کچرے سے بجلی اور کھاد کی پیداوار

حکمرانوں اوربیورو کریسی کی عدم دلچسپی اورروایتی بے حسی کے سبب ملک کی اقتصادی شہ رگ کراچی ویسے تو گھمبیر مسائل سے دوچارہے لیکن آج کل صحت وصفائی کے فقدان کے باعث شہر قائد کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، بہتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے سے بھرے گلی محلے معاشی حب کراچی کی پہچان بن چکے ہیں

جمعرات 30 مارچ 2017

Kachre Se Bijli
خورشید انجم:
حکمرانوں اوربیورو کریسی کی عدم دلچسپی اورروایتی بے حسی کے سبب ملک کی اقتصادی شہ رگ کراچی ویسے تو گھمبیر مسائل سے دوچارہے لیکن آج کل صحت وصفائی کے فقدان کے باعث شہر قائد کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، بہتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے سے بھرے گلی محلے معاشی حب کراچی کی پہچان بن چکے ہیں۔

پلاننگ کے فقدان کے باعث انفرا اسٹرکچر کی تباہی اور غیر قانونی کثیر المنزلہ عمارتوں کی بھرمار نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ شہر کی زبوں حالی کی ذمہ دار جہاں سیاسی جماعتوں کے حکمران ہیں وہیں بلدیہ عظمیٰ کراچی اوردیگرشہری ادارے بھی برابر کے شریک ہیں۔ ہزاروں بلدیاتی ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں جبکہ سیکڑوں گھوسٹ ملازمین اس کے علاوہ ہیں جو سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے کراچی کے اسٹیک ہولڈرز ہونے کی دعویدار تمام سیاسی جماعتیں صرف وسائل کی لوٹ مار تک محدود ہیں۔ کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ کر بیدردی سے لوٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا‘ اس بہتی گنگا میں سیاسی ومذہبی جماعتوں سمیت تمام سرکاری اداروں کے حکام بالا نے خوب ہاتھ دھوئے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ملک کا سب سے بڑا شہر گندگی وغلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر کوڑے دان کا منظر پیش کررہا ہے۔

بیشتر گلیاں اور سڑکیں کچرا کنڈیوں میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے کچرے کی صفائی کیلئے کئی بار بھاری فنڈز جاری کئے گئے فنڈزختم ہوگئے لیکن کچرے کے ڈھیر ختم نہ ہوسکے۔ حالانکہ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں کچرے سے بجلی کی پیداوار سمیت دیگرفوائد حاصل کئے جاتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ ترقی پذیر ملکوں کے بڑے شہروں میں کچرے سے استفادہ کیاجاتا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے‘ اب ایک چینی کمپنی نے کراچی کے ڈسٹرکٹ ایسٹ اورساوٴتھ سے کچرا اٹھانے کیلئے معاہدہ کیا ہے‘ چینی کمپنی اس کچرے کو بجلی کی پیداوار سمیت دیگرفوائد کیلئے استعمال کرے گی۔

وفاقی اورصوبائی حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو کراچی‘ پشاور ‘ کوئٹہ ‘ اسلام آباد اوردیگر شہروں میں جمع ہونے والے کچرے سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
کراچی میں تین سال قبل یومیہ کچرا12 ہزار ٹن تھا جو اب بڑھ کر15ہزار ٹن سے زائد ہوگیا ہے۔ اس 15ہزار ٹن کچرے میں سے یومیہ محض 6ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے جبکہ 9ہزار ٹن سے زائد کچرا یومیہ جمع ہورہا ہے جوگندگی وغلاظت میں اضافے کا باعث ہے۔

شہری آبادی کی نسبت انڈسٹریل ایریاز میں سب سے زیادہ کچرا جمع ہے جو وبائی امراض کا سبب بن رہا ہے کیونکہ زہریلے کیمیکلز سے دمہ‘ سانس اورالرجی جیسے موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ یہی نہیں ساحل سمندر کے ساتھ گندگی پھیلانے کی وجہ سے سمندری ماحولیات بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
سندھ حکومت کچرے کو ٹھکانے لگانے یا اسے کام میں لانے کیلئے گزشتہ پانچ سال سے منصوبے بنارہی ہے۔

سابقہ بلدیاتی دور میں سابق میئر کراچی مصطفی کمال نے کچرے سے متعلق ایک چائنا کمپنی کے ساتھ معاہدہ بھی کیا تھا جس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سندھ حکومت نے کچرے کو ٹھکانے لگانے اور اس سے استفادہ کیلئے سالڈ ویسٹ بورڈ قائم کیا اورمعروف بیورو کریٹ روشن شیخ کوبورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا جنہوں نے اچھے منصوبے ترتیب دیئے لیکن منصوبوں پرعملدرآمد نہ ہونے پر بورڈ غیرفعال ہوگیا۔

کراچی سے کچرا اٹھانے کیلئے سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کو اختیارات تفویض کئے گئے جس نے چائنا کمپنی کے ساتھ ڈ سٹرکٹ ایسٹ اورساوٴتھ میں کچرا اٹھانے کے معاہدے کئے‘ ان چینی کمپنیوں نے کچرا اٹھانے کیلئے ٹرک بھی درآمد کئے ہیں جو کسٹم حکام تاحال کلیئر نہیں کررہے۔ کیونکہ ٹیکس کے پیچیدہ سسٹم کے تحت کلیئرنس ملنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں کچرے کو بجلی اورکھاد کی پیداوار کیلئے استعمال میں لایاجارہا ہے‘ پاکستان میں بھی بجلی کے بحران کے خاتمے کیلئے کچرے کو استعمال میں لایاجائے تو نہ صرف کثیرزرمبادلہ بچایاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں کیونکہ کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بجلی اورکھاد کی پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔

کچرے کا ایک حصہ پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ انرجی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاکستر دانوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔ دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔

جاپان‘ چین‘ امریکہ ‘برطانیہ اوردیگر ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو زیر استعمال لاکر اربوں روپے کی معیشت کا اضافہ ہورہا ہے جس سے بجلی اورکھاد کی پیداوار جاری ہے۔ سالڈ ویسٹ اکانومی آج دنیا بھرمیں اربوں ڈالر تک پھیل چکی ہے۔
کراچی میں جمع ہونے والے یومیہ 15ہزار ٹن سے زائد کچرے کو ٹھکانے لگانے یا کھلا چھوڑنے کیلئے بھی کسی جگہ اور اس کے محل وقوع کی کوئی حد ہو سکتی ہے۔

اس کچرے کو استعمال میں لا کر 400 سے 500 کلو واٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ چینی کمپنی ایک ضلع کے کچرے سے ابتدائی طورپر 25سے 30کلو واٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ رکھتی ہے جبکہ کراچی بھر کے کچرے کو استعمال میں لاکر ابتدا میں 200سے 300کلو واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ سندھ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو کراچی میں یومیہ جمع ہونے والے کچرا بھاری زرمبادلہ بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کراچی کے دو اضلاع سے کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ چینی کمپنیوں کو دینے کے بعد اب اس بات کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں کہ دیگر اضلاع کیلئے بھی یہی پالیسی اپنائی جائیگی اور ا یسا کرنے سے معاشی حب کو دوبارہ روشنیوں کاشہر بنایاجاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kachre Se Bijli is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 March 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.