حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش

بجٹ2017-18 اپوزیشن کی طرف سے مسترد، کسانوں پر پارلیمنٹ کے باہر تشدد ایک ایشو بنارہا

جمعہ 2 جون 2017

Hussain Nawaz Aik Bar Phir JIT K Samnay Paish
زاہد حسین مشوانی:
نئے مالی سال 2017-18 کے لئے قومی بجٹ پیش کیاگیا53 کھرب 10 ارب روپے حجم کے اس بجٹ کو اپوزیشن نے یکسر مسترد کردیا۔بجٹ سے قبل پارلیمنٹ کے باہر حقوق کے لئے احتجاج کرنے والے کسانوں پر پولیس کا لاٹھی چارج اوران پر پانی گرانے کا واقعہ بھی ایک ایشو بنارہا۔دوسری جانب پانامہ لیکس پر بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے بھی اپنا کام جاری رکھا اور میاں نوا ز شریف کے صاحبزادے حسین نواز بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور اڑھائی گھنٹے تک ان سے سوالات کئے جاتے رہے۔

جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے تو پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرنے سے قبل وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دی اور فیصلوں کی توثیق کی بجٹ میں بعض اہم فیصلے بھی کئے گئے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کی او ر بتایا کہ ترقیاتی کاموں پر ایک ہزرا ایک سو تریسٹھ ارب روپے خرچ ہوں گے۔

(جاری ہے)

دفاع کے لئے نو سو بیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

گریڈ پانچ کے ملازمین ہاؤس رینٹ کی کٹوتی سے مستثنی قرار دیئے گئے جبکہ سی این جی سٹیشنز کے بل پر ٹیکس بڑھنے کی تجویز بھی دی گئی ٹیکس چوروں کے لئے پلی بارگین سکیم متعارف کرا دی گئی۔پاک فوج کے جوانوں کے لئے دس فیصد اضافی الاونس کا اعلان بھی بجٹ میں کیا گیا۔گھی مشروبات ،سگریٹ،الیکٹرانک کی اشیاء ،دودھ سیمنٹ اور سیریا مہنگا کردیا گیا جبکہ گاڑیاں اور موبائل فون سستے کرنے کے علاوہ زرعی پولٹری سیکٹر کے لئے بھی بعض رعائتوں کا اعلان کیا گیا۔

وزیر خزانہ اپنے سی پیک منصوبوں کے لئے ایک سو اسی ارب روپے کا اعلان بھی کیا محنت کش کی کم سے کم اجرت پندرہ ہزار روپے مقرر کی گئی ۔پان چھالیہ پر کسٹم وڈیوٹی تین سے بیس فیصد کردی گئی۔بجٹ میں امونیا کھاد کی فی بوری قیمت میں تین سو روپے کمی کی گئی۔نئی آئی ٹی کمپنیوں کو تین سال تک ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔اس کے علاوہ دیا میر بھاشا ڈیم،نیلم جہلم ڈیم کے منصوبوں کے لئے اڑتیس ارب روپے مختص کئے گئے ۔

بجٹ میں ایف بی آر کے لئے ٹیکس وصولی کا ہدف چار ہزار تیرہ ارب روپے مقرر کیا گیا۔اسحاق ڈار کے مطابق ترسیلات زر کا تخمینہ آٹھ سو سینتس اعشاریہ اسی ارب روپے لگایا گیا۔بجٹ میں ایک سو بیس ارب روپے کے نئے ٹیکس شامل کئے گئے۔نئے بجٹ کے مطابق دفاع پر نوسو بیس ارب روپے خرچ ہوں گے دفاعی بجٹ میں اناسی ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔اس بجٹ میں شہداء اور زخمیوں کے لئے ایک ارب روپے رکھے گئے۔

دفاعی پیداواری سکیموں کے لئے پانچ ارب تیس لاکھ روپے،پی ایس ڈی پی میں وزارت دفاع کی جاری سکیموں کے لئے تینتیس کروڑ اکانوے لاکھ سے زائد رقم رکھی گئی۔توانائی کے منصوبوں کے بارے میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور آئندہ سال لوڈشڈنگ مکمل ختم کرنے کا اعلان بھی انہوں نے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت بجلی کی پیداوار میں دس ہزار میگاواٹ اضافہ کرے گی۔

بجٹ میں پاور سیکٹر کے لئے تین377 ارب 55کروڑ روپے جبکہ پانی کے شعبے کے لئے اڑتیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بجٹ ہائبرڈالیکٹرک گاڑیاں ،آلات جراحی سسے کئے گئے۔بیلڈوزرز ار ڈویلپر ز پر فکسڈ ٹیکس ختم کردیا گیا۔اسحق ڈار نے بجٹ تقریر شروع کی تو اپوزیشن کے ارکان اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کردیا۔پاکستان پیپلزپارٹی،پی ٹی آئی،ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے ارکان بات کرنا چاہتے تھے۔

بجٹ سے قبل اپوزیشن لیڈر کے علاوہ کسی رکن کو بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسا اس سے قبل نہیں ہوا کہ بجٹ سے قبل ہی اس پر بحث شروع کردی جائے۔سپیکر نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو فلور دیاانہوں نے تقریر کی اور کہا کہ کسانوں پرتشدد زیادتی ہے۔ان کے مطالبات جائز ہیں اور ان کو منانے اور ان سے ہمدردی کی بجائے حکومت نے ان پر تشدد کیا۔

حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔کسان ملک کی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں سے معافی مانگے اور ان کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی اس پر شدید احتجاج کیا۔ایوان میں ہنگامہ آرائی کی گئی۔بجٹ نامنظور نامنظور اور گونواز گو کے نعروں سے ایوان گونجتا رہا۔اپوزیشن کے ارکان بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑ پھاڑ کر ہوا سپیکر کے ڈائس کے سامنے اڑاتے رہے تاہم وزیر خزانہ نے اپنی تقریر جاری رکھی اور بجٹ تقریر مکمل کرکے انہوں نے سانس لیا۔

سینیٹ میں بھی بجٹ کی کاپی پیش کی گئی۔وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی مالیاتی بل کی نقل پیش کی جس پر چیئرمین نے اراکین سے فنانس کی کمیٹی کو بل پر سفارشات پیش کرنے کو کہا اور کمٹیی کودس روز میں سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی۔بجٹ پر سینیٹ اپنی سفارشات قومی اسمبلی کو پیش کرے گا۔حکومت نے بجٹ کو ان حالات ایک اچھا بجٹ قرار دیا اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق دو ہزار تیس تک پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور بجٹ سے پسماندہ طبقے کو فائدہ ہوگا۔

وزیر اطلاعات مریم اور نگزیب کا کہناہے کہ بجٹ عوام دوست ہے اور حکومت نے عوام سے جووعدے کئے تھے ان کو پورا کرنے کی کوشش کی۔اپوزیشن کی طرف سے بجٹ مسترد کیا گیا اور کہا گیاکہ حکومت نے غریب سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔پیپلز پارٹی،پی ٹی آئی ،جماعت اسلامی،ایم کیو ایم اور دیگرجماعتوں کی طرف سے کہا گیا کہ عام آدمی کو بجٹ میں نظر انداز کیاگیااور قرضوں کا بوجھ بڑھا دیا گیا ہے۔

اس سے قبل وزیر خزانہ کی طرف سے اقتصادی سروے جاری کیا گیا جس پر تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے اکنامک سروے پر حقائق نامہ جاری کیا کہ اصلاحات نہ کی گئیں تو آئندہ سال بھی حکومت اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائیگی اور یہ کہ بہت زیادہ مالی خسارہ،ادائیگیوں کا توازن انتہائی کمزور برآمدات ۔کم بچت اور انتہائی نچلی سطح کی سرمایہ کاری ملک میں معاشی کارکردگی پر اثر انداز ہوئی ہے۔

لہٰذا حکومت کو اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے ان چیزوں پر تو جہ دینی ہوگی ورنہ مسلسل ہر سال معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے،حقائق نامے میں کہا گیا کہ حکومت ہر سال معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہے لیکن اس سے کوئی سبق نہیں سیکھ ہا رہی،اگرچہ جی ڈی پی گروتھ میں بہتری آئی ہے لیکن اس سے بنیادی معاشی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں آرہی،مسلسل مالی خسارہ اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک کی معیشت انتہائی نازک ستونوں پر کھڑی ہے۔

صنعت اور زراعت کا 1.7 فیصد حصہ ہے اور سروسز نے3.5 فیصد حصہ ڈالا ہے جبکہ اس دفعہ زرعی ترقی میں اضافہ اس لیے دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ یہ اضافہ پچھلے سال زرعی ترقی کی کمزور بنیاد پر دیا گیا ہے،رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کم محصولات،زیادہ خرچے اور صوبوں کی طرف سے پچیدگیاں شامل ہیں،اس کے علاوہ انرجی کی کم قیمتیں،مارک اپ کا کم ریٹ کولیشن سپورٹ فنڈ میں کمی کی وجہ سے اس بارٹیکس کی وصولیاں پانچ سو ارب کم رہ سکتی ہیں،ملک کے اند بچت اور سرمایہ کاری اپنے اہداف سے دور کھڑے ہیں لہذا معاشی ترقی کیلئے حکومت کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دے،تجویز دی گئی ہے کہ جب تک پاور سیکٹر،بڑے پیمانے پر صنعت کاری ،ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری،برآمدات میں اضافہ اور انفراسٹرکچر پرتوجہ نہیں دی جاتی اور ان میں بہتری نہیں لائی جاتی تو معاشی اشارے عارضی ثابت ہوں گے اور آئندہ سال بھی حکومت اپنے اہداف حاصل نہیں کرپائیگی۔

تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بجٹ 2017-18 سے متعلق وزیر خزانہ کی تقریر کو بھی اقتصادی کامیابیوں کے دعوؤں اور مزید ترقی کے وعدوں کا ایسا مرکب قراردیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آئی پی آر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت صنعتی اور تجارتی شعبوں میں صرف ایڈہاک بنیادوں پر کام کررہی ہے،حکومت نے معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو چھوا ہے،ہماری معیشت پر بلواسطہ ٹیکسز کا بوجھ براہ راست ٹیکسوں سے زیادہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح مالی خسارہ کی وجہ سے حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں،اس کے علاوہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے،ایف بی آر کے محصولات میں 14 فیصد اضافے کی توقع ہے جبکہ نان ٹیکس میں 7 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے،جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 6 فیصد جبکہ اس سال بھی مہنگائی 6 فیصد تک رہے گی،اگرچہ2017-18 میں زراعت اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی ترقی اور غربت میں کمی کیلئے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن ان اقدامات کا اثر برائے نام ہی ہوتا ہے ،رپورٹ کے مطابق زراعت اور صنعت کیلئے ایک طویل مدتی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کہ اند ر پیداوار کو تسلسل کے ساتھ بڑھایا جا سکے۔

حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے بجٹ پر دعوے اپنی جگہ لیکن عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینا حکومت کی ذمہ داری ہے ہماری بد قسمتی ہے کہ قومی بجٹ کے بعد بھی منی بجٹ آتے رہتے ہیں اور ملک میں اشیاء کی نرخوں پر کوئی چیک نہیں ہوتا۔ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔بالواسطہ ٹیکسوں نے غریب عوام کے سامنے ایک لائحہ عمل پیش کردیا گیا اب اس میں ایک بار پھر چند ماہ بعد اگر مہنگائی کی جاتی ہے اور نئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو یہ غریب عوام سے زیادتی ہوگی۔

پانامہ پیپرز پر قائم کی گئی جے آئی ٹی نے بھی کام جاری رکھا اور وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے اٹھائیس مئی کو پیش ہوئے حسین نواز اڑھائی گھنٹے تک جے آئی ٹی کے سامنے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔حسین نواز نے میڈیا سے بھی مختصر گفتگو کی اور کہا کہ ان کو چوبیس گھنٹے کا نوٹس دیا گیا جس پر وہ پیش ہوئے ہیں اور ان کوکوئی سوال نہیں دیئے گئے۔

ان کے ہمراہ ان کے وکیل بھی تھے۔حسین نواز نے کہا کہ وہ اپنا وکیل بھی ساتھ لے کر آئے ہیں اور اگر ان کے وکیل کو جانے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ میڈیا کو بتائیں گے۔اڑھائی گھنٹے کی سماعت کے بعد حسین نواز فیڈرل جوڈیشنل اکیڈمی جہاں جے آئی ٹی کا دفتربھی ہے کے عقبی دروازے سے میڈیا کو چکمہ دے کر نکل گئے،ذرائع نے بتایا کے کہ جے آئی ٹی میں شامل بعض اداروں کے نمائندوں نے حسین نواز سے کڑے سوال کئے اور ان کو ایک سوال نامہ بھی دیا گیا کہ ان کے جواب تیس مئی کو پیش کریں۔حسین نواز ان سطور کے شائع ہونے تک تیس مئی تک دوبارہ بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوچکے ہوں گے اور سوالوں کے جواب دے چکے ہوں گے۔حسین نواز آف شور کمپنیوں اور لندن فلیٹس کے بارے میں پہلے ہی تسلیم کرچکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Hussain Nawaz Aik Bar Phir JIT K Samnay Paish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.