آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی

بھارت میں خواتین کی پہلی سیاسی جماعت حقوق نسواں کیلئے قائم پارٹی کی بانی مسلمان خاتون ہیں

ہفتہ 17 مارچ 2018

All india mahila empowerment party
رابعہ عظمت
بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو بااختیار بنانے ان کی سماجی، سیاسی قانونی اور دیگر حقوق کے تحفظ اورمنفی مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کے مقصد سے ”آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی“ کے نام سے خواتین کی پورے ہندوستان کی سیاسی جماعت قائم کردی گئی ہے ۔ اس کی سربراہ انسانی حقوق کی کارکن اصلاحی سکالر اور ہیرا گروپ آف کمپنیز کی سی ای او ڈاکٹر نوہیرا شیخ ہیں۔

ا نہوں نے نئی دہلی میں کانفرنس میں پارٹی کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد بھارتی خواتین کو بلا لحاظ مسلک، مذہب، علاقہ اور ذات برادری بااختیار بنانا اور انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام دلانا ہے خواتین کے تعلق سے مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں کے رویے کے حوالے سے انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگروہ مطمئین ہوتیں تو پارٹی کے قیام کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

پارٹی آل انڈیا صدر زہیرا شیخ نے کہا کہ اب تک کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہا ۔ نہ وہ کسی پارٹی کی ممبر ہیں نہ اسمبلی وپارلیمنٹ کی رکن ہیں ۔ انہوں نے خواتین کے مسائل کے بارے حکومتوں کا رویہ دیکھا ہے جو بہت ہی غیر اطمینان بخش ہے ۔ اسی لئے انہوں نے سوچا کہ وہ خواتین کی پارٹی بنا کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ انہوںنے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کے دروازے تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے کھلے ہیں ۔

البتہ اس میں 80 فیصد خواتین اور 20 فیصد مرد ہوں گے۔ زہیرا شیخ نے مزید کہا ہے کہ اب تک بھارت کی تمام ریاستوں سے 16 لاکھ افرا د اس پارٹی کے ممبر بن چکے ہیں جن میں 80 فیصد خواتین ہیں اور ان میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے بتایا کہ ان کی پارٹی تمام 29 ریاستوں میں سرگرم رہے گی اور فی الحال اپنی انتخابی مہم کا آغاز مغربی ریاست کرناٹک میں عنقریب ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حصہ لے کر کیا جائے گا۔

پارٹی کی دہلی برانچ کے صدر محمد عاقل نے بتایا کہ یہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہے تاکہ پورے بھارت کی عورتوں کا بااختیار بنانے کی اپی مہم کو بھرپور انداز میں چلاسکے۔ پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سب سے پہلے قانون ساز اداروں میں خواتین کے لئے 33 فیصد نشستیں مخصوص کرانے کے بل کو جوکہ سولہ برسوں سے پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے منظور کرانے کی کوشش کرے گی۔

ہیرا گروپ مغربی ریاست آندھرا پردیش میں دو تعلیمی اداروں اور 20 تجارتی کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ سونا سرمایہ، ٹیکسٹائل، زیورات، منرل واٹر، گرینائٹ، ٹورس اینڈ ٹریولیس، رئیل اسٹیٹ، الیکٹرونکس اور حج و عمرہ سروسز جیسے شعبوں میں سرگرم ہے۔وہ بھارت کے علاوہ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، چین، کینیڈا، گھانا سمیت متعدد ملکوں میں کاروبار کرتا ہے جو کہ غیر سودی نظام پر مبنی ہے۔

پارٹی سربراہ ڈاکٹر زہیرا شیخ نے 19 سال کی عمر میں آندھرا پردیش کے مندروں کے شہر تروپتی میں لڑکیوں کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کیاتھا جس کا مقصد قرآنی آیات کے تحت زندگی گزارنے کے طریقے سکھانا ہے اور یہ ادارہ اب کافی وسیع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا ایک عالمہ بھی ہیں ، پابند شرع ہیں اور خالص اسلامی اصولوں پر تجارت کرتی ہیں، ان کی تجارت سود سے پاک ہے۔

ملک وبیرون ملک بہت سے لوگوں نے ان کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا نفع نقصان کی بنیاد پر سرمایہ کاروں کوان کا حصہ دیتی ہیں۔ انہیں تجارت کے میدان میں متعدد عالمی ایوارڈ بھی حاصل ہوچکے ہیں۔ 1998ءسے ہی خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ دسمبر 2016ءمیں بھی دہلی میں خواتین کی سیاسی جماعت قائم کی گئی تھی اور اسے ہندوستان کی پہلی خواتین کی سیاسی جماعت قرار دیا تھا اس کی صدر نسیم بانو تھی جوگزشتہ تیس برسوں سے سماجی خدمات کے شعبے سے سرگرم ہیں۔

لیکن اس کے بعد پارٹی کا نام نہیں سنا گیا اور نہ ہی اس کی کوئی سرگرمی نظر آئی ۔ اس نے اپنے ممبران کی تعداد بھی نہیں بتائی تھی۔ ممکن ہے کہ وہ اب بھی کام کررہی ہو لیکن اس کی سرگرمیاں میڈیامیں نظر نہیں آئیں۔ آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ ہندوستان کے سیاسی نقسشے پر ابھرنے والی یہ واحد جماعت ہے جس نے انصاف ، انسانیت کے لئے نعرہ بلند کیا ہے ۔

پارٹی کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہیں نوہیرا شیخ کا کہنا ہے کہ ”اس سیاسی جماعت کے قیام کا بنیادی مقصد بھارتی خواتین کو ایک باعزت مقام دلانا ہے۔“ ڈاکٹر نوہیرا کہتی ہیں مرکزی سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی بات ضرور کرتی ہیں مگر عمل کچھ نہیں کرتی۔ اگر کسی سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ کیا بھی ہے تو برائے نام۔ مجموعی طور پر بھارتی مہیلاﺅں کے لئے گھر میں اور گھر کے باہر زندگی بسر کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے۔

موجود ہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے ہندوستانی خواتین مطمئین نہیں ہیں‘ اس لئے انہوں نے ان کی فلاح وبہبود کے لئے اور ملک میں تبدیلی لانے کے عزم سے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں خواتین کی کیا اہمیت ہے اور عملا انہیں کیا حقوق حاصل ہیں؟ اس کا اندازہ ان کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے سنگین جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور 20 ءلاکھ سے زائد گھناﺅ نے واقعات پیش آچکے ہیں۔

یعنی ہر دو منٹ میں ایک عورت کسی بھی جرم کا شکار بنتی ہے۔ زیادہ تر ایسے واقعات بھی ہیں جو پولیس تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ دیہاتوں ، قصبوں، گاﺅں، گھروں اور گلی گوچوں تک محدود رہ جانے والے جرائم کی تعداد کئی گنا زیادہ بتائی جاتی ہے انہیں انہیں ہر جگہ مردوں کی جانب سے ہراساں کئے جانے ،جسمانی تشدد، مجرمانہ حملے اور اغوا کئے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔

بھارت میں انسانی حقوق کے متعدد ادارے کام کررہے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لئے آوازبلند کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں۔ میڈیا بھی ایسے معاملات کی زیر بحث لاتاہے ۔ اس کے باوجود حقوق نسواں اور تحفظ نسواں کے حوالے سے صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ بھارتی سیاسی جماعتیں ان کے حقوق اور تحفظ کی بات ضرور کرتی ہیں مگر ان کے بیانات عملی شکل اختیار نہیں کرتے یوں بھارتی ناری مصائب میںگھری ہوئی نظر آتی ہے۔

1970ءکی دہائی سے بھارت کی سیاسی پارٹی میں خواتین کیلئے الگ سیل قائم کیا جاتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس میں اس شاخ کا نام مہیلا کانگریس ہے ۔ سی پی آئی میں یہ شاخ نیشنل فیڈریشن آف ویمن ان انڈیا کے نام سے مشہور ہے۔ سی پی آئی ایم میں اس شاخ کا نام آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھی مہیلا مورچہ کے نام سے الگ سیل قائم ہے ۔

تاہم آر ایس ایس پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندگی کے خلاف ہے ان کے مطابق عورتوں کے لئے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں زیاں کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت میں بعض جماعتوں کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کو محض نشستوں کے لئے نامزد کرتی ہیں جن کے بارے میں انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا مرد امید وار ہار جائے گا۔ تاہم بھارت میں خواتین کے خلاف سنگین جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

چلتی بس میں تشدد ، سڑکوں، چوراہوں، پر سرعام عورتوں کی عزت سے کھیلنا بھارتی معاشرے کا چلن بن چکا ہے۔ ایسے میں خواتین کی علیحدہ سیاسی جماعت کا کردار خاصا اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہندوستان جیسا انتہا پسند سماج جہاں کی مودی حکومت نے گائے کے تحفظ کا توواویلا مچا رکھا ہے لیکن خواتین کو ذلیل ورسوا کرنے کیلئے غنڈوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق تشدد میں اضافے کی وجہ سے خواتین سیاست میں آزادانہ حصہ لینے سے گریز کرتی ہیں۔ خواتین سیاست دانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے ، کردار کشی اور انہیں دیگر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک تحقیق میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ خواتین سیاست دانوں کو مخالف سیاسی لیڈروں کے علاوہ اپنی سیاست پارٹی کے مرد سیاست دانوں کی جانب سے بھی سخت مخالف کا سامنا رہتا ہے۔

سیاسی پارٹیوں میں مردوں کی بالادستی کے باعث خواتین سیاست دان اپنا سیاسی سفرجاری نہیں رکھ پاتیں۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق جہاں خواتیں امیدواروں اور خواتین سیاسی کارکنوں کی تعداد بڑھی ہے وہیں انتخابی ایوانوں میں خواتین کی نشستوں میںکمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں خواتین کی نشستوں کی تعداد صرف 11فیصدہے۔ جو ایک ارب20 کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے کم تر ہے۔

مذکورہ تناسب مکمل طور پر پورے ہندوستان کی عورتوں کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی میدان میں بھارتی خواتین سیاست دان سب سے زیادہ یعنی 45 فیصد جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ جبکہ بھارت میں چند خواتین ہی اپنے مسائل کے حوالے سے بات کرتی ہیں۔ میڈیا رپورٹوں اور 2014ءکے عام انتخابات میں بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ بھارتی خواتین سیاست دانوں کو کس قدر ظلم سہنے پڑتے ہیں۔

قانونی اداروں اور عدلیہ کی جانب سے امداد کی عدم فراہمی کے نتیجے میں خواتین خوف کے باعث سیاست چھوڑ دیتی ہیں اور 90 فیصد عورتیں سیاست دانوں کو ہراساں کرنے خوف انہیں سیاسی میدان میں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں سیاسی پارٹیوں کی الیکشن مہم کا حصہ بننے والے سیاسی کارکنوں ، پولیس اہلکاروں الیکشن کمیشن اور خواتین سیاست دانوں کے اہلخانہ کی رائے بھی شامل کی گئی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

All india mahila empowerment party is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 March 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.