افغان نیشنل آرمی

اس کی قسمت میں بھگوڑے ہی رہ گئے ہیں۔۔۔۔امان اللہ ہزاروں افغان فوجیوں سے ایک ہے جو نئی افغان فوج میں بھرتی ہوئے لیکن چند ماہ بعد ہی بھگوڑے ہوگے تھے۔ سوال یہ ہے کہ امان اللہ او اس جیسے دیگر ہزاروں افسر اور جوان بھگوڑے کیوں ہو رہے ہیں؟

بدھ 3 فروری 2016

Afghan National Army
افغانستان پر حملہ کر کے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے طالبان کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور وہاں افغان نمائندوں پر مشتمل ایک حکومت قائم کر دی تھی۔ طالبان کی دوبارہ آمد کو روکنے اور قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے ایک منظم، مستحکم اور مضبوط فوج درکار تھی جس کا بیٹرہ بھی امریکہ نے اٹھایا اور ہر برس اربوں ڈالر خرچ کر کے افغان فوج کھڑی کر دی تاکہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ملک میں سکیورٹی کی صورتحال اس کے سپرد کی جا سکے ۔

نئی افغان فوج کا حصہ بننے والے افغان نوجوانوں نو جوانوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ ایسے ہی ایک نوجوان لیفٹیننٹ امان اللہ نے فوج میں کمشن حاصل کرتے وقت کہا تھا کہ وہ اپنی آخری سانس تک طالبان کے خلاف جنگ جاری رکھے گا اور انہیں کسی صورت ملک پر قبضہ جمانے کی اجازت نہیں دے گا۔

(جاری ہے)


اپنے اس جوش بھرے وعدے کے ٹھیک 15 ماہ بعد ہی یہ نوجوان افسر افغان فوج کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔

امان اللہ ہزاروں افغان فوجیوں سے ایک ہے جو نئی افغان فوج میں بھرتی ہوئے لیکن چند ماہ بعد ہی بھگوڑے ہوگے تھے۔ سوال یہ ہے کہ امان اللہ او اس جیسے دیگر ہزاروں افسر اور جوان بھگوڑے کیوں ہو رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ افغان سیاسی و عسکری اشرافیہ کی کرپشن کے باعث ان لوگوں کو محاذ پر لڑتے ہوئے نہ تو کھانے کو کچھ ملتا ہے اور نہ ہی بروقت انہیں تنخواہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

بھوکے پیٹ اور خالی جیب لڑنے والے افغان فوجیوں پر چہار جانب سے طالبان حملہ آور ہوتے ہیں تویہ افغان فوجی لڑنے کے بجائے میدان سے جان بچا کر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تباہ حال معیشت والے اس ملک کے بیروزگار نوجوان اپنے خاندان کی کفالت کا خواب لے کر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں اور جب اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر ان کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا لایعنی ہو جاتا ہے ۔

نیٹو نے 2014 میں ہی افغانستان میں عسکری کارروائیوں کا سلسلہ موقوف کردیا تھا۔ اب وہ نیٹو کے گنے چنے فوجی دستے ہی موجود ہیں جن کا بنیادی فریضہ افغان فوج کو تربیت فراہم کرنا اور اسے ایک منظم و مستحکم فورس میں ڈھالنا ہے۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سن کر ہی امریکہ نے افغانستان میں اپنے عسکری قیام کی مدت میں اضافے کا فیصلہ کیا تھا۔


افغان فوج کی عددی قوت ایک لاکھ 70 ہزار تھی اور گزشتہ ایک برس کے دوران میں اس تعدا کا ایک تہائی حصہ بھگوڑا بن چکا تھا۔ افغان فوجیوں کو صرف تنخواہوں کی عدم فراہمی کے مسئلے کا ہی سامنا نہیں بلکہ طالبان کے مقابلے میں افغان فوجیوں کو شدید جانی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس صورتحال میں اگر غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو افغان فوج کیلئے طالبان کے شدید حملوں کو پسپا کرنا تو دور کی بات، ان کا ڈھنگ سے سامنا کرنا بھی مشکل ہو گا ۔

امریکہ افغان فوج کی تشکیل اور تربیت پر اب تک 65 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور اس کی منصوبہ بندی یہ ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلاء کا عمل مکمل ہونے تک کم از کم 3لاکھ 50 ہزار افراد پر مشتمل افغان فوج تیار کی جائے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان کیمبل نے گزشتہ برس اکتوبر میں کانگریس کو مطلع کیا تھا کہ افغان فوجیوں کے بڑی تعداد میں بھگوڑے ہونے کی وجہ لیڈر شپ کی کمی اور چھٹی نہ ملنا ہے۔

بعض علاقوں میں فوجی 3برس سے زائد عرصہ سے مسلسل برسرپیکار ہیں۔ 2015 میں غیر ملکی افواج سے افغانستان میں عسکری کارروائیوں کا سلسلہ بند کر کے تمام آپریشنل ذمہ داریاں افغان فوج کے حوالے کر دی تھیں اور اس کے بعد سے میدان جنگ میں طالبان کے مقابلے میں مارے جانے والے افغان فوجیوں کی شرح میں 26 فیصد اضافہ ہوچکاہے۔2015 سے لے کر اب تک میدان جنگ میں مارے جانے والے افغان فوجیوں کی تعداد 16 ہزار کے لگ بھگ ہے۔


افغان فوج کی جانب سے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تربیت دلانے کے لئے قومی ٹی وی پر بھر پور اشتہاری مہم چلا رہی ہے جس میں افغان فوجیوں کو جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر مشقیں کرتے اور بہترین میس میں کھانا کھاتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ فیلڈ میں صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ اعلیٰ فوجی افسروں او رسیاستدانوں کی کرپشن کے باعث فوجی نوجوانوں کو نہ تو ڈھنگ کے کھانے اور پہنے کو ملتا ہے او نہ ہی نہیں بروقت تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں حتی کہ ان کو فراہم کیا جانے والا اسلحہ بھی غیر معیاری ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghan National Army is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.