھر کے غریب تھری باشندے شدید مشکلات کاشکار ہے غربت بیروزگاری افلاس کے باعث تھری باشندے پینے کے پانی نہ ہونے کے باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں اگر وقت پر حکومت نے اقدامات نہیں کیئے تو حالات مزید بگڑ سکتے ییں اس موقع پر ’’این این آئی‘‘سے متاثرین نے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے عبدلجبار نہڑی،رحیمداد ،گھمن تیجمال بجیر بشیر رحمت اللہ نے بتایا کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی شروع میں بارشیں ہونے سے ہم نے زمینیں وغیرہ ہموار کرکے فصلیں کاشت کی جن پر بھاری اخراجات ہوئے لیکن مقررہ مدت وقت پرمطلوبہ بارشیں نہ ہونے سے ہمیں کافی مالی نقصان ہوا اور فصلیں بھی کاشت نہیں ہوئی اور مویشیوں کا چارہ بھی ختم ہو رہا ہے جس کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی کرکے سندھ کے نہری علاقوں کی طرف جا رہے ہیں انہوں نے مزید کہا حکومتیں صرف اپنی اپنی میں مشغول ہیں عوام کو دینے کیلئے انکے پاس کچھ بھی نہیں انہوں نے بتایا کہ چارہ ختم ہونے کے باعث مویشیوں میں مختلف امراض پھوٹ پڑے ہیں لیکن سرکاری سطح پر نقل مکانی کرنے والوں کی گزگاہوں پر کہیں بھی مویشیوں کی دیکھ بھال کیلئے کوئی بھی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کیوجہ سے ہمارے مویشی بھی مررہے ہیں اور جو بچ گئے ہیں انکو اونے پونے داموں میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں دوسری جانب حکومت سندھ نے قحط سالی کے پیش نظر تھرپارکر کے ساتھ ساتھ عمرکوٹ کی پچیس صحرائی دیھوں کو قحط زدہ قرار دے کر بیشتر علاقوں میں امدادی کاروائیاں بھی شروع کی گئی لیکن نادرا کیجانب سے جاری کردہ لسٹ میں قحط سے متاثرین کی بڑی تعداد رہ جانے سے غریب عوام سخت انتشار کا شکار ہیں عمرکوٹ کی دیہہ ویھرو تھر میں قائم کردہ امدامی کیمپ میں قحط متاثرین کی بڑی تعداد امٹ آئی جس میں بیشتر شکایات کرنے لگے کہ ہمارے نام ہی نہیں لسٹوں میں اب ہم لوگ کہاں جائیں متاثرین کا کہنا تھا کہ جب ہالیہ الیکشن ہوئے تو پی پی امیدواران کو یہی پر ہی ووٹ دئیے تھے لیکن اب کہا جارہاہے کہ سندھ حکومت اور نادرا کیجانب سے جاری کردہ ڈیٹا میں آپ کے نام شامل نہیں ہیں آپکو امداد نہیں مل سکتی جبکہ دیگر چوبیس دیہوں کا کام ابھی باقی ہے رابطہ کرنے پر اسسٹنٹ کمشنر عمرکوٹ بابر نظامانی نے "این این آئی " کو بتایا کہ نادرا کیجانب سے جاری کردہ اعداد شمار میں 31390 قحط متاثر خاندانوں کی امداد کی جائے گی جس پر عمل درآمد جاری ہے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے موبائیل ایپ پر نادرا کی جانب سے ارسال کی گئی فہرست میں قحط متاثر کی تصدیق کیجاتی ہے اگر اسکا شناختی کارڈ نمبر درست بتاتاہے تو اسکو ٹوکن جاری کیا جاتا ہے بعد میں محکمہ فوڈ کیجانب سے قائم کردہ سینٹر سے پچاس کلو گندم وصول کرسکتا ہے دوسری جانب سماجی رہنماوں کی جانب سے مطالبہ کیا ہیکہ تھر میں حکومت سندھ کے ساتھ وفاقی حکومت بھی تھر میں قحط سالی سے نمٹنے کیلیے کوئی ٹھوس مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں یہ پچاس کلو گندم فراہمی مسئلے کا حل نہیں ہے وفاقی اور سندھ حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلے کیحل کیلیے کچھ کرنا ہوگا تھر کے غریب تھری باشندے کب تک امداد کے لیے اپنے ہاتھ پھیلاتے رہے گے ۔

عمرکوٹ میں شائع ہونے والی مزید خبریں