عید الضحیٰ اور قربانی کی اہمیت

عیدا لا ضحی کی موقع پر کی جانے والی قربانی سنّت ابراہیمی کی پیروی کا عملی نمونہ ہے انسان کاکوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔

منگل 21 اگست 2018

eid ul adha aur qurbani ki ahmiyat
عیدا لا ضحی کی موقع پر کی جانے والی قربانی سنّت ابراہیمی  کی پیروی کا عملی نمونہ ہے انسان کاکوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔
مسلم امہ ہر سال ذی الحج کی دس تا ریخ کو عید الاضحی مذہبی جوش وجذبہ سے مناتی ہے ۔اس کے لئے پہلے سے قربانی کے جانور کی خرید اری ‘قصائیوں کے انتظامات ‘گوشت کی تقسیم اور پھر مختلف ڈشوں کی تیاریاں یہ وہ سب مناظر ہیں جو ہر سال ہم اور آپ اس خصوصی موقع کے حوالے سے دیکھتے ہیں ۔

عید الاضحی کو عید الکبیر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک بڑی قربانی کا دن ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسما عیل علیہ السلام کی زبردست قربانی کی یادگار ہے اور اس حقیقت کی طرف رہنما ئی کرتا ہے کہ اصل خوشی اور حقیقی لطف دنیا کے مال ومتاع اورچیزیں حاصل کرنے میں نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو مالک حقیقی کی رضا کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کردینے میں ہے ۔

(جاری ہے)

عید الاضحی ہمارے ایمان میں اس اضافہ کا بھی ذریعہ ہے کہ انسان کی اصل شان اور بڑائی خود کو مکمل طور سے اللہ جل شانہ کی مرضی کے تا بع کردینے میں ہے اور اسی سے انسان اس کا ئنات کی مخلوقات میں اشرف بنتا ہے اور یوں ہر قسم کے وساوس اور شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے اللہ کے احکام پر جان دینے کا جذبہ پیدا ہو تا ہے ۔”آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز ‘میری قربانی ‘میرا جینا ‘میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسما عیل علیہ السلام کی یادگار قربانی
حرت ابر اہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کی حالت میں بڑی تمنا ؤں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور جب وہ کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو خواب میں اشارہ ہو ا کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کردیں ۔یہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے در حقیقت ایک بڑا ہی سخت امتحان تھا لیکن دونوں باپ بیٹے نے اسے اللہ کا حکم سمجھ کر خوشی سے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا ۔

حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے تیز چھری بیٹے کے گلے پر چلائی لیکن اللہ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور ایک جانور بھیج کر ذبح کروا دیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔(تم نے اپنا خواب سچا کر دکھا یا )یوں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بغیر حیل وحجت کئے اللہ رب العزت پر کا مل یقین کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربانی کے لئے پیش کرکے ایسی عا لیشان مثال قائم کر دی کہ جو قیامت تک کے لئے اہم ایمان کے لئے نور ہدایت کا کام کرتی رہے گی اور اسی جذبہ ایمانی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں اپنی تمام خواہشات کو قربان کر دینے کی صفات کی وجہ سے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام خلیل اللہ( اللہ کا دوست )بن گئے ۔


عید الا ضحی اور قربانی کے معا شرتی اثرات
عید الاضحی کے مذہبی تہوار میں جہاں اس بے پایا ں قربانی کے رنگ میں رنگے جانے کا سبق ہے وہیں یہ دن غرباء ومساکین کے حقوق کا خیال بھی پیدا کرتا ہے اور ان کی ضروریات کے پورا کرنے میں معاونت کا شوق بھی دلاتا ہے ۔مسلم امہ کی یکجہتی اور یگانگت کے لئے اسلام کا واضح پیغام یہ ہے کہ وہ مسلمان جن کو اللہ رب العزت نے دنیا کی نعمتوں اور ثروتوں سے سر فراز کیا ہے وہ اپنے مال میں سے غرباء ومساکین کے لئے بھی مناسب حصہ خرچ کریں ۔

عید الاضحی کے قربانی کے گوشت میں سے ایک تہائی حصہ غرباء ومساکین کے لئے مخصوص کرنا اور ان میں تقسیم کرنا اسی مقصد کے تحت ہے اور اس سے ہم سب کی اپنی تر بیت بھی ہوتی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں کے اعتبار سے ہمیں دیا ہے ہمیں اس میں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرنے میں خوشی محسوس ہو ۔
جان دی‘دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی محض اپنی ذاتی اشیاء کی قربانی نہیں ہے بلکہ اپنے جذبات کی بھی قربانی ہے ۔

اسلام جس معاشرتی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر فردامت اپنی انفرادیت کو تر جیح دینے کے بجائے اپنے مال ومتا ع کو سنبھال کر رکھنے کے بجائے اجتماعی معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشش وسعی کرے اور اپنی خوشی سے اپنے وسائل (مال ‘تعلقات وغیرہ )کو معاشرے میں دینی فضا قائم کرنے کے لئے استعمال کرے ۔عید الا ضحی اسی جذبہ کو بیدار کرنے کے لئے ترغیب ہے ۔

قربانی کا قرآنی مفہوم خود غرضی سے پاک ہونے اور اسلامی جذبہ پیدا کرنے پر مر کوز ہے تا کہ انسان کے اندر باطل کی طاغوتی قوتوں سے مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے اور انسان بندہ بن کر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرلے اورحق و سچائی کا علمبر دار بن سکے ۔
عید الا ضحی کا دن ․․․چند مسنون اعمال
1۔شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا ۔
2 ۔

غسل کرنا ۔
3۔ مسواک کرنا ۔
4۔ عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس موجود ہوں پہننا (اسراف اور فضول خرچی سے اس میں بھی بچنا نہایت ضروری ہے) ۔
5۔ خوشبولگانا ۔
6۔ صبح کو بہت سویرے اٹھنا ۔
7۔عیدگاہ میں مردو ں کا سویرے ہی جا۔نا
8۔عید کی نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنا ۔
9۔عید گاہ کوجانے اور آنے کا راستہ علیحدہ رکھنا (ایک سے جانا دوسرے سے واپس آنا)
10 ۔

پیدل جانا ۔
11۔راستہ میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبروللہ الحمد بلند آواز سے پڑھنا ۔
عرفہ یعنی 9ذی الحج کی فجر سے لے کر 13ذی الحج کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیر وتشریق یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ایک مرتبہ مردوں کو بلند آواز سے اور عورتوں کو آہستہ آواز سے پڑھنا چاہئے ۔

فرض نماز کے فوراََ بعد تکبیر کہنا چا ہئے ۔
قربانی کی فضائل ․․․احادیث کی روشنی میں
قربانی مستقل ایک عبادت ہے جو صاحب نصاب پر واجب ہے اور جو صاحب نصاب نہ ہو اس کے لئے مستحب ہے ۔(اس سلسلے میں تفصیلات کے لئے کسی عالم دین سے مسائل معلو م کر لیں )حج میں قربانی کی افضلیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کی زیادتی مرغوب و پسند یدہ ہے ۔ہمارے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں 100اونٹ قربان کئے تھے ۔

قربانی کرنا حضرت ابراہیم السلام کی سنت ہے اور قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے ۔(مفہوم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) قربانی کا جانور جب ذبح ہو تا ہے تو پہلے قطرہ پر قربانی کرنے والے کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور مع اپنے خو ن اور گوشت وغیرہ کے لایاجائے گا اور ستر درجہ زیادہ وزنی بنا کر اعمال کی ترازو میں رکھاجائے گا ۔

(مفہوم حدیث بنوی صلی اللہ علیہ وسلم ) قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے اللہ کے پاس مقبول ہوجاتا ہے تو خوب خو شی سے اورخوب دل کھول کر قر بانی کیا کرو ۔(مفہوم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کتنی بڑی فضیلت ہے اور کیا ہی سعادت ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔بلکہ جو صاحب حیثیت ہیں اپنے ساتھ ساتھ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بھی قربانی کرلیں تو بہت احسن وعمدہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کے ہر فرد پر لا محدود احسانات ہیں ۔
قربانی کس پر واجب ہے ۔
جس پر صدقہ فطر واجب ہے یعنی ایسا مسلمان جو عاقل وبالغ ہو ا ور اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی (612.36 گرام) ہو یا اس کے برابر قیمت کا مال ہو اور وہ اس کی ضروریات سے زائد ہو اور ایک سال کا عر صہ ملکیت میں گز ر گیا ہو ۔

شرعی مقیم ہو (مسا فر شرعی اصطلاح میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو 15دن سے کم کے لئے 48میل یا اس سے زیادہ فاصلے کے سفر پر نکلا ہو ۔ایسا شخص اپنے شہر کی حدود سے نکلتے ہی مسافر کہلائے گا اور اس کے لئے شرعی احکامات سفر کے لحاظ سے ہوں گے ۔اس سلسلے میں مستند علمائے کرام سے مسائل معلوم کرلیں ۔) اگر شرعی مسافر جو صاحب نصاب بھی ہو وہ قربانی کے ایام میں گھر واپس آگیا تو اس پر بھی قربانی واجب ولازمی ہو گی ۔


قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرنے پر عتاب
جہاں قربانی جیسے بڑے عمل کی ادائیگی پر بے بہا اور خوب انعامات ہیں وہیں قربانی واجب ہونے کے باوجو د نہ کرنے کی صورت میں عتاب وعذاب بھی ہے ۔”جو صاحب حیثیت ہو اور قربانی نہیں کرتا ‘ وہ ہماری نماز عید کی جگہ پر نہ آئے ۔“(مفہو م حدیث نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم )
قربانی کے ایام
ذی الحج کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کرنے کا وقت ہے ۔

لیکن قربانی کرنے کا سب سے بہترین دن بقر عید کا دن ہے پھر گیارہویں تاریخ اور پھر بارہویں تا ریخ ۔
قربانی کا وقت
ایسے شہروں اور قصبو ں میں جہاں جمعہ اور عید کی نماز ادا کی جاتی ہیں وہاں قربانی 10ذی الحج کو عید کی نماز کے بعد ہی کرنے کی اجا زت ہے ۔اگر عید کی نماز سے پہلے کسی نے قربانی کرلی تو اسے دوبارہ سے عیدکی نماز کے بعد قربانی کر نا ہوگی ورنہ واجب ذمہ پر رہے گا ۔

قربانی رات کے وقت کرنے کی اجازت تو ہے لیکن پسندید ہ نہیں ہے ۔
قربانی میں نیت اور اس کا صحیح کرنا
قربانی کرنے میں محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ومقصود ہونی چا ہئے اور کسی قسم کا دکھا و ادل و دماغ میں نہ ہونا چا ہئے ۔خصوصاََہمارے ہاں قربانی کے جانور وں میں جو مقابلہ ہوتا ہے ۔وہ قطعاََ غلط ہے اسی طرح مہنگے جانور خرید نا تا کہ لوگ دولت مند کہیں یہ بھی بالکل ہی لغو اور بیہو دہ ذہنیت ہے ۔

دین کے ہر کام میں اخلاص (یعنی خا لص اللہ کے لئے ہر کام کرنا ) نہایت ہی ضروی ہے اور اسی لئے قربانی کرتے ہوئے بھی خا لصتاََ اللہ کے لئے بیت کی جانی چاہئے ۔”اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس تک تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ۔“(مفہوم آیت قرآنی )
قربانی کا دعا
جب قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لئے لٹا یا جائے تو ذبح کرنے والا پہلے یہ دعا پڑھے ۔


قربانی کرتے وقت زبان سے نیت کرنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں ہے دل میں خیال کرکے یہ فقط بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کردینے سے بھی قربانی درست ہی ہے لیکن اگر دعا (جو اوپردی گئی ہے ) یا د ہوتو پڑ ھ لینا بہتر ہے ۔
ذبح کرنے کا مسنون طریقہ
جانور کو پچھا ڑ کر اس کامنہ قبلہ کی طرف کرنے کے بعد تیز چھری سے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر جانور کے گلے کو کاٹیں اور اتنی قوت سے کا ٹیں کہ گلے کی چار رگیس کٹ جائیں ۔

ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے ۔
کند چھری سے ذبح کرنا مکر وہ وممنوع ہے کیونکہ اس سے ذبح صحیح سے نہ ہو سکنے کے ساتھ ساتھ جانور کو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔زیادہ بہتر اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے خود کرنا ہے یا کم از کم اپنی موجودگی میں ذبح کرواناہے ۔چھری کو جانور کے سامنے تیز نہ کریں ۔ذبح کرنے کے بعد کھال اس وقت اتاریں جب جانور بالکل ٹھنڈا ہو جائے ۔

ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں ۔نوٹ : جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ پہلی ذی الحج سے لے کر دس ذی الحج تک اپنے بال یا ناخن نہ کاٹے #(قربانی کرنے کے بعد کاٹ لے یکم ذی الحج سے پہلے کاٹ لے ۔
قربانی کا گوشت اور کھال
قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے ۔قربانی کے جانور کی کھال ذاتی استعمال میں لائی جاسکتی ہے مثلاجاء نماز کے طو ر پر یا پانی کے مشکیز ہ کیلئے اگر قربانی کے جانور کی کھال کو فرخت کیاجائے تو اس سے حاصل ہونے والی رقم کو مسا کین پر صدقہ کرنا واجب ہے ( یعنی ان پر جو مستحق زکواة ہیں )۔

قصائی کو قربانی کے جانور کا گوشت ‘چربی وغیرہ بطور معاوضہ دینا جائز نہیں ہے ۔قربانی کے گوشت کو حصہ داروں میں وزن کو تول کر تقسیم کرنا چاہئے (اندازہ سے تقسیم کرنا صحیح نہیں ) قربانی کے جانور کی رسی وغیر ہ کو صدقہ کردینا چاہئے ۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم
قربانی کے جانور کا جو گوشت ہو اس کی احسن تقسیم کچھ اس طرح سے ہے۔ ایک بہائی حصہ ․․․․رشتہ داروں کے لئے ایک تہائی حصہ ․․․․․فقراء ومساکین کے لئے ایک تہائی حصہ ․․․․․ اپنے اور دیگر اہل خانہ کیلئے
ٓآخری بات
ہر سال کی طرح اس سال بھی عید الا ضحی ہمارے لئے قربانی کا سبق لے کر آرہی ہے تا کہ ہم اسلامی زندگی کو اپنا سکیں اور اسلامی زندگی گزار نے میں جو بھی مشکلات آئیں ان کاسامنا ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کرتے ہوئے اللہ رب العزت کے تقرب میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں ۔

لہٰذا ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ نہ صرف خود بلکہ ساری امت مسلمہ قربانی والی صفا پیدا ہوجائیں اور اللہ کے احکام کی مقابلے میں اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہم سب کے لے آسان ہو جائے ۔آئیں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر ‘دھیا ن سے ‘ عا جزی کے ساتھ دعا کریں ۔” اے ہمارے رب جو ساری قدرتوں کا مالک ہے ہمارے اندر قربانی کی اصل صفات کو پیدا کر دے اور ہم سے جو غلطیاں وکوتا ہیاں اب تک ہوئیں ان کو معاف کردے ۔آئندہ کے لئے ساری امت مسلمہ سمیت ہمیں مکمل دین پر عمل کرنے والا بنا دے کہ تیرے بس میں تو سب کچھ ہے ۔“ آمین یا رب العالمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

eid ul adha aur qurbani ki ahmiyat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.