الله کی مخلوق

ہمارے اوقات کار کچھ اس طرح سے ہیں کہ واپسی خاصی دیر سے ہوتی ہے۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں گاڑی کی روشنی سڑک کے اندھیرے سنسان کناروں پر پڑتی ہے تو زنانہ کپڑوں اور رنگ برنگے میک اپ سے لتھڑے ہوئے کچھ چہرے نظر آتے ہیں

Afshan Khawar افشاں خاور بدھ 12 ستمبر 2018

ALLAH Ki Makhlooq
ہمارے اوقات کار کچھ اس طرح سے ہیں کہ واپسی خاصی دیر سے ہوتی ہے۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں گاڑی کی  روشنی سڑک کے اندھیرے سنسان  کناروں پر پڑتی ہے تو زنانہ کپڑوں اور رنگ برنگے میک اپ سے لتھڑے ہوئے کچھ چہرے نظر آتے ہیں۔سرد  اوس سے بھیگتی رات میں،جب گاڑی کے اندر   بیٹھے ہوئے بھی ہیٹر چلانا پڑتا ہے وہاں اللہ تعالٰی کی یہ مخلوق گرم کپڑوں سے بے نیاز اپنے اس  رزق کی تلاش میں نکلی ہوئی ہوتی ہے جس  کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا لیکن وہ بد قسمتی  سے  رزق کی تلاش میں صیح راستے کا انتخاب نہ کر سکے۔


ان لوگوں کی اناٹومی، فزیالوجی  اور نفسیات  کے بارے میں بات کرنا ھمارا موضوع گفتگو نہیں ہے ۔ کیونکہ  ھمارا یہ ماننا ہے کہ بات وہی کرنی چاہیے جس کے بارے میں آپ مکمل علم  رکھتے ھوں۔

(جاری ہے)

جس طرح صفحے کے دو رخ ہوتے  ھیں اسی طرح ھر مسئلے کے بھی دو پہلو ہوتےہیں۔ یہ ایک رواج زمانہ ھے کہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے   جو  کہ مالی، سماجی ،تعلیمی یا ذہنی طور  پر ہم سے کم ہوں۔

لیکن آج ھمارا  مخاطب یہ مخلوق نہیں ہوگی۔
  ‏
  ‏ھماراماننا ہے کہ معاشرتی بے حسی کا شکار اس طبقے کو لعن طعن کرنا مرے کو سو درے مارنے کے مترادف ہے۔
 ‏
 ہم سب مسلمان ھیں اور بطور مسلمان ھمارا ایمان ہے کہ ہم سب اللہ کی مخلوق ھیں اور اولاد آدم ھیں۔   ھم سب پر بطور انسان دوسرے انسان کی عزت واجب ہے اور بطور مسلمان فرض۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ ماضی میں ذہنی امراض کا شکار افراد بھی نفرت، حقارت اور ظالمانہ سلوک کا شکار بنتے تھے۔


 ‏
 ‏انسانی نفسیات میں ایک عجیب سی بات شامل ہے ،ھر وہ چیز جو کہ اس کو سمجھ نہ آئے ،وہ اس سے ڈر جاتا ہے اور عموماً یہ ڈر آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔  
 ‏
 ‏ خواجہ سرا،کوئر، ٹرانس جینڈر ان سب کے  معاملے میں بھی کافی حد تک یہی ھوتا ھے۔ یہ لوگ عمومی طور پر بول چال ،لباس اور طور طریقوں میں  دوسرے لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں اور لوگو ں کی نفرت، حقارت اور مذاق کا نشانہ بنتے ہیں۔

ہم روزانہ سڑکوں پر اس ظالمانہ سلوک کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ خواجہ سرا کے رویے، روش حیات اور اخلاقیات پر بحث ایک مختلف موضوع ہے اور یہاں ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔ان لوگوں کے حقیقی مسائل پر گفتگو کرنا یا انکو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش  ہمارے ھاں ایک معیوب بات سمجھنی جاتی ہے۔ان کے بارے  میں  adult jokes  تو بہت نارمل انداز میں  لیے جاتے ہیں۔

۔۔
 ‏‏۔۔۔۔لیکن انکی مدد کے بارے میں سوچنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔
 ‏
 ان لوگوں کی  اس طرح موجودگی اور وضع قطع کے بارے میں جب بھی انگلی اٹھائی جائے تو باقی 3 انگلیاں اپنی طرف اٹھتی ہیں۔
 ‏
 ان لوگوں کو اس وضع قطع تک پہنچانے اور اس طرح کی زندگی میں رکھنے والوں پر بات کی جائے تو وہ  adult talk  بن جاتی ہے اور سردست ہمارا موضوع سخن وہ نہیں ھے۔

ہم ان سب پر بھی بات کریں گے لیکن ابھی ھم صرف اپنے مہذب، سمجھدار اور معزز طبقے اور اس کے رویوں پر بات کرنا چاہیں گے۔
 ‏
ھمارے معاشرے میں بچوں کی پیدائش یا شادیوں  پر خواجہ سرا کی آمد اور غیر اخلاقی رقص اور حرکات بالکل عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔گھر کے بزرگ بھی اسے رواج یا تماشہ کا نام دے کر خاموش رہتے ہیں۔
 ‏
 کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ تماشہ اولاد آدم ہے اور انسان ہونے کے ناطے یہ بھی اسی عزت و حرمت کا مستحق ہے جو آپ کو یا مجھے ملتی ہے ؟
 ‏
 سڑکوں کے کنارے کھڑی اس مخلوق کے گنھگاروں کی طویل فہرست میں ریاست اور  والدین  سے لے کر ہر رشتہ دار کا نام درج ہوتا ہے۔

ان کو اس حال تک پہنچانے میں  دو بڑی  وجوہات سر فہرست ہیں۔ مالی مسائل اور محبت اور قربت کی تلاش۔ بہت سے نوجوان مالی مشکلات کا شکار ہو کر اس راستے کو آسان روپے کمانے کے راستے کے طور پر اپنا لیتے ہیں۔
 دوسری اور سب سے بڑی وجہ  محبت کی تلاش ہے۔ یہ لوگ بہت بچپن سے ہی مخصوص انداز کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے بات کرنے کا انداز، چلنے پھرنے کا طریقہ دوسرے بچوں سے مختلف ہوتا ہے اور والدین کے لیے باعث ندامت بھی۔

اس لیے والدین بہت ابتدا سے ہی عام طور پر ان بچوں سےسرد مہری اختیار کر لیتے ہیں اور گذرتے وقت کے ساتھ  یہ سرد مہری نا پسندیدگی، طنز، غصے اور نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسے بچے کے بارے میں والد یا بڑے بھائی جب باہر سے چہ مہ گوئیاں سنتے ہیں تو گھر آ کے غصے میں بچے کو مارپیٹ کرتےہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مارپیٹ میں اضافہ ہوتا ہے.
 ‏
 ‏Gender Dysphoria  یعنی اپنی پیدایشی جنسی پہچان سے ناخوش یہ  بچہ عموماً گھر میں دکھی اور محبت سے محروم رہتا ہے۔

یہ بچہ اس مرحلے پر  برے افراد کا بہت آسان شکار بن جاتاہے ۔ اس طرح کے بچے 11-13 سال کی عمر تک یا تو گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا گھر  سے نکال دے جاتے ہیں ۔
 ‏
 ‏اس مرحلے پر یہ عموماً گرو کے ہتھے چڑھتے ہیں جو کہ کبھی ان کی طرح کا بچہ ہوتا ہے اور اب ادھیڑ عمر  پر پہنچ کر  اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے اسے نوعمر بچوں کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ گرو کبھی پیار محبت اور کبھی ڈرا دھمکا کر اور نشے کا عادی بنا کر ان بچوں سے غیر اخلاقی کام کرواتا ہے۔

اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خواجہ سرا کا ناچ گانا  یا بھیک مانگنا  دراصل انکی تشہیر  کا صرف ایک حصہ ہوتا ہے۔ ہر قسم کے نشہ،  الجھی نفسیات ،مہلک بیماریوں کے شکار یہ لوگ بچپن سے موت تک اپنوں اور پرایوں کی بے حسی کا شکار رہتے ہیں۔
 ‏
 ‏والدین جو کہ اللہ کی طرف سے انکےنگھبان مقرر کیے جاتے ہیں وہ اپنے فرائض بھول کر قاضی ،کوتوال اور جلاد کا فریضہ سنبھال لیتے ہیں۔

ان حالات میں ان بچوں کو گرو کی شکل میں ماں نظر آتی ہے۔اور یہ ممتا کی تلاش میں ایک ایسے جرائم پیشہ انسان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو کہ روز انکی بوٹی بوٹی بیچتا ہے۔
 
 ہمیں خواجہ سرا کے  اخلاقیات کے  بارے میں بات کرنے کے  لیے بہت سے علماء اور افلاطون مل جایں گے۔ ان کی زندگی اور موت پر کافی فتوے بھی نظر سے گزرتے ہیں۔
 ‏
 اس روے زمین پر سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور جو انسان ایک بار پوری نیت سے کلمہ طیبہ پڑھ لیتا ہے اور آخری سانس تک اس پر قائم رہتا ہے تو اس کی سابقہ مشرک  زندگی اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں اور  عموماً اللہ کی مخلوق بھی اسے قبول کر لیتی ہے ۔


 ‏
 توبہ اللہ کا وہ انعام ہے جو پکار پکار کر اس کی رحمت کا اعلان کرتا ہے۔ یہ رحمت اللہ نے ہر  اس انسان کے لیے رکھی ہے جو اس کا طلبگار ہے ۔لیکن کیا ہم لوگوں نے اپنے دل میں کوئ ایسی گنجایش رکھی ہے کہ اللہ کے اس فیصلے کو ہم ان افراد کے لئے بھی قبول کر سکیں؟
 ‏
 یہاں اس بات کا اعادہ بہت ضروری ہے کہ ہم  صرف اللہ کے ماننے والے ہیں اور ہم اللہ کی حدودو کو من و عن مانتے  ہیں۔


 ھم   
 Gay Marriage,Transgender Rights,
 ‏ LGBT Rights
 کی بات نہیں کر رہے۔ ہم صرف  اللہ کی اس مخلوق کے لیے اس رحم کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ گناہگار سے نفرت کر کے ھم صرف اپنی انا بلند کر سکتے ہیں، اگر ھمیں واقعی انکی اصلاح عزیز ہے تو ان سے نفرت نہ کریں۔ رب کائنات کی کسی مخلوق کے ساتھ  حقارت سے پیش نہ آئیں۔


 ‏
 ھماری علماء سے بھی یہی درخواست ہوگی کہ جہاں وہ اللہ کی حدود کو پار کرنے والوں کو اللہ کے عذاب کی وعید دیتے ہیں وہاں اللہ کی طرف لوٹنے والوں کو توبہ کی عظمت اور اللہ کی رحمت کے بارے میں بھی بتایں۔ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خواجہ سرا کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں لیکن پھر یہ لازم ہے کہ وہ ان کا رقص دیکھنے اور انکے ساتھ غیر اخلاقی تعلق رکھنے والوں کی نماز جنازہ سے بھی انکار کریں۔
 ‏
 کاش ہم سب رحمن و رحیم کی مخلوق کو رحم سے دیکھنا سیکھ جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ALLAH Ki Makhlooq is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 September 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.