”کووڈ 19 “ویکسین پر امیر ملکوں کی اجارہ داری

غریب ملکوں کو ایک انجکشن کیلئے کئی سال انتظار کرنا پڑ سکتا ہے

بدھ 2 دسمبر 2020

Covid19 Vaccine Per Ameer Mulkoon Ki Ajaradari
رابعہ عظمت
عالمی سطح پر جہاں ایک طرف اقوام متحدہ کے قیام کو 75 برس گزر چکے ہیں اور اس کی سالگرہ کی مناسبت مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب عالم انسانیت کو کووڈ 19 جیسے سنگین چیلنج درپیش ہیں جبکہ عالمی وباء کے باعث دنیا بھر میں انسانی اموات کی تعداد لاکھوں کی حدوں سے تجاویز کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔تشویشناک بات تو یہ ہے کہ ابھی تک وباء کی مکمل روک تھام و کنٹرول کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔

کووڈ 19 کے باعث عالمی سطح پر اقتصادی سماجی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔اور دنیا کو 1930ء کی دہائی کے ”گریٹ ڈپریشن“ کے بعد سے اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔چنانچہ مذکورہ تمام ترصورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ کے مزید فعال کردار سے ممالک کے درمیان اتحاد وتعاون اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اگر اقوام متحدہ کے کردار کی بات کی جائے تو اس کی عمارت تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ہیں۔

امن کا فروغ،انسانی حقوق کا تحفظ اور مشترکہ ترقی کی جستجو۔لیکن ان مقصد کا حصول صرف اسی صورت ممکن ہے جب بڑے ممالک اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کریں گے اور اسے مضبوط کرتے ہوئے دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مشترکہ کوششیں کریں گے۔
کووڈ 19 جیسے صحت عامہ سے متعلق مسائل ہوں یا پھر عدم مساوات،غیر متوازن اقتصادی ترقی،بڑھتے ہوئے تنازعات،موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج ان سب سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم یا ملک یا دیگر ممالک سے کٹ کر پائیدار ترقی و خوشحالی پر گامزن کر سکتا ہے۔

کووڈ 19 کے ساتھ ساتھ دنیا میں تحفظ پسندی،یکطرفہ پسندی اور بالادستی کے نظریات بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔بڑے اور ذمہ دار ممالک کی جانب سے دیگر ممالک سے معاشی طور پر علیحدگی کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ایک دوسرے پر الزام تراشتی کی جا رہی ہے، اہم طاقتوں کے مابین تجارتی تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔جبکہ امریکہ جیسا اہم ملک کئی عالمی معاہدوں اور تنظیموں سے بھی دستبردار ہو چکا ہے۔

ایسے رویے کسی بھی اعتبار سے عالمی امن،استحکام،مشترکہ ترقی اور عالمگیریت کے فروغ کے لئے سود مند نہیں ہیں۔دنیا کی اہم طاقتوں کو تو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے اور ایسی اجتماعی فکر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی فلاح اور ان کو درپیش مسائل کا ادراک کیا جا سکے۔
بلاشبہ کووڈ 19 اقوام متحدہ کی تاریخ میں صحت عامہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے اس عالمی وباء نے دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

دنیا بھر کے عوام ایک برادری کی مانند ہیں جن کے دکھ سکھ مشترکہ ہیں۔دنیا اس وقت کرونا ویکسین کی تیاری کے آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے بعد اسے عالمی سطح پر عوامی مصنوعات کا درجہ حاصل ہو گا۔یہاں اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہو گا۔بالخصوص ڈبلیو ایچ او کی مزید مضبوط اور بھرپور حمایت کی فراہمی سے اتحاد باہمی احترام تعاون کی حقیقی پر عمل پیرا رہتے ہوئے انسانیت کو کووڈ 19 جیسے خطرات سے بچانے میں مدد مل سکے گی۔

مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی جستجو میں تعاون وباہمی مفاد کی سوچ کے تحت آگے بڑھا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں ہر ملک کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گیں تاکہ اس وباء کو شکست دیتے ہوئے دوبارہ سے ایک محفوظ دنیا کی تشکیل کی جا سکے۔اس وقت دنیا کے پاس باہمی سود مند تعاون ہی آگے بڑھنے کا واحد موزوں انتخاب ہے لیکن اس کے لئے بڑے ممالک کو بالادستی کے نظریات ترک کرنا ہوں گے۔

انہیں کسی بھی دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت یا پھر اسے دباؤ میں لانے کا کوئی حق نہیں ہے۔دنیا میں مستحکم اور دیرپا قیام امن کی یہ لازمی شرط ہے کہ ہر ملک کی خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے سرد جنگ کے فرسودہ تصور اور سیاسی طاقت کے مظاہرے کو ترک کیا جائے۔عالمی اور علاقائی تنازعات کو مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے،دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے سہولیات پیدا کی جائیں۔


معاشی عالمگیریت کو مزید و سعت دی جائے اور ایک ایسی اشترا کی و خوشحالی کے لئے جدوجہد کی جائے جو سارے عالم کے مفاد میں ہو۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حضرت انسان اکیلا اس وباء کو ختم نہیں کر سکتا۔اس لئے ضروری ہے کہ اس وباء کے خاتمہ کے لئے عالم انسانیت کو اپنے اختلافات اور نظریات سے بالاتر ہو کر اس کے مقابلہ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔خاص کر دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک متاثر ہیں۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اس وائرس کے لئے چین پر الزام عائد کرنے کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان نظریاتی اختلافات عروج پر پہنچ چکے ہیں۔سلامتی کونسل بھی مستقل ارکان امریکہ اور چین کے مابین تناؤ پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا بھر میں ممالک کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کا ذمہ دار اقوام متحدہ بھی کوئی خاص کردار ادا کرنے موقف میں نہیں ہے۔

سلامتی کونسل کرونا بحران پر منعقدہ اجلاس کا یوں بے نتیجہ ختم ہو جانا اقوام متحدہ سمیت اس کے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جب تک ان اختلافات کو ختم نہیں کیا جا سکتا کرونا پر قابو پانا ناممکن ہے۔دراصل دنیا کو مہلک وباء نے اس مرحلے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ اس سے نجات اور بچاؤ کا صحیح راستہ کونسا ہے۔


ایک جانب لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی بدحالی،بھوک اور بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔تو وہیں اس کی بے احتیاطی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔لاک ڈاؤن نے لوگوں کے ذہنوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے تو وہیں اس سے لگائی جانے والی بندشوں کا خمیازہ بھی لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔حالانکہ اتنے طویل عرصے تک معاشرتی طور پر کٹ کر رہنا انسان کی بنیادی فطرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

آج پھر دنیا پر اس کے سنگین خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔بندشیں ختم کرنے کی صورت میں وباء نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے اور اگر مسلسل لاک ڈاؤن برقرار رہا تو اقوام عالم معاشی تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔آج جس طرح کرونا کی نئی لہر نے دنیا کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اس کی طبی ماہرین اور سائنسدان پہلے ہی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ان کا دعویٰ یہی تھا کہ جب تک کوئی موٴثر دوا یا ویکسین کی ایجاد اگر جلد نہ ہوئی تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

امریکہ جہاں محض ایک ہفتے میں لاکھوں لوگ کرونا کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور سپر پاور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے اور ایسے جان لیوا وائرس کی ویکسین کی ایجاد دنیا کے لئے امید افزا ہے۔لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کو چین کی جانب سے ویکسین ملتی ہے اور دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کرونا کی دوا خریدنے کے لئے ایڈوانس بکنگ کی منظوری بھی دے دی ہے۔


یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کو ذخیرہ کرنے کے لئے ہمارے پاس تمام تر سہولیات میسر ہیں؟۔کیونکہ اسے ذخیرہ کرنے کے لئے نہایت کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لئے کوشش کرنا ہو گی کیسے اسے سٹور کرنے کے ساتھ استعمال میں لایا جائے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لئے موزوں موسم کو ممکن بنایا جائے۔اگرچہ ویکسین کی ایجاد درد کا مداوا ڈھونڈنے والی دنیا کے لئے اچھی خبر ضرورہے لیکن اس کے لئے ضروری ہو گا کہ اسے عام لوگوں تک رسائی بھی ممکن بنائی جائے۔

غریب بھی اس کا خرچ برداشت کر سکے تاہم اس بارے میں بھی دنیا کو سوچنے کی ضرورت ہے۔اگرچہ مہلک کرونا کی ویکسین کی ایجاد امید افزا ہے۔مگر افسوس یہاں پر بھی بڑے اور امیر ملکوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور اربوں ڈالر کے ویکسین کے ایڈوانس معاہدے کر لئے ہیں اور اس جان بچنے والی دوا کو غریب ممالک سے کوسوں دور کر دیا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ غریب ملکوں کو ایک انجکشن کے لئے کئی سال انتظار کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ امیر ممالک پہلے ہی اربوں خوراک کی کورونا وائرس سے بچنے والی دوائیوں کا خاتمہ کر چکے ہیں۔

ادھر دوسری جانب سلامتی کونسل میں کرونا بحران پر منعقد اجلاس بے نتیجہ ختم ہو جانا اقوام متحدہ سمیت اس کے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔غیر منافع بخش گیوی ویکسین اتحاد جو جنیوا میں قائم ہے اور غریب ممالک کے لئے ویکسین خریدتا ہے،کوویڈ 19 سے بچاؤ کے لئے اپنے خریداری سے پہلے کے معاہدے کرنے کے لئے 2 ارب ڈالر جمع کر رہا ہے تاکہ سب کو بیک وقت سپلائی مل سکے۔

گیوی کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ”ہم نے خطرہ دیکھا کہ دولت مند ممالک کی طرف سے ویکسین ختم ہو جائیں گی،اور باقی دنیا کے لئے کوئی ویکسین نہیں ہو گی“چونکہ یورپ میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی ایک دوسری لہر پھیل گئی ہے،اور امریکہ نئے کووڈ 19 معاملات کے روزانہ ریکارڈ توڑتا رہتا ہے،اس لئے ویکسین کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ فوری ہے۔
دوا ساز کمپنیاں قابل عمل دوائی منڈی میں لانے کے لئے دور لگا رہی ہیں حال ہی میں دو امریکی وجرمنی دوا ساز کمپنیوں فائزر اور بائیوٹیک نے اعلان کیا کہ ابتدائی آزمائشوں میں ان کی تجرباتی کووڈ 19 ویکسین 90 فیصد سے زیادہ موٴثر ہے۔

لیکن اس سے پہلے کہ پوری دنیا کو حفاظتی قطرے پلانے کے لئے ویکسین کافی مقدار میں دستیاب ہوں اس کے لئے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔اس کے بعد،حیرت کی بات نہیں،کہ ممالک حفاظتی اور افادیت قائم ہونے سے پہلے ہی،حفاظتی ٹیکوں کے امیدواروں کی فراہمی کو روکنے کے لئے زور لگا رہے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر سودے،جسے ایڈوانس مارکیٹ کے وعدوں (اے ایم سی) کے نام سے جانا جاتا ہے پر بھی دولت مند ملکوں کا قبضہ ہے۔

ڈیوک یونیورسٹی کے گلوبل ہیلتھ انویشن سینٹر کے محققین کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ آمدنی والے ممالک کا ایسی تمام خریداریوں میں نصف سے زیادہ کا حصہ ہیں۔آدھی درجن منشیات فروشوں کی جانب سے آرڈر امریکہ ہی کے ہیں۔کینیڈا بھی اس خریداری کے معاہدوں میں پیچھے نہیں رہا۔
دنیا کے بیشتر متمول ممالک کے ایک گروپ نے پہلے ہی فائزر،بائیوٹیک کی تقریباً 600600 ملین خوراکیں خریدنے پر اتفاق کیا ہے۔

عالمی ماہرین صحت کے مطابق صرف ایک ویکسین کافی نہیں ہو گی۔مینو فیکچرنگ اور ڈسٹری بیوشن کے نقطہ نظر سے دنیا کی آبادی کو ٹیکہ لگانے میں کئی مختلف ویکسین لگیں گی اور ممکنہ طور پر ان تمام کمپنیوں کے شراکت دار مزید ویکسین کی تیاری پر زور دے رہے ہیں۔فرانسیسی دوا ساز کمپنی سانوفی میں عالمی ویکسین کی تحقیق و ترقی کے سینئر نائب صدر جان شیور کہتے ہیں،”یہ ایک عالمی مسئلہ ہے ،اور کسی بھی کمپنی کے پاس اس کا حل نہیں نکلا ہے۔

“چونکہ ہم نہیں جانتے کہ کیا کام کرے گا،کیا بہتر کام کرے گا یا واقعی میں وبائی بیماری کو روکنے کے لئے،واقعی وبائی امراض کو روکنے کے لئے،بہتر کام کرنے سے کیا کام ہو گا یا مقصد میں مزید شاٹس اہم ہیں۔“یہاں تک کہ متعدد ویکسینوں کے باوجود،یہ یقینی بنانا آسان نہیں ہو گا کہ وہ صحیح وقت پر صحیح لوگوں تک پہنچیں کچھ حفاظتی ٹیکوں کو مینو فیکچرنگ پلانٹ سے نیچے کے انجماد درجہ حرارت پر برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جب تک کہ وہ کسی شخص کے بازو میں ٹیکہ لگائے جائیں۔

اور ایک بار جب ویکسین ہسپتالوں اور میڈیکل کلینک میں بھیج دی گئیں تو پہلے کون حفاظتی ٹیکے لگائے؟،خاص طور پر ابتدائی چند مہینوں میں۔صحت کے ماہرین کو ان قیمتی خوراکوں کو کس طرح تقسیم کرنے کے بارے میں سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Covid19 Vaccine Per Ameer Mulkoon Ki Ajaradari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.