حلف اور اقرار نامہ میں فرق‘ حقیقت کیا ہے؟

ختم نبوت قانون میں نقیب زنی اہل ایمان کیلئے ناقابل برداشت․․․․․․․ حلق کو اقرار میں بدلنے کے مسئلہ کی جڑیں 305 سال پرانی ہیں

پیر 4 دسمبر 2017

Half Or Iqrar Nama Me farq Hqqeqt Kya hy
تابش قیوم:
ختم نبوت قانون میں تبدیلی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پاس ہونا خوش آئند ہے تاہم اس مذموم عمل میں ملوث ذمہ داران کو سزائیں نہ ملنے سے قوم میں پائی جانے والی بے چینی ابھی تک ختم نہیں ہوسکی۔ اسلام آباد میں دھرنا بھی اسی مقصد کے تحت جاری ہے اور شرکاء کا مطالبہ ہے کہ سینئر سیاستدان راجہ ظفر الحق کی سرابراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور وزیر قانون زاہد حامد سمیت دیگر ذمہ داران کے عہدوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کرکے سخت سزا دی جائے ۔

اس دوران پاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے اخبارات میں ”ختم نبوت کے حلف نامہ کے عنوان میں تبدیلی کا الزام، حقیقت کیا ہے“؟ کے عنوان کے تحت اشتہارات بھی شائع کروائے گئے جن میں ایک مرتبہ پھر خصوصی نوٹ لکھتے ہوئے وہی پرانی بات دہرائی گئی ہے کہ Oath(حلف )اور affirmation (اقرار)ایک ہی چیز ہیں اس لئے اس لفظ کی تبدیلی سے حلف نامہ کے عنوان میں کوئی قانونی یا معنوی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

یعنی حکومت کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی ہے۔ درج ذیل سطور میں ہم ان شاء اللہ واضح کریں گے کہ حلف اور اقرار میں کیا فرق ہے؟ تاہم میں حکومتی ذمہ داران کی توجہ ایک مرتبہ پھر اسی جانب دلانا چاہتا ہوں کہ ختم نبوت کا معاملہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والے ملک میں اس قانون پر نقب لاگایا جائے یہ کوئی اہل ایمان برداشت نہیں کرسکتا۔

نبی اکرم ﷺ کی ناموس اور حرمت کو داؤ پر لگانے کا وار اتنی چالاکی سے کیا گیاتھا کہ بعض علماء کرام اور دیگر لوگ بھی منقسم ہوگئے کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور یہ اچانک شور کیا ہے؟ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ قانونی دستاویزات میں ہر لفظ کے پیچھے ایک اہم پہلو ہوتا ہے ۔ محض تجزجاتی و جذباتی آرا ء قانون نہیں بنتیں بلکہ یہ دستاویزات عملی حیثیت میں قوموں کے مستقبل اور ان کی شناخت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

شیخ رشید صاحب نے جب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جذباتی انداز میں توجہ دلائی کہ اراکین اسمبلی کے حلف نامہ میں سے ناموس رسالت کا قانون نکال دیا گیا ہے تو پر کچھ مذہبی جماعتوں نے تو فوری احتجاج کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی لیکن حکومت کی اتحادی مذہبی جماعتوں نے اس پروپیگنڈا قرار دیا اور یہی شق پیش کرکے کہا کہ بتاؤ کہاں تبدیلی ہوئی ہے؟ بعض نے مناظر کا چیلنج دیا اور انگریزی سیکھنے کا مشورہ دیا۔

اس طرح یہ بھی کہا کہAffirmation اور حلف ایک ہی چیز ہیں۔ اس خوفناک ترجمے پر میں بعد میں آتا ہوں پہلے یہ بتاتا چلوں کے فرق اس شق کے الفاظ میں نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے لکھی ایک سطر میں تھا جو اس طرح سے ہے۔ترمیم سے پہلے امیدوار فارم پر ختم نبوت کا اقرار یہ کہہ کر کرتا تھا کہ ”میں دیانتداری سے قسم کھاتا ہوں“ جبکہ ترمیم کے بعد اس کے الفاظ یہ ہوگئے ہیں کہ ”میں دیانتداری سے اقرار کرتا ہوں“ یعنی فرق قسم ”Oath اور ”اقرار“ Affirmation کا ہے۔

اگر یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں تو پھر تبدیلی کی ضرورت کیوں اور کس لئے پیش آئی؟ فارم جہاں امیدوار دستخط کرتا ہے وہاں بھی اسی سے منسلک تبدیلی کرکے اب Oath of Statement کی جگہ Affirmation Solemn لکھ دیا گیا ہے۔ Oath اور Affirmation کا معمہ ہے کیا؟ آپ حیران ہونگے کہ جس مسئلہ کو ہمارے علماء اور وزراء معمولی سمجھ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک ہی چیز ہے اس کی جڑیں 305 سال پرانی ہیں جب ایک Quakers نامی عیسائی فرقہ نے حلف لینے سے انکار کیا اور کہا کہ ہم صرف اقرار کریں گے کیونکہ ان کے نزدیک خدا ہر انسان میں ہے اور اسے علیحدہ سے قسم کھانے کی ضرورت نہیں اور اسی طرح کے دیگر عقائد کی بنیاد پر انہوں نے Oath کی بجائے Affirmation کا سہارا لیا اور 1695 میںQuakers Act 1695 منطور کروایا۔

اس قانون میں بھی وہی الفاظ درج ذیل ہیں جو موجودہ ترمیم میں شامل کئے گئے ہیں۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ 200 سال قبل اسکاٹ لینڈ کے ملحدین نے بھی حلف کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کردی کہ ہم تو خدا کو مانتے ہی نہیں تو پھر قسم کیوں کھائیں اور اس طرح انہوں نے بھی قانون سازی کروا کے یہ شرط ختم کروادی ۔ یہ سار اکھیل دراصل اس تاریخ کا حصہ ہے جب مغرب نے چرچ اور مذہب سے اپنا رشتہ توڑ کر لادینیت اور سیکولرازم کی بنیاد رکھی تھی اسی نے Law Affirmation یاAffirmation Solemn کی بھی بنیاد رکھی۔

وہ 1880 میں برطانیہ میں الیکشن جیت کر منتخب ہوا مگر اس کو حلف دینے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ ملحد یعنی لادین تھا اور عیسائیت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس نے حلف کے بجائے اقرار کی استدعا کی جو مسترد کردی گئی اور اس سے سیٹ چھین لی گئی تاہم بعد میں ضمنی انتخابات کروائے گئے اور اس سے سیٹ چھین لی گئی تاہم بعد میں ضمنی انتخابات کروائے گئے جس پر وہ ایک مرتبہ پھر جیت گیا اور پھر سے حلف سے انکار کیا جس پر اسے گرفتار کرلیا گیا، بالآخر یہ سلسلہ جاری رہا اور ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔

پانچویں دفعہ جا کر وہ 1886 میں حلف لینے پر راضی ہوا جس کے الفاظ میں اپنی مرضی کی ترمیم کی اور پھر اس نے 1888 میں Act Oath پیش کیا جس کے ذریعہ لادین لوگوں اور ملحدین کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ حلف کی بجائے فقط اختیار پر گزارا کریں۔ یہ قانون ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا جس میں کلیدی کردار چارلس براڈ لا ف ہی کا تھا جو مغرب میں سیکولر قانون سازی کی بنیاد بنا۔

چارلز کی بیٹی بھی ملحد اور فری تھنکر تھی جسے عیسائیوں نے قتل کردیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ سیکولرازم کے علمبردار ملحد چارلز کی موت 1891 میں واقع ہوئی اور اس جنازے میں 21 سالہ ایک نوجوان موجود تھا جس کانام موہن داس گاندھی تھا جس نے آگے چل کر بھارتی سیکولر آئین کی بنیاد رکھی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مغرب میں آج بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اپنا عقیدہ چھپا کر محض اقرار کا سہارا لے کر کئی ملحد عیسائی بن کر پارلیمنٹ کے ممبر بنے جن کی اصلیت بعد میں سامنے آئی۔

ان دونوں الفاظ کے قانونی اثرات کیا ہیں یہ ثانوی بات ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ن لیگ کو آخر 99% مسلمان آبادی والے ملک میں حلف کو اقرار میں بدلنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ یہ مسئلہ تو مغرب کی ان ریاستوں میں پیش آیا یا آتا رہا ہے جو مکمل سیکولر اور لادین ہیں کیونکہ وہاں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور کسی ایسی ہستی پر یقین نہیں رکھتے جسے وہ خدا یا اس کے برابر سمجھتے ہوئے اور اس کی قسم کھانے کے لئے تیار ہوں جبکہ ایک اسلامی ملک میں جس کے آئین میں بالادستی قرآن وسنت کی ہو اور حلف اور قسم کی بے انتہا اہمیت ہو وہاں اس قسم کی خوفناک تبدیلی محض دفتری غلطی نہیں بلکہ ایک گہرا وار تھا جو باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمران جماعت واضح طور پر ملک کی نظریاتی اساس پر حملہ آورہوکر اس کو لبرل ازم کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تاکہ عالمی قوتوں کی مکمل سپورٹ حاصل کرکے اپنا اقتدار مستحکم کیا جاسکے اور سیکولرازم کی بنیادوں کو پاکستان کے آئین میں مضبوط کیا جاسکے۔ اب یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ باقاعدہ سیکولر ازم کا شب خون پاکستان کے آئین پر مارا گیا مگر اس کا ختم نبوت سے کیا تعلق؟ اس کیلئے ہمیں چند ایک باتوں کی طرف غور کرنا ہوگا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت میں جھوٹ بولنے کی بنیاد پر نااہل قراردیا گیا جبکہ اب انتخابی اصلاحات بل کے نام پر جو ترمیم شدہ قانون قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا ہے اس کے مطابق آئندہ جھوٹ بولنے والے کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکے گا۔ اراکین اسمبلی کے حلف نامہ میں ختم نبوت کی شق سے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ اس کی عبارت جوں کی توں ہے لیکن اس میں ڈیکلریشن پلس اوتھ کی جگہ صرف ڈیکلریشن ،ایفرمیشن لکھ کر اوتھ کا لفظ ختم کردیا گیا یعنی قسم اور حلفا اقرار کے الفاظ کلی طور پر حذف کردیے گئے ۔

ہم اگر ان باتون کی جانب تھوڑا غورکریں تو اس خوفناک نتائج واضح طور پر سمجھ آتے ہیں اور صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ گہری سازش کے تحت کیا گیا تھا۔ ختم نبوت کے حوالے سے اس تبدیلی کے بعد اگر کوئی مرزائی ختم نبوت کا جھوٹا اقرار کرکے اسمبلی پہنچ جائے اور بعد میں اس امر کا پتہ چلے کہ یہ تو مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے تو اس ترمیم کی وجہ سے صرف جھوٹ بولنے کی بنیاد پر اسے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا کیونکہ حلف کے الفاظ تو پہلے ہی حذف کردیے گئے تھے۔ یعنی اس انداز میں قانونی تبدیلی کی گئی کہ تھوڑا جھول رہ جائے اورآئندہ ملحد قسم کے لوگوں اور ختم نبوت کو تسلیم نہ کرنے والے قادیانیوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Half Or Iqrar Nama Me farq Hqqeqt Kya hy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.