
گیلانی نے پول کھول دیا!
پیپلز پارٹی کی قیادت مشرف کو گارڈ آف آنر فوج کے کھاتے میں ڈالتی رہی ہے۔۔۔۔۔سابق وزیراعظم جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے مستعفی ہونے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے کی جو بات ہے اس میں سچائی کا جواز یہ ہے
پیر 21 جولائی 2014

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے سلسلے میں پاکستانی سیاست بہت سی داستانوں کی امین ہے کسی کا اقتدار میں آنا اور کسی کا کسی کو اقتدار سے نکلوانے کیلئے ”ڈیل فارمولے‘ استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ ڈیل ہمیشہ براہ راست ہی ہوتی ہو یا ہوتی رہی ہو یہ بالواسطہ بھی ہوتی ہے مثلاََ بہت سی روایات کے مطابق بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیال الحق کو خط لکھ کر یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کردیا جائے تو وہ بیرون ملک جاکر ایک خاص مدت تک سیاسی سے لاتعلق رہیں گے اس خط پر سوچ بچار کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے جیل میں ”میں ان جنرلوں کو پھانسی گھاٹ کی طرف اشارہ کر کے یہاں لٹکاؤں گا“ کی دھمکی آمیز نعروں نے کسی منطقی انجام تک نہ پہنچنے دیا یہ جو جنرل کے ایم عارف کے ذریعہ جنرل ضیاالحق کو بھیجا گیا تھا وہ اسے اپنی کسی خاص مصلحت کے تحت منظر عام پر نہیں لارہے تاہم اگر ان کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تو تردید بھی نہیں کی گئی۔
(جاری ہے)
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سب وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئر مین سید یوسف رضاگیلانی نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو پیپلز پارٹی کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونیوالے معاہدے کے تحت محفوظ راستہ دیا گیا تھا۔ معاہدے کے وقت اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کو بھی اعتماد میں لیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے اسٹیبلشمنٹ کے ہونے والے مذاکرات میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ نوازشریف کو اس کی پاسداری کرنے چاہئے تھی۔ جنرل کیانی آپریشن کے وقت کا تعین خود کرنا چاہتے تھے ا س لئے ہم نے ان پر یہ معاملہ چھوڑدیا۔ جب معاہدہ ہوچکا تھا تو نوازشریف کو ان کے خلاف قدم نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔ بلاول ہاؤس میں پی پی پی میڈیا سیل کراچی کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بھوربھن معاہدے کے دوران پرویز مشرف کے خلاف مواخذہ کرنے کی بات ہوئی، آصف زرداری، نواز شریف اور تمام سیاسی قوتوں نے پرویز مشرف کے مواخذہ کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے مجھ سمیت نواز شریف سے رابطہ کیا تھا مذاکرات میں یہ طے پایاتھا کہ اگر پرویز مشرف استعفیٰ دے دیتے ہیں تو انہیں محفوظ راستہ دے دیا جائے گا اس لئے جب پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا تو ہم ان نے کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پرویز مشرف کے حق میں نہیں یہ بھی نہیں کہہ رہے کہ مشرف کی مدد کریں، صرف یہ چاہتے ہیں کہ وعدوں کو پیش نظر رکھا جائے۔ پی پی پی اداروں کا احترام کرتی ہے ان کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم نے بڑی مشکل سے آمریت کا مقابلہ کر کے جمہوریت کو بحال کیا آج جو لولی لنگڑی جمہوریت نظر آرہی ہے وہ پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے۔ انہون نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو اب پرویز مشرف پر مقدمہ نہیں چلانا چاہئے تھا، وزیراعظم کو معاہدوں کی پاسداری کرنے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طاقتور فوجی بغیر معاہدے کے کیسے استعفیٰ دے سکتاہے، پرویز مشرف نے کچھ وعدے لے کر ہی استعفیٰ دیا تھا۔ نجی ٹی وی کے مطابق گیلانی نے کہا کہ پرویز مشرف کے استعفے کے وقت میں نے اور صدر آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کئے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے اسن کی پاسداری کرنی چاہئے۔ گیلانی نے کہا میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی کارروئی 12اکتوبر 1999ء سے ہونی چاہئے۔دریں اثناء پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی۔ آصف علی زرداری نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو دو چوائس دی تھیں کہ مشرف استعفیٰ دیں یا مواخذے کیلئے تیار ہوجائیں۔ ہمارا مقصدمشرف کو ہٹانا تھا۔ اس موقف کے بعد مشرف نے حالات کو دیکھ کر استعفیٰ دے دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ جہانگیر بدر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کا بیان سن کر خود بھی حیرانی ہوئی۔ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔ پیپلز پارٹی کی مشرف سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی تھی۔
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے یوسف رضا گیلانی کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے اگر کوئی معادہ کیا ہے تو اس کی پابندی کریں، ہم نے کسی وعدے کی ذمہ داری نہیں لی۔ آصف زرداری بھی مشرف کے مواخذہ پر آمادہ تھے۔ مواخذہ سے بچنے کیلئے ہی مشرف نے استعفیٰ دیا، ہم آئین کے ایک ایک لفظ کے محافظ ہیں، کسی وعدے میں شامل تھے نہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی معاہدہ کیا تھا تو مسلم لیگ ن اس کا حصہ نہیں تھی۔ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدہ کے فیصلہ کی ذمہ داری عدالت پر ہے عدالتیں آزاد ہیں، مقدمہ کی مدعی حکومت نہیں پاکستان کی ریاست ہے عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ 3نومبر کا اقدام آرٹیکل 6کے ذمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اگر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو ہر شہری کو عدالت کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے۔ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بے گناہ شہری ہے یا مجرم۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا مشہود خان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے ڈیل کی کوشش کی لیکن مسلم لیگ ن نے اسے مسترد کردیا۔ ہم پیپلز پارٹی کے دور کی کسی ڈیل کا حصہ بھی نہیں رہے، اپنے بیان میں رانا مشہود احمد خان نے کہا پرویز مشرف کے بارے میں عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں منظور ہوگا۔
سابق وزیراعظم جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے مستعفی ہونے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے کی جو بات ہے اس میں سچائی کا جواز یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں عملاً یہ ہوا تھا۔ جنرل مشرف کسی عدالتی کارروائی یا بازپرس کے بغیر بیرون ملک چلے گئے تھے پھر 2013ء کے الیکشن سے پہلے انہوں نے ازخود وطن واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرنے کا اعلان کیا۔ اب اصولی طور پر جنرل مشرف کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کو سچا ثابت کریں اور عدالتی جنگ کے بعد خود کو بیگناہ ثابت کرائیں اور اب گلی کوچوں میں یہ بات کی جارہی ہے کہ جنرل مشرف کے خالف غداری کے مقدمہ کو اسٹیبلشمنٹ میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے لیکن اس مرحلہ پر جنرل مشرف کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی طرح محفوظ راستہ دینا اس تاثر کو جنم دے گا کہ یہ سب ”طاقت“ کا کرشمہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت، آئینی ماہرین اور اسٹیبلشمنٹ مل کر ایسا راستہ تلاش کریں جس سے یہ بحران بھی حل ہوجائے ریاستی اداروں کے مابین کشیدگی کا تاثر بھی زائل ہوجائے اور ملک عدم استحکام سے بھی محفوظ رہے۔ تاہم اصولی طورپر مشرف کیس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے ۔ 3نومبر کا اقدام آرٹیکل 6کے ذمرے میں آتا ہے جو عدالت میں زیر سماعت ہے۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے اسے سب کو دل و جان سے تسلیم کرنا چاہئے ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا تاثر مست حکم ہوگا جس سے بہر حال کسی ادارہ کی عزت و توقیر پر حرف ضروری آئے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Gillani Ne Pol Khol Diya is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 July 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.