ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔ ایک شخصیت۔۔۔۔۔۔ ایک ادارہ۔۔۔۔۔

"اردو لغت کے عظیم المرتبت منصوبے کو صحت اور توازن کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے کے سلسلے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی محنت و کاوش، تاریخ زبان اردو کا ایک سنہری باب ہے۔"

پیر 3 فروری 2020

Dr Farman Fatahpuri
 تحریر و تحقیق: صفیہ ہارون۔ پتوکی
ڈاکٹر فرمان فتح پوری جن کا اصل نام سید دلدار علی شاہ تھا،وہ 26 جنوری 1926ء کو شہر فتح پور کے سید خاندان میں پیدا ہوۓ۔ ان کا تعلق ہندوستان سے تھا لیکن بعد میں ہجرت کر کے کراچی آ گۓ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ایک ممتاز محقق، نقاد، بہترین مصنف، ماہرِ لسانیات اور مدیر تھے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم فتح پور کے نواحی گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی۔ مڈل کلاسز میں ہی انہیں کتابیں پڑھنے اور لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔  یہ ان کے ادبی ذوق کی علامت ہے کم عمری میں ہی وہ کئی کتابیں کھنگال چکے تھے۔ انہوں نے میٹرک اول درجے میں پاس کیا اور اپنے گھر والوں کی کفالت کی خاطر مسلم ہائی سکول میں بطور ٹیچر ملازمت شروع کر دی۔

(جاری ہے)

وہ چونکہ ادبی مزاج رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے یہاں کئی مشاعرے اور تقریری مقابلے کرواۓ۔ ان کی نظمیں دہلی کے اخبارات میں شایع ہوتی تھیں۔ انہوں نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ 1950ء میں انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے بی۔اے پاس  کیا۔ ڈاکٹر فرمان صاحب ہندوستان میں مسلمانوں کی دگرگوں حالت سے رنجیدہ ہو کر پاکستان آ گۓ۔

کراچی میں انہیں ملازمت بھی مل گئی۔ انہوں نے کراچی میں ایک مشاعرہ منعقد کروایا جس کی صدارت کے لیے نیاز فتح پوری کو مدعو کیا۔ اس مشاعرے میں جوش، فراق، جعفر علی اثر کے علاوہ معروف شاعر جگر مراد آبادی نے بھی شرکت کی۔ یہ وہ مشاعرہ تھا جس کی بدولت فرمان صاحب کو سماجی و تہذیبی حلقوں سے شناسائی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ تجویز پیش کی کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کر کے دیوناگری رسم الخط کو اختیار کرنا چاہیے۔

اس تجویز کو پسند کیا گیا۔ اپنے مضمون کی مقبولیت کے پیشِ نظر ڈاکٹر فرمان صاحب،ڈاکٹر مسعود اشعر کو دیے گۓ ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ:
"اس مضمون نے مجھے عاملوں کی بڑی فہرست میں داخل کر دیا۔ مجھے اس سے شہرت ملی۔یوں تنقیدی اور ادبی مضامین لکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔" فرمان فتح پوری کی اردو ادب کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوۓ احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
"اردو لغت کے عظیم المرتبت منصوبے کو صحت اور توازن کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے کے سلسلے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی محنت و کاوش، تاریخ زبان اردو کا ایک سنہری باب ہے۔

"
کراچی میں فرمان فتح پوری نے ایم۔اے، ایل۔ایل۔بی، بی۔ٹی اور پی۔ایچ۔ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ 1974ء میں انہوں نے پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ " اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری" لکھا جس پر انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا، ایک اور اعزاز بھی ان کے حصے میں آیا کہ اس وقت ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ وہ تقریباً تیس برس تک جامعہ کراچی سے وابستہ رہے۔

جہاں ان کی زیرِ نگرانی بےشمار اسکالرز نے پی۔ایچ۔ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ اس کے علاوہ وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے بھی وابستہ رہے۔ 2011ء میں جامعہ کراچی میں انہیں پروفیسر امریطس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصانیف 60 سے زائد ہیں۔ ان کی مشہور تصنیفات میں اردو رباعی، تدریس اردو، اردو کی نعتیہ شاعری، اردو کی منظوم داستان،  نیا اور پرانا ادب، تحقیق و تنقید، قمر زمانی بیگم، زبان اور اردو زبان، اقبال سب کے لیے، اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، غالب شاعر امروز و فردا اور عورت اور فنونِ لطیفہ شامل ہیں۔

ان کی کتب ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی اسکالرز کے لیے ایک مستند حوالے کا کام دیتی ہیں۔ وہ اردو کی ایک مکمل تاریخ قلم بند کر گۓ ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ایک نابغہِ روزگار شخصیت تھے۔ انہوں نے تن تنہا وہ کام کیا ہے جو ایک ادارے کا کام معلوم ہوتا ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کی بدولت حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہِ امتیاز سے نوازا۔ احمد ندیم قاسمی اپنے ایک مضمون "ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔

۔۔۔۔ بڑا نقاد، بڑا انسان" میں ان کی ناقابلِ فراموش خدمات کا اعتراف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
"میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو اس دور کا ایک ایسا نابغہ قرار دوں گا جن کے ہاں علم و حکمت اور شعر و سُخن کی تمام خوبصورتیاں مجسم ہو گئی ہیں۔"
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا انتقال 3 اگست 2013ء کو کراچی میں ہوا اور وہ جامعہ کراچی کے قبرستان میں آسودہِ خاک ہیں۔

ڈاکٹر صاحب تو چلے گۓ لیکن اپنے پیچھے اردو ادب کا ایک وسیع ذخیرہ چھوڑ گۓ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت و فن پر درجنوں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان نے تحقیق و تنقید کا جو بیج بویا تھا، وہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ان کے کئی شاگرد مختلف جامعات میں تحقیق و تنقید کی مشعل روشن کیے ہوۓ ہیں جس سے نو واردانِ تحقیق روشنی حاصل کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dr Farman Fatahpuri is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.