انکم ٹیکس نظام میں اصلاحات مگر کیسے ؟

وزیراعظم نے ڈھائی ماہ قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو کوہدایات جاری کی ہیں کہ انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور اس سلسلہ میں انکم ٹیکس (گوشوارے) ریٹرن کو سادہ اور مختصر بنایا جائے۔

بدھ 24 جنوری 2018

Income Tax Nizam Main Islahat Magar Kaisay
محمد شفیع خان :
وزیراعظم نے ڈھائی ماہ قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو کوہدایات جاری کی ہیں کہ انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور اس سلسلہ میں انکم ٹیکس (گوشوارے) ریٹرن کو سادہ اور مختصر بنایا جائے۔ ایسے حالات میں جب ہماری معیشت مسلسل مشکلات کا شکار ہے ،وزیر اعظم کے احکامات نہایت اہم ہیں کیونکہ بلا شبہ ہر ایک ملک کی ترقی کا تمام تر دارومدار ٹیکسوں کے نظام پر ہوتا ہے۔

ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیلئے مختلف اداروں میں پہلے بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اس میں ابھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ 1996ء میں ریجنل کمشنر لاہور ایس ایم منیر کی نگرانی میں اس سلسلے میں نتائج کو کتابی شکل بھی دی گئی جنہوں نے اس تعداد میں ریکارڈ اضافہ کر کے دکھایا۔

(جاری ہے)

جبکہ 2000ئسے ویلتھ ٹیکس ایکٹ کا نفاذ ختم کر دیا گیا۔

گویا چیک اینڈ بیلنس کا یہ نظام ختم کر کے ٹیکس چوری کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت آئی تو انہوں نے آرمی کی نگرانی میں پاکستان بھر کا ڈور ٹور ڈور انکم ٹیکس سرورے کروایا۔ ٹیکس چوری کے اہم ثبوت اکٹھے کئے گئے لیکن سرمایہ داروں کا سیاسی تعاون حاصل کرنے کیلئے یہ اہم سروے بھی ردی کی ٹوکری میں چلا گیا اور بعد میں محض ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2002ء پر اکتفاء کیا گیا۔

سیلز ٹیکس آرڈیننس 1990ء کے نفاذ سے صرف چند مخصوص اشیاء پر سیلز ٹیکس لگایا گیا تھا جسکی شرح10فیصد تھی جبکہ 2001ء میں جنرل سیلز ٹیکس آرڈیننس 2001نافذ کیا گیا اسکی شرح 14فیصد سے 19فیصد تک مقرر کی گئی اور یہ ٹیکس تقریباً روز مرہ کی استعمال کی تمام ضروریات زندگی پر لگایا گیا ،حتیٰ کہ یوٹیلٹی بلوں پر بھی اس کو لاگو کیا گیا۔جس سے ہوشربا گرانی نے جنم لیا۔

مزید براوٴں چونکہ سیلز ٹیکس کی وصولی تاجروں کے ذریعے ہوتی ہے جو اپنا سامان تیار کر کے دکاندار کو بھیجتا ہے لہٰذا وہ بوقت فروخت دوکاندار سے سیلز ٹیکس وصول کر لیتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ اپنی (Sale)انکم ٹیکس کے گوشوارے میں عموماً کم ظاہر کرتا ہے۔ اسلئے عوام/ صارفین سے وصول کئے گئے ٹیکس کا ایک بڑا حصہ کار خانہ داروں اور تاجروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔

کچھ یہی حال ود ہولڈنگ ٹیکس کا ہے ہر شے کے پیکٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس قیمت اشیاء میں شامل ہوتا ہے جو کار خانہ دار وصول کر چکا ہوتا ہے لیکن حکومت کے خزانہ میں اس کا کثیر حصہ داخل نہیں ہوتا بلکہ تاجروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ انکم ٹیکس کی مد میں 65فیصد کل وصولی کا حصہ ود ہولڈنگ ٹیکس سے کیا جاتا ہے جو عوام پر سراسر ظلم ہے۔ چنانچہ سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس ہی مہنگائی کا ایک بڑا سبب ہے۔

انکم ٹیکس کا محکمہ خاص اہمیت کا حامل قومی ادارہ ہے جس کا اعلیٰ معیار برقرار رکھنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے آڈیٹر جنرل اور اس کے ماتحت متعدد دیگر اداروں کا۔جن کی ٹریننگ اور تربیت مخصوص انداز میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ محکمہ انکم ٹیکس کے ملازمین کے لئے قیام پاکستان کے بعد سے محکمانہ امتحانات کا نظام موجود تھا۔ جس کے تحت معمولی کلرک سے لے کر انکم ٹیکس آفیسر تک ان امتحانات کو پاس کرنا ضرری تھا۔

لیکن 1980ء کے بعد محکمانہ امتحانات رہے نہ ہی ملازمتوں کیلئے کوئی معیار بر قرار رکھا گیا۔ یوں یہ محکمہ رشوت، سفارش، اقربا پروری کا مرکز بن کر رہ گیا۔ویلتھ ٹیکس ایکٹ کی منسوخی سے ٹیکس چھپانے والوں کو کھلی چھٹی دیدی گئی ،ہر سال ویلتھ ٹیکس کے شوارے اور انکم ٹیکس میں ظاہر کی گئی آمدنی سے با آسانی موازنہ کیا جا سکتا تھا کہ سال بھر میں ٹیکس دہندہ نے کتنے اضافی اثاثے آمدنی سے زیادہ بنائے ہیں۔

کیونکہ یہ ایک چیک بیلنس کا ایک پیمانہ تھا لہٰذا اس سے اضافی ٹیکس کی وصولی کیلئے قانونی کارروائی ہو سکتی تھی۔ 2000ء کے بعد جب وڈ ہولڈنگ ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کیا گیا۔اس کے نتیجے میں ہر استعمال کی شے پر وڈ ہولڈنگ ٹیکس اور سیلز ٹیکس سر چارج، وغیرہ وغیرہ لگا کر صارف کی قوت خرید کو مفلوج کر دیا گیا۔ان اقدامات کے باعث ہو شر با گرانی نے پنجے گھاڑ لئے ہیں۔

اور اب یہ لوٹ کھسوٹ روکنا مشکل ہو چکا ہے۔ مندرجہ بالا تاریخی حقائق کی روشنی میں اگر تجزیہ کیا جائے کہ آخر 2000ء کے بعد یکا یک ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے تو یہ جاننا مشکل نہیں ہو گا کہ ہمارے ٹیکسوں کے نظام میں بد نظمی، اور عدم توجہ نے ہمیں یہ دن دکھائے۔غیر منصفانہ ٹیکسوں کا نظام حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکہ سر فہرست ہے اس میں ٹیکسوں کی وصولی کا راز کیا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ وہاں لوگ دیانتداری سے اپنا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

امریکہ میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد100فیصد ہے اور شرح ٹیکس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ چین اور یورپین ممالک میں بھی بچوں بوڑھوں کے علاوہ ہر فرد اور ادارہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ بھارت ہم سے غریب اور کم وسائل کا ملک ہے جہاں 40%عوام فٹ پاتھوں اور پارکوں میں رات بسر کرتے ہیں۔ وہاں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد2کروڑ ہے جو انکم ٹیکس کا گوشوارہ داخل کرتے ہیں۔

گویا کل آبادی کا 2فیصد حصہ ٹیکس دہندہ ہیں۔ جبکہ پاکستان میں2000ء میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد33لاکھ تھی جواب2016میں گھٹ کر20لاکھ رہ گئی ہے جو کل آبادی کا صرف ایک فیصد بنتی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہر پاکستانی قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنا انکم ٹیکس قانون کے مطابق مقررہ وقت پر ادا کرے تو اتنا کثیر سرمایہ وصول ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے ٹیکس یا سرچارج وغیرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔


1۔ سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ایف بی آر اور اسکے تمام ذیلی اداروں بشمول انکم ٹیکس میں تنظیم نو کی جائے۔ چیئر مین اور ممبران ایف بی آر کو صرف ٹیکس کے کہنہ مشق افسران سے پر کیا جائے۔ دوسرے محکموں سے غیر متعلقہ افراد کو ایف بی آر یا اس کے ذیلی اداروں میں تعینات نہ کیا جائے۔
2۔ محکمہ انکم ٹیکس اور ایف بی آر کے تمام دیگر ذیلی ملحقہ اداروں کے افسران اور سٹاف کیلئے محکمانہ امتحانات حسب سابقہ لازمی قرار دیئے جائیں اور ان امتحانات سے انکی تقرری اور ترقی مشروط ہوتا کہ کارکردگی کا اعلیٰ معیار قائم ہو سکے۔


3۔ ویلتھ ٹیکس ایکٹ 1962ء بحال کیا جائے۔ اسکے نفاذ سے ہر پاکستانی پر چیک اینڈ بیلنس قائم ہو گا۔ جس سے کالے دھن سے اثاثوں میں اضافہ کی نشاندہی ہو سکے گی جو قابل مواخدہ ہو گا۔
4۔ انکم ٹیکس ایکٹ1962ء بحال کیا جائے۔ اسکے نفاذ سے ہر پاکستانی پر چیک اینڈ بیلنس قائم ہو گا جس سے کالے دھن سے اثاثوں میں اضافہ کی نشاندہی ہو سکے گی جو قابل مواخدہ ہو گا۔


ً5۔ سیلز ٹیکس اور وڈ ہولڈنگ ٹیکس جو مہنگائی کی اصلی وجہ ہے اسے محدود کیا جائے۔
6۔ سرچارج ، ڈیوٹی ، اور سروس خدمات پر ٹیکس جو 17فیصد انکم ٹیکس اور12فیصد سیلز ٹیکس کل 29% بنتا ہے فوری منسوخ کیا جائے یہ ٹیکس محنت کش مزدوروں پر اسرار ظلم ہے۔
7۔ انکم ٹیکس گوشوارے (ریڑن) کو سادہ آسان بنایا جائے جو قومی زبان اردو میں ہو جسے کم تعلیم یافتہ تاجر خود سمجھ سکے اور پر کر سکے۔


8۔ ہر سال حسبِ سابق پاکستان بھر میں سروے کر کے نئے ٹیکس کے قابل افراد اور اداروں کو ٹیکس ریکارڈ پر لایا جائے اور ان سے ٹیکس وصول کیا جائے۔
9۔ ٹیکس چوری کی اطلاع دینے والوں کو حسب سابق ٹیکس چھپانے والے سے وصول ہونے والی ٹیکس کی رقم کا 25فیصد انعام دیا جائے۔
10۔ تفصیلی چانچ کا نظام(Total Audit) جس کے تحت ہر برس10فیصد گوشواروں کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی وہ کئی برس سے معطل ہے اسے دوبارہ شروع کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Income Tax Nizam Main Islahat Magar Kaisay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.