
جب جلا شہر میرا
وہ ایسا دن تھاکہ اسلحہ فضاء میں پتنگوں کی طرح اڑتا تھااورجو لوگ گاڑیوں میں بھاگ رہے تھے ان کے پیچھےاڑتا تھا۔کسی کوکسی کاہوش نہیں تھا راولپنڈی کی تاریخی آگ اور اوجڑی کیمپ میں اسلحہ ڈپو پھٹنے کا آنکھوں دیکھا حال
شازیہ عندلیب جمعہ 11 اپریل 2014

بی اے کے امتحان کے بعد میں نے رزلٹ کا انتظار کرنے کے بجائے ایک اسکول میں جاب کر لی۔یہ شہر کا بہترین او ر مہنگا پرائیویٹ اسکول تھا۔مجھے نرسری کلاس ملی۔میں نے بچوں کو نظمیں پڑھا کر رائیٹنگ بکس نکالنے کا کہا تو اچانک کان پھاڑ دینے والی ایک خوفناک اور زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔
(جاری ہے)
تین ماہ بعد میری شادی تھی۔اس کے علاوہ بیرون ملک کا ویزہ بھی لگا ہوا تھا۔میں شادی سے پہلے اپنی بہن کے گھر جانا چاہتی تھی۔مگر ویزہ اتنا لیٹ ملا کہ وزٹ کینسل کرنا پڑا۔چارسالہ منگنی کا پر لطف دور ختم ہو کر شادی کے امتحان میں ڈھلنے جا رہاتھا۔شادی کا ایک اپنا چارم ،امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں۔خوبصورت سپنے اور مستقبل کی خواہشیں دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتی ہیں۔میں شادی کی سنہری زنجیروں میں قید ہونے کی تیاری میں تھی۔ مگر اب لگتا تھا کہ کہیں یہ زنجیر ہی نہ بکھر جائے نہ ہم ہوں گے نہ سپنے اور بس اس سے آگے کچھ نہیں سوچا جاتا تھا۔میں سوچ کی بند گلی میں کھڑی تھی جہاں سے کوئی راستہ نہیں جاتا تھا۔میں نہ جانے بچ بھی پاؤں گی کہ نہیں۔دل میں وسوسے اٹھنے لگے۔اس قطار کا ہر گھر ویران تھا۔صرف ہم لوگ اتنے خطرناک زون میں پناہ لیے ہوئے تھے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ۔شادی کی خواہش تو دل میں تھی مگر اب ہر خواہش پر صرف بچوں کی زندگی کی خواہش ہی غالب تھی۔باہر فضاء میں بدستو رکان پھاڑ دینے والے اور دل دہلا دینے والے خوفناک دھماکے جاری تھے۔اس کے ساتھ گولیوں کی جان لیوا تڑتڑاہت بھی تسلسل سے آ رہی تھی۔یوں لگتا تھا کہ موت فضاء میں گرج رہی ہے اور ہر ذی روح کو للکار رہی ہے۔میجر صاحب نے بتایا کہ اسلحہ میں سے فیوز نکلے ہوئے ہیں اس لیے وہ چل نہیں سکتا بس تھوڑا بہت نقصان ہو گا۔ابھی کم نقصان ہو گا فیوز نکلے ہوئے ہیں اور ہر طرف تباہی ہو رہی تھی ۔اگر فیوز لگے ہوتے تو کیا ہوتا یہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آگئی۔دھماکوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔مگر یہ کیا میں نے اپنے اندر جھانکا تو وہاں سکون کا ایک بیکراں سمندر موجزن تھا۔کب زبان پر آیت الکرسی کاورد جاری ہوا یاد نہیں۔ایسامحسوس ہوا جیسے میرے ارد گرد ایک حفاظتی حصار سا کھینچ گیا ہو اس حصار میں میں بالکل محفوظ ہوں۔ساری گولیاں سارے بم سارے راکٹ لانچر اور اسلحہ اس حصار سے ٹکرا ٹکرا کر تتر بتر ہو رہے ہیں میں اور میرے ساتھ بچے سب محفوظ ہیں۔پورے شہر کے لوگ ادھر ادھر جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے اور میں اطمینان سے ایک اجنبی مکان میں بیٹھی تھی جس کے مکین خود پناہ کی تلاش میں گھر سے بھاگ چکے تھے۔تھوڑی دیر بعد وقفہ وقفہ سے والدین اپنے بچوں کو آ کر لے گئے۔چند بچے رہ گئے تھے۔ٹھیک سوا بارہ بجے اسکول وین کا باریش ڈرائیور کسی فرشتہ کی طرح واردہو گیا۔اسکول سے گھر تک کا راستہ ویران کھنڈر کا منظر پیش کر رہاتھا۔دوکانیں بند اور ویران تھیں جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔پنڈوڑہ چوک کا کونے والا لکڑی کا ٹال جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔ایسے میں دل کی گہرائیوں سے میں نے التجاء آمیز لہجے میں اپنے رب کے حضور دعا کی کہ مجھے کوئی خوفناک منظر نہ دکھانا میں تاب نہ لا سکوں گی۔میرے رب نے میری دعا سن لی اور پندرہ منٹ بعد میں گھر کے دروازے پر تھی۔دروازے کے آگے بم پڑا تھا۔مجھے میجر کی بات یاد آئی کہ کسی اسلحہ کو ہاتھ نہ لگائیں۔میں نے بم پھلانگ کر گھر کی دہلیز پار کی۔یہ وہ وقت تھا کہ پورے شہر میں اسلحہ اور اانسانی جسموں کے اعضا ء کھلونوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔امی نے مجھے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا ۔اور بتایا کہ چھوٹا بھائی اسکول سے ڈر کر سڑک پر بھاگا جا رہا تھا کہ اسے ایک اسکوٹر والے نے گھر پہنچایا۔گھرکی مشرقی حصے میں بہت دور دھویں کے کثیف بادل اٹھ رہے تھے۔یہی اوجڑی کیمپ کا ڈپو تھا جہاں حادثہ ہوا تھا۔
میرے بدن کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔میں نڈھال ہو کر بستر پر لیٹ گئی کہ اچانک ایک خیال مجھے بجلی کے کوندے کی طرح ذہن پر لپکا۔پچھلے ہفتے میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔جس میں میں نے دیکھا تھا کہ ایک ایرانی چڑیل نے پورے شہر کو آگ لگا دی ہے ا ور گوشت کے لوتھڑے بجلی کی تاروں سے لٹک رہے ہیں۔میں اس چڑیل سے بھی اوپر اڑتے ہوئے آئیت الکرسی کا ورد کرتی ہوئی گھر پہنچتی ہوں اور گھر کے دروازے کے آگے بم پڑا ہوتا ہے۔یہ خواب میں نے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے دیکھا تھا۔صبح اٹھ کر میں نے سوچا بھی تھا کہ یہ خوفناک کہانیوں جیساخواب مجھے کیوں آیا ہے حالانکہ میں نے ماضی قریب میں نہ تو کوئی خوفناک فلم دیکھی نہ ہی کوئی دھماکہ ہوا اورنہ ہی کبھی بم دیکھا۔کچھ سمجھ نہیں آئی۔میں جب بھی خواب دیکھتی ہوں اسکا تجزیہ ضرور کرتی ہوں کیونکہ اکثر خواب سچے ہوتے ہیں۔مگر اس خواب کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ٹھیک ایک ہفتہ پہلے میں نے یہ خواب دیکھا اور اس میں ایرانی چڑیل کا شارہ دراصل اس جانب تھا جس میں اسلحہ میںآ گ لگا کر ثبوت ختم کی کوشش کی گئی ۔اس واقعہ میں ایران کو اسلحہ ناجائز طور پر فراہم کرنے کا معاملہ بھی تھا۔میں نے اپنے رب کریم کی ذات کا کروڑہا شکر ادا کیا جس نے نہ صرف مجھے گھر محفوظ پہنچا دیا بلکہ ساتھ میں ننھے منے بچوں کی بھی حفاظت کرائی۔مگر بے قصور شہریوں کی جانیں تلف ہونے کا بے حد رنج تھا۔بعد کے واقعات اس قدر جان لیوا اور دکھی کرنے والے تھے کہ یہ واقعہ کبھی میر ے ذہن سے محو نہیں ہوا ۔میں ہزار چاہنے کے باوجود بھی اس کی خوفناکی کو قلم بند نہ کر سکی گو ہر برس ارادہ ضرور کرتی تھی۔وہ دن کس قدر خوفناک تھا میری تحریرر اسکا احاطہ نہیں کر سکتی ۔میں تحریر تو نہ کر سکی مگر ہر برس دس اپریل کے روز میرا پورا وجود اس خوفناک واقعہ کو یاد کر کے لرز اٹھتا ہے۔
وہ ایسا دن تھا کہ اسلحہ فضاء میں پتنگوں کی طرح اڑتا تھا اور جو لوگ گاڑیوں میں بھاگ رہے تھے ان کے پیچھے اڑتا تھا ۔کئی مقامات پر لوگوں نے انسانی اعضاء دیکھے۔کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا۔بچے گم ہو گئے ۔مائیں بچے چھوڑ کر بھاگ گئیں۔ڈاکٹر آپریشن ٹیبل پر مریض چھوڑ کر بھاگ گئے۔مریض بستروں سے ا ٹھ بھاگے اور مکیں اپنے مکان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کئی لوگ شیخ رشید کے اعلان جنگ پر کمین گاہوں اور تہہ خانوں میں جا چھپے اور کئی کئی روز بعد یہ کہتے ہوئی نکلے کہ جنگ ختم ہو گئی ؟؟اکثر تو یہ شہر ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔بعض گٹھیا کے مریض اچانک اٹھ کر بھاگنے سے صحتمند ہو گئے۔جبکہ کئی معذور بھی ہو گئے۔ادھر لوگ گھر چھوڑ کر بھاگے تو ادھر چور گھر لوٹ کر بھاگے کہ اسلحہ کا نشانہ بن کر نشان عبرت بن گئے۔
یہ دو واقعات تو بہت ہی عبرتناک تھے۔ایک بوڑھی عورت جو ایک گڑھے میں پناہ گزین تھی۔ایک چور نے اسکی چوڑیاں اتارنے کی کوشش کی۔بوڑھی عورت نے احتجاج کیا تو بے رحم چور نے اس ضعیف عورت کا بازو ہی کاٹ لیا ۔اسکا چوڑیوں بھرا بازو کاٹ کر اپنے تھیلے میں ڈالا جوغالباً وہ چوری کا مال اکٹھا کرنے کی نیت سے ہی لایا تھا۔کچھ دور چلا کہ ایک راکٹ لانچر کا نشانہ بن گیا اور اسکا سر دھڑ سے الگ ہو کر دور جا گرا۔جب لوگوں نے اسکی مٹھی میں مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیلے کو کھولا تو اس میں سے چوڑیوں بھرا بازو بر آمد ہوا۔اسی طرح ایک گرلز کالج کی ایک پروفیسر کے جسم کو ایک راکٹ لانچر نے اس وقت دو حصوں میں تقسیم کر دیا جب وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھی۔اس پرو فیسر کے بارے میں اس کے پڑوسیوں نے بتایا کہ اس کی ماں اس کے گھر سے اکثر روتی ہوئی جاتی تھی کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کا وراثت کا حصہ نہیں دیتی تھی۔
میں نے اس المناک حادثہ سے یہ سبق سیکھا کہ موت تو برحق ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا چاہے وہ اس سے کتنا ہی کیوں نہ بھاگے ۔لیکن صرف انسان کی اچھی نیت اپنے رب پہ کامل بھروسہ اور دوسروں کی مدد ہی انسان کو مشکل سے مشکل حالات سے نکال سکتی ہے۔مگر میں یہ نہ سمجھ سکی آج تک کہ مجھے وہ خواب کیوں آیا کاش میں اس کے پیغام کو سمجھ سکتی اے کاش یا پھر کوئی مجھے سمجھا دے۔
درحقیقت امریکہ سے لیے گئے اسلحہ کی تحقیقات سے بچنے کے لیے یہ آگ لگائی گئی تھی ۔کہ پاکستان نے ایران کو اسلحہ کیوں بیچا۔آگ لگانے والوں کا خیال تھا کہ اس پر قابو پا لیا جائے گا۔کاش یہ آگ لگانے والے یہ سوچ لیتے کہ آج وہ خود تو اتنے لوگوں کو آگ میں جھونک کر بچ گئے ہیں۔مگر وہ جہنم کی آگ سے کیسے بچیں گے۔اس وقت وہ کسے پکاریں گے جب روز محشر انکا جرم خود انہیں پکارے گا۔کیا وہ اسی رب سے مدد مانگیں گے جس کے حکم پر وہ دنیا میں کان بھی نہیں دھرتے تھے۔کیا وہ اس ربّ زوالجلال سے رحم کی توقع رکھتے ہیں جس کی مخلوق پر انہوں نے کبھی رحم نہیں کیا؟؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Jab Jala Sheher Mera is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 April 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.