ہمارے مالی معاملات اور کارخانہ حیات کے بدلتے پرزے

برقی گھوڑے پر سوار کر کیسے معاشی، سیاسی، تعلیمی، تجارتی، سماجی اور دینی اہداف کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ ایسے ہی بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات مستقبل قریب میں دنیائے تجارت و سیاست، علم و ہنر، دولت و اقتدار اور نظام کار خیر کا نقشہ بدل دیں گے

زبیر ایچ شیخ منگل 19 مارچ 2019

hamaray maali mamlaat aur car khan e hayat ke badalte purzey
کہتے ہیں کسی دوست یا رشتہ دار سے دشمنی مول لینی ہو تو اسکے ساتھ مالی لین دین کر کے دیکھیے جبکہ یہ ایک منفی سوچ ہے اور معاشرے کے لئے غیر صحتمندانہ طرز فکر و عمل، ویسے کہنے کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضرورت و محتاجی اور قرض سے بادشاہ ہو یا فقیر کوئی بھی مبرا نہیں اور انسان اپنی ضرورتوں کے تحت مختلف اشیاء بطور ضمانت گروی بھی رکھتا آیا ہے اور اسکے عوض میں روپیہ پیسہ یا مال ادھار لیتا آیا ہے۔

قول و قرار، عہد و پیماں اور وعدہ و وفا پر مشتمل یہ طرز فکر و عمل انسان کے معاشی عروج کا باعث بنتا رہا۔ اس کے بر عکس وضع داری، عہد و پیماں اور انسانی حمیت و غیرت کا بھی ایک ایسا دور گزرا ہے کہ مادی اشیاء کی بہ نسبت انسان کی زبان اور یہاں تک کہ اسکی مونچھوں کو بھی بطور ضمانت قبول کیا گیا۔

(جاری ہے)

اور مالی لین دین کے وہ بد ترین ادوار بھی گزرے ہیں جو بنیا، مہاجن، یہودی اور پٹھانی سود جیسی اصطلاحات سے منسوب ہوئے، اور پھر بینکنگ نظام کا رواج عام ہوتا چلا گیا جس کا بنیادی مقصد تو تجارتی لین دین ہی تھا۔

 لیکن پھر ذاتی ضرورتوں کے لین دین کو بھی اس نظام میں شامل کرلیا گیا ۔ اور اس طرح تمام ضرورتوں اور لین دین کو تجارتی اور ذاتی ضرورتوں کے دو خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔اکثر تمام مالی معاملات ”انٹرسٹ“ کی بنیاد پر ہی ہوتے رہے ۔ الغرض انسان جیسے جیسے مادیت پرستی میں مبتلا ہوتا گیا احسان و امداد کے اوصاف سے دور ہوتا چلا گیا، اور پھر یہ نقص فرداً فرداً خاندان میں اور معاشرے میں پھر سارے عالم میں پھیلتا گیاجبکہ دین فطرت نے اس کا حل زکوة ، صدقہ و خیرات اور قرض حسنہ کی صورت پیش کردیا تھا اور ایک پروٹو ٹائپ کے تحت یا بطور نمونہ اس کا کامیاب نفاذ بھی خلافت راشدہ میں کر دکھایا گیااور ایک صحتمند عالمی معاشرے کے لئے زکوة کو فرض قرار دیا، اور اسکی حدود اور پیمانے بھی مقرر کر دئیے تاکہ انسانی معاشرے اور تہذیب و تمدن کی ارتقاء فطری طرز پر ہو۔

نا ہی دنیا کی اکثریت مقروض ہو جائے اور نہ ہی ایسا ہو کہ ساری دنیا دولت مند ہو جائے اور امید و بیم، احسان و وفا، خوف و دعا ، سزا و جزا اور ضرورت و غرض مندی جیسے عوامل و عناصر سیبری ہو کر انسانی تہذیبی ارتقاء اپنا سفر طے کرے اور مادیت کو تو عروج حاصل ہو مگر انسانیت کو زوال ۔ شکر ہے کہ اب ایسا بھی نہیں ہوا ہے کہ تہذیب جدیدہ میں امداد و خیر خیرات کا جذبہ ہی دنیا سے اٹھ گیا ہو یا پھر صرف اہل ایمان ہی اس جذبہ اور عمل کے دعویدار ہوں۔

 رہا سوال یہ کہ موجودہ بینکنگ نظام میں جو “ انٹرسٹ” کی اصطلاحی تعریف ہے وہ سود کی یا الربا کی تعریف سے کس قدر مطابقت و مماثلت رکھتی ہے تو اسکا صحیح جواب صرف دو ہی حضرات دے سکتے ہیں، ایک وہ مستند ماہر جدید معاشیات جو شرعی علوم پر بھی مہارت اور سند رکھتا ہو یا وہ سند یافتہ ماہر عالم دین جو جدید معاشیات پر بھی سند اور عبور رکھتا ہو- ان دو کے علاوہ اس مسئلہ پر گفتگو کرنے والے حضرات خیال آرائی بھلے کرتے ہوں لیکن انکی بات مستند مانی نہیں جاسکتی ۔

دین فطرت زکوة کے علاوہ دیگر صدقہ خیرات کو نیکی اور نفل عبادات کا درجہ دیتا ہے، گرچہ یہ نیکیاں فرائض کا درجہ نہیں رکھتی لیکن ان کی شد و مد کے ساتھ تاکید کی گئی ہے اور انہیں فرائض کے ساتھ ساتھ بیان کر انکی اہمیت واضح کی گئی ہے۔دین فطرت جائز اخراجات میں انسان کو اپنی ذات پر اور اہل و عیال پر ترجیح دینے کی اجازت دیتا ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے تو اسراف پر تنبیہ بھی کرتا ہے اور حالات کے تحت توکل و قناعت کی نصیحت بھی کرتا ہے۔

امداد باہمی اور سخاوت کا سبق دیتا ہے تو سب کچھ لٹا کر گردن پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی ممانعت بھی کرتا ہے۔ برتنے کی چیز ادھار دینے کی تاکید بھی کرتا ہے تو فاسق،فاجر، غیر ذمہ دار، نااہل لوگوں کو اپنی ملکیت کا ذمہ دار بنانے سے روکتا ہے۔ آجر، تاجر ہو یا مشتری اور دکاندار سب کے بنیادی حقوق و فرائض بھی بتاتا ہے۔الغرض انسان سے معاشرہ و معیشت میں عدل و توازن کا تقاضہ کرتا ہے، قطرہ قطرہ دریا کی حکمت کے تحت صدقہ خیرات، قرض حسنہ اور امداد باہمی سے معیشت میں پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے پر زور دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک غریب بھی دوسرے غریب کو دو چار روپیہ خیرات کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔
 قرض حسنہ کو ترجیح دیتا ہے اور یمنعون الماعون بننے سے احتراز کرتا ہے- اور یہی وجہ ہے کہ اس عالمی نفسا نفسی، مادیت و باطل پرستی، ظلم و جبر ، استبداد و استحصال کے سازشی دور میں بھی اہل ایمان مکمل طور سے معاشی اور اخلاقی انحطاط کا شکار نہ ہوسکے اور نہ ہی بنائے جا سکے- یہی وہ اجتماعی خیر خواہی کا جذبہ اور عمل پیہم ہے جو چند امیر ترین افراد کی عظیم الشان مگر غیر مستقل یا عارضی سخاوت سے زیادہ کار گر،ستحکم اور معتبر ثابت ہوا ہے- نظام کائنات ہو یا یہ کارخان حیات سب قطرہ قطرہ دریا کی حکمت کے تحت ارتقائی مراحل کے پابند ہیں، اور ان حکمتوں کے برعکس کیا جانے والا عمل دیرپا نہیں ہوتا، بھلے عارضی طور پر محدود دارے عمل میں کبھی کارآمد ثابت ہوجائے۔

اس لئے مسلمانوں میں عرصہ دراز سے گھر گھر ، محلہ در محلہ اور مسجد در مسجد مالی امداد باہمی کا رواج عام رہا ہے، جسے تہذیب جدیدہ میں”کراوٴڈ فنڈنگ“ کا نام دیا گیا ہے- اور جو کثیر تعداد کے فارمولے پر آج بھی مختلف تنظیموں اور اداروں میں مستعمل ہے اور کار آمد بھی ثابت ہوا ہے- لیکن اطلاعاتی اور مواصلاتی انقلاب کے بعد یہ “آن لائین کراوٴڈ فنڈنگ اور فنڈ ریزنگ سسٹم، سوشیل نیٹ ور کنگ، کانٹیکٹ مینجمنٹ، نیٹ بینکنگ، پیمنٹ گیٹ وے، پلاسٹک منی، کلاوٴڈ کمپیوٹنگ، موبائیل ایپس، جیسے نظام کے تحت ہزار گناہ زیادہ کارآمد ثابت ہوا ہے اور اب مخیر اور ضرورت مندوں کی نفسیات، طرز زندگی اور انکے اعداد و شمار پر تحقیق کر معلومات کا ذخیرہ محفوظ کر لیا گیا ہے، اور پھر اسے “ڈیمو گرافک انالائسس” کے تحت منظم کر کے جدید تجارتی، سیاسی، سماجی اور امدادی کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے- 
فی الحقیقت ان تمام ٹیکنالوجی کی حیثیت نظام حیات میں اوزار اور پرزوں کی ہے جسے ہم سب اکثر و بیشتر تبدیل نظام سمجھ کر حلال و حرام کا بکھیڑا کھڑا کر دیتے ہیں- ہماری قوم و ملت اور ہمارے دانشوران کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ جدید الیکٹرونک اور اطلاعاتی و مواصلاتی انقلابات کو بروئے کار لانے میں پیش رفت نہیں کرتے اور اسے اوزار بنانے کی وہ طاقت اور سوچ بھی نہیں رکھتے، اور پرانی طرز فکر و عمل کے خول یعنی اپنے اپروچ سے باہر نہیں آتے، اور جسے جانے انجانے آبجیکٹیو یا اصل مقصد سمجھ لیا جاتا ہے اور ٹیکنا لوجی یعنی اوزار اور وسائل میں جدت کو تبدیل نظام سے منسوب کردیا جاتا ہے- ٹیکنالوجی جو140 کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے اور تمام وسائل کے باوجود سرکاریں اور جدید تجارتی ادارے 160 کی رفتار سے اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اب تک کبکْدری کی چال اور رفتار پر نازاں ہیں ۔

جہاں تک تہذیبی ارتقا کے لئے تغیر و تبدل کی ضرورت کا تعلق ہے تو دین فطرت ایک متوازن طرز فکر و عمل کا تقاضہ کرتا ہے اور جائز تغیر و تبدل اور ایجادات و دریافت کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا ۔ضابطہ حیات کے ہر ایک شعبہ کے لئے مناسب حل پیش کرتا ہے جو بنیادی اصول و ضوابط پر مبنی ہوتے ہیں اور جو ایمانیات اور عبادات کے طریقہ کار اور خاندانی نظام کے علاوہ دیگر تمام معاملات میں لچک، نرمی، آسانی، رخصت اور اجتہاد کو بروئے کار لانے کی اجازت بھی دیتے ہیں ۔

آج دنیا برقی گھوڑے پر سوار ہوکر جدید طرز تجارت جیسے “ای-ٹیل” اور ای کامرس کے تحت کام کررہی ہیں اور سیاست و حکومت ای- گورننس کے تحت ، اور تعلیمی ادارے بھی اسی برقی گھوڑے پر سوار ہیں - اور یہ سب تعداد کی قوت کا استعمال کر عظیم الشان ترقی کر رہے ہیں- بلکہ چند مالی امداد کے ضمن میں کام کرنے والے ادارے بھی کروڑوں اور اربوں لوگوں تک اپنی پہنچ بڑھا کر اپنے اہداف کو پورا کر رہے ہیں- سیاست میں تو کامیابی کا دار و مدار اسی طرز فکر و عمل پر منحصر ہے- الغرض مختلف تجزیات کی روشنی میں یہ بات آسانی سے ثابت کی جاسکتی ہے کہ تہذیب جدیدہ اور عالمی معاشرہ کس سمت رواں دواں ہے اور انْکا مستقبل کیا ہوگا۔

یہ بات اب اہل فکر و نظر کے لئے نئی نہیں رہی کہ اس کارخانِ حیات میں اہل سیاست کی حکمرانی باقی نہیں رہی اور دنیا کے اکثر سیاست داں اور اہل اقتدار یا تو خود سرمایہ دار ہیں یا سرمایہ داروں کی ماتحتی اور پشت پناہی میں حکومت چلا رہے ہیں- تجارتی اداروں اور انکے مالکوں کی مالی طاقت سے ملکوں کی سیاست اور معیشت چل رہی ہے - بلکہ جنگ و امن کے فیصلے بھی سرمایہ داروں کی عالمی برادری ہی طے کرتی ہے اور مذاہب کے عروج و زوال میں یہی برادری اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

 
سرمایہ دار اور صنعت کار گھرانوں کی دولت کا اصل سر چشمہ صارفیت ہے جو تعداد کی محتاج ہے- اب ان حالات میں دانشوران قوم و ملت کو اپنے طرز فکر و عمل میں غور کرنا ہوگا کہ موجودہ دور میں طاقت کا سر چشمہ کن عناصر و عوامل میں پوشیدہ ہے، کیا ٹیکنالوجی، ڈیٹا یا انفارمیشن کی طاقت دولت سے بڑی ہے، یا نہیں ؟ سیاست بڑی ہے یا تجارت ؟ اور اصل اقتدار کس کا ہے؟ گنتی کے چند سخی حضرات کی اربوں کی عارضی سخاوت پر صرف انحصار کرنا ہے یا اربوں کی تعداد میں عام لوگوں کی بے حساب مستقل سخاوت پر؟ کیا ہمارے کار خیر اور مالی امداد کے ادارے اور تنظیمیں، منظم اور خود کفیل ہیں ؟ اور اگر نہیں ہیں تو کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اور کثیر تعداد کی طاقت کو برقی گھوڑے پر سوار کر کیسے معاشی، سیاسی، تعلیمی، تجارتی، سماجی اور دینی اہداف کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ ایسے ہی بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات مستقبل قریب میں دنیائے تجارت و سیاست، علم و ہنر، دولت و اقتدار اور نظام کار خیر کا نقشہ بدل دیں گے۔

اب بھی وقت ہے اے خرد مندان قوم و ملت اور اے دردمندان دین و مذہب ، غور کیجئے کہ تغیر کو ثبات نہیں اور ہر جائز تبدل و تغیر دین و دنیا کے لئے ضروری ہے اور ہم نے انہیں اپنانے میں ہمیشہ تاخیر کی ہے، آخر کیوں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

hamaray maali mamlaat aur car khan e hayat ke badalte purzey is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.