جنوبی پنجاب کی ترقی کیلئے ناکافی بجٹ

حکومت پنجاب 650 ارب روپے کی مقروض ہے اور تمام وسائل ترقیاتی کاموں یعنی سڑکوں، پلوں اور میٹرو بسوں پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اورنج ٹرین منصوبے کے اخراجات 167 ارب روپے سے بڑھ کر 250 ارب روپے تک بڑھنے کے امکانات ہیں

جمعرات 6 جولائی 2017

Janobi Punjab Ki Taraqi K Liye Nakafi Budget
حکومت پنجاب 650 ارب روپے کی مقروض ہے اور تمام وسائل ترقیاتی کاموں یعنی سڑکوں، پلوں اور میٹرو بسوں پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اورنج ٹرین منصوبے کے اخراجات 167 ارب روپے سے بڑھ کر 250 ارب روپے تک بڑھنے کے امکانات ہیں۔ لاہور کا ترقیاتی بجٹ مبینہ طور پر جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع سے زیادہ ہے پھر حال ہی میں چار پسماندہ ترین اضلاع کے بجٹ سے دو ارب روپیہ واپس لے کر لاہور کینال کے اردگرد ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جا رہا ہے۔

ترقی اور خوشحالی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے‘ میٹروبسوں اور اورنج ٹرینوں کی خوبصورتی میں نہیں۔ لوگوں کے چہرے پر کھلی مسکراہٹوں اور طمانیت میں دکھائی دیتی ہے۔ بیماریوں کا شکار چہروں پر پھیلی ہوئی جھریوں سے صرف محرومی اور بے بسی ہی نہیں غربت اور افلاس کی تباہ حالی بھی نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)

بس اسے دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت ضروری ہے۔

لاہور اور راولپنڈی کے بعد ملتان میں بھی اربوں روپے کی لاگت سے میٹرو بس چلا کر ترقی کا شاہکار تو دکھایا گیا ہے مگرجنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کے ہسپتال اور تعلیمی ادارے اور غازی خان یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان پر توجہ مرکوز نہیں ہوئی، شاید یہ ضروری بھی نہیں۔ ایسے میں ان اضلاع کے عوام مایوس نہ ہوں تو اور کیا کریں؟۔بات تو حکمرانوں کی ترجیحات کی ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ ترقی اور خوشحالی سڑکوں پر نہیں لوگوں کے چہروں پر نظر آتی ہے۔

اگریہ دیکھنا مقصود ہو تو ڈیرہ غازیخان کے ہسپتالوں میں آوٹ ڈور اور ایمرجنسی بلاک دیکھے جائیں جہاں روزانہ ہزاروں افراد علاج اور دوائی کی امیدیں لے کر آتے اور مایوس لوٹتے ہیں۔ حکومتی اقدامات اور محکمہ صحت کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے سوائے کرپشن اور بدعنوانی کے کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ حکام کہتے ہیں کہ ہم اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں۔

ہمارے پاس جتنا بجٹ ہوتا ہے اسی میں ہسپتالوں کو فعال رکھا جاتا ہے۔ دو ہزار کے لئے اگر صرف ایک ڈاکٹر ہے تو یہ کام حکومت کا ہے۔ بات تو ٹھیک ہے اگر جعلی سٹنٹ آ جاتے ہیں یا پھر ضرورت کے مطابق وینٹی لیٹرز ہسپتالوں کو فراہم نہیں کئے جا سکتے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ یہ ایک صورتحال کا علیحدہ منظر نامہ ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب کی اسمبلی میں بھی اس پر بحث ہوئی ہے۔

اپوزیشن والوں نے تو یہاں تک الزام عائد کیا ہے حکمرانوں کی ترجیحات کی بنا پر پنجاب کے بارہ کروڑ عوام وینٹی لیٹر پر پڑے ہوئے ہیں۔ ایک اور صاحب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہاں صحت مند دودھ ہو نہ صاف پانی اور نہ ہی صاف ہوا وہاں ہسپتال بھی نہ ہوں تو پھر کسمپرسی کی حالت میں زندگی سے دور نہ ہوں تو اور کیا ہو۔”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“سچائی تو یہ بھی ہے کوئی بھی شعبہ ہو ہر کسی پر مافیاز نے قبضہ کیا ہوا ہے۔

وہ کسی ایماندار افسر کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جو کوئی سچائی اور دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کیخلاف اتحاد بھی بن جاتا ہے اور اسے اثرو رسوخ استعمال کر کے محکمانہ ملی بھگت سے کارروائیوں کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال سے محکمہ فوڈ کی ایک افسر دوچار ہے۔اس نے عوام کو اچھی اور معیاری خوراک کی فراہمی پر ضرورت سے زیادہ ہی محنت کا اظہار کیا تھا اور وہ ایک ایسے ہوٹل کے کچن میں داخل ہو گئی تھی جہاں گندگی اور غلاظت بھی تھی اور گاہکوں کیلئے ناقص کھانے تیار کئے جا رہے تھے، یہ ڈیوٹی جرم بن گئی اور محکمانہ تادیبی کارروائیوں کے ساتھ کچھ اور الزامات کی زد میں آ کر انکوائریوں میں اپنی بیگناہی ثابت کرنے میں مصروف ہے۔

موجودہ ماحول میں ہمیں امید ہے کہ وہ بچ نہیں پائے گی۔ یہ انتظامی ڈھانچہ اور محکمانہ انفراسٹرکچر اسے ہوٹل مافیا کیخلاف اس گستاخی کی سزا ضرور دے گا تاکہ آئندہ کسی کو حدود سے تجاوز کر کے دیانتداری کے ساتھ فرائض ادا کرنے کی جرات نہ ہو حالانکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں خوراک میں ملاوٹ سب سے خطرناک جرم ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ سب سے آسان اور منافع بخش کام ہے۔

یہ تو عوام کو خدمات فراہم کرنے والے صرف دو محکموں کی بات ہے لیکن جس طرف بھی نظر دوڑائیں ایسی ہی بدترین صورتحال سامنے آئے گی اور پھر یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے گی کہ ہر کوئی سرکاری ملازم بننے کو ہی ترجیح کیوں دیتا ہے اور پھر اس ملازمت کیلئے ہزاروں اور لاکھوں روپے کیوں خرچ کرتا ہے اور جب کبھی کوئی عائشہ ممتاز آ جائے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی کا نام تو میرٹ ہے جو حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے اور اسی کے ذریعے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ اور ترقی و خوشحالی کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ عوام بھوک سے مر جائیں یا علاج کی سہولت نہ ملنے سے‘ وہ جاہل رہیں یا ان پڑھ، کچھ فرق نہیں پڑتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Janobi Punjab Ki Taraqi K Liye Nakafi Budget is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 July 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.