کراچی ،سیاست اور سکیورٹی

قیام پاکستان کے بعد ایک قوم کے تصور کو آگے نہ بڑھایا جاسکا اور سندھ میں لسانی بنیاد پر تحفظات اور خدشات ابھرنے لگے۔

بدھ 15 نومبر 2017

Karachi Siyasat Aur Security
قیوم نظامی:
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجہ میں مسلمان، ہندو اور سکھ پاکستان اور ہندوستان منتقل ہوئے۔ نومولود پاکستان میں چوں کہ فعال حکومتی ادارے موجود نہیں تھے لہٰذا مہاجرین کی آباد کاری کے لیے منصوبہ بندی نہ کی جاسکی اور مہاجرین غیر معمولی تعداد میں کراچی اور حیدرآباد میں مقیم ہوگئے۔

قیام پاکستان کے بعد ایک قوم کے تصور کو آگے نہ بڑھایا جاسکا اور سندھ میں لسانی بنیاد پر تحفظات اور خدشات ابھرنے لگے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی کے مطابق جنوری 1948ء میں کراچی میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے گھروں اور دکانوں میں لوٹ مارشروع کردی۔ قائداعظم اقلیتوں کے حقوق اور امن و امان کے بارے میں بڑے حساس تھے اور سیاست کو عبادت سمجھتے اور جرائم کے بارے میں زیروٹالرینس رکھتے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے جیکب آباد لائین میں پولیس کے ذریعے گھر گھر تلاش شروع کرادی اور اس بات کی پرواہ نہ کی کہ مسلم لیگ کے حامیوں کے گھروں میں بھی چھاپے مارنے پڑیں گے۔ مولانا احتشام الحق نے تلاشی رکوانے کے لیے قائداعظم سے ملاقات کی۔ قائداعظم نے مولانا کو ہدایت کی کہ مسلمانوں تک ان کا پیغام پہنچائیں کہ وہ لوٹا ہوا مال واپس کردیں۔ حکومت تلاشی روک دے گی۔

مسلمانوں نے اپنے قائد کے مطالبے پر سارا مال واپس کردیا۔ قائداعظم نے سیاست اور جرم کو مکس نہ ہونے دیا۔”گریٹ لیڈر: منیر احمد منیر صفحہ 75“ مہاجرین کو کسی منصوبہ بندی کے بغیر کراچی میں آباد کرنے کے مضر نتائج 1972ء میں لسانی فسادات کی صورت میں سامنے آئے جب صوبائی اسمبلی میں سندھی زبان کا بل پیش کیا گیا۔جنرل ضیاء الحق نے اقتدار کی مصلحتوں کے تحت 1984ء میں لسانی بنیاد پر ایم کیو ایم قائم کرائی جو دو قومی نظریے کی نفی تھی۔

قوم کو مذہب اور زبان کے نام پر تقسیم کرنے سے ریاست کمزور ہوتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کے لانگ ٹرم مفادات کو نظر انداز کردیا۔ لاکھوں افغان مہاجرین ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پشتون اور افغان بھاری تعداد میں کراچی منتقل ہوگئے۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں اردو بولنے والے 42فیصد، پشتون 19فیصد ،پنجابی 16فیصد، سندھی 11فیصد، بلوچی 7فیصد اور سرائیکی 4فیصد تھے۔

پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) دونوں نے کراچی میں آپریشن کیے۔ ایم کیو ایم پر بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے الزامات لگتے رہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم سے مل کر مخلوط حکومتیں بھی تشکیل دیں اور اسے ”سیاست ممکنات کا کھیل“ قرار دیا۔ ایم کیو ایم کو شہیدوں کے نام پر 75کروڑ روپے معاوضہ بھی ادا کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے بانی 1992ء میں برطانیہ جلاوطن ہوگئے اور لندن سے اپنی جماعت کی قیادت کرنے لگے۔

یہ وہ موقع تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرکے پاکستان سے باہر بیٹھ کر پارٹی کی قیادت پر پابندی عائد کی جاتی مگر پارلیمنٹ نے اپنی ذمے داری پوری نہ کی اور میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری بھی پاکستان سے باہر بیٹھ کر اپنی اپنی جماعتوں کی قیادت کرتے رہے جو آئینی اور جمہوری اْصولوں کی خلاف ورزی تھی۔جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم کا پودا لگایا۔

سیاسی حکمران اس پودے کی آب یاری کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو اپنا اتحادی بنالیا۔ این آر او کرکے ہزاروں قاتلوں کو رہا کردیا گیا۔ ایم کیو ایم کا عسکری ونگ اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوگیا کہ اس نے کراچی کو یرغمال بنالیا۔ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں فیصلہ دیا کہ کراچی کی کم و بیش سب سیاسی جماعتوں کے کارکن جرائم میں ملوث ہیں۔

بدامنی اور خوف کی وجہ سے بزنس اور سرمایہ کراچی سے بیرون ملکوں میں منتقل ہونے لگا۔ حکمران سیاستدان جو خودسرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کررہے تھے وہ کراچی کے تاجروں کو مایوسی سے نہیں نکال سکتے تھے۔ منتخب سیاسی حکومتیں کراچی میں امن بحال کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ یہ ذمے داری جنرل راحیل شریف اور پاک فوج نے قبول کی۔ کراچی کے عوام، پولیس اور رینجرز نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے کراچی کا امن بحال کیا۔

منتخب سیاستدان ابھی تک رینجرز کی معاونت کے بغیر کراچی میں امن برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔ رینجرز کراچی کی سکیورٹی کی ذمے دار ہے۔ پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیاں بلوچستان اور کراچی کو عدم استحکام کا شکار کرنے اور پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ بنانے کے درپے ہیں۔ ان حساس اور نازک حالات میں رینجرز اور پولیس کی ذمے داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔

دہشت گردی کے ریکارڈ جے آئی ٹی کی رپورٹوں، گرفتار دہشت گردوں کی ویڈیوز سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ان حالات میں سکیورٹی اور سیاست کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی مقصد کے لیے سول ملٹری نمائندوں پر مشتمل اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید نے ایک ٹی وی چینل پر کراچی کی سکیورٹی کے پس منظر اور پیش منظر کے بارے میں مدلل اور مفصل موقف بیان کیا اور وضاحت کی کہ کراچی کی سیاسی جماعتوں کے اندر مداخلت نہیں کی جاتی۔

البتہ سکیورٹی اور امن کے سلسلے میں ان سے مشاورت ضرور کی جاتی ہے کیونکہ کوئی نہیں چاہتا کہ بدامنی کا دور دوبارہ واپس آ جائے۔اصولی اور جمہوری طور پر بات درست ہے کہ اسٹیبلشمینٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے مگر پاکستان کی شہہ رگ کراچی کی صورتحال مختلف ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کی اکثریتی جماعت ہے جسے الطاف حسین نے بھارت کی آشیر باد سے دہشت گردی کے لیے استعمال کیا۔

کراچی اور پاکستان کے عوام کے وسیع ترمفاد کے لیے لازم ہے کہ ایم کیو ایم کو مکمل طور پر عسکریت اور شدت پسندی سے پاک کیا جائے۔ یہ کام سیاسی قیادت کو قانون سازی کرکے اور مجرموں کو عبرتناک سزائیں دے کر کرنا چاہیئے تھا۔ افسوس سیاسی قیادت ناکام رہی اب اگر رینجرز ایک لسانی جماعت کو قومی جماعت بنانے کے لیے معاونت کررہے ہیں تو اس کی ستائش کی جانی چاہیئے۔

مصطفی کمال نے پورا سچ بیان کرکے قوم کو اعتماد میں لیا ہے۔ ”یاد ماضی عذاب ہے یارب“ کے مصداق ایم کیو ایم کا ماضی المناک ہے لہذا اس جماعت کو ماضی سے کاٹ کر اسے حال اور مستقبل کی جماعت بنانا کراچی کے عوام کے مفاد میں ہے۔سیاسی حکومتیں اگر پولیس کو معیاری اور مثالی بناتیں ، اسے سیاست سے پاک رکھتیں تو شہروں میں امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز اور فوج کی اعانت کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔

اسی طرح سیاستدانوں نے بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کو اہمیت نہ دی۔ جمہوریت اشرافیہ کی باندی بن کررہ گئی اور یونین کونسل کی سطح پر عوام کو ریاستی نظام میں شریک نہ کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کم کرنے اور اس کی مداخلت محدود کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پولیس کو آزاد، خودمختار، غیر سیاسی اور معیاری بنادیا جائے۔ پاکستان کے مایہ ناز جسٹس آصف سعید کھوسہ کا تعلق پاکستان کے باوقار خاندان سے ہے انہوں نے عدالتی تاریخ میں خوف اور لالچ سے اوپر اٹھ کر آئین اور قانون کے مطابق یادگار فیصلے سنائے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے حدیبیہ پیپر ملز کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو تین رکنی بنچ کا سربراہ نامزد کیا تھا انہوں نے اس بنچ سے دست بردار ہوکر ایک بار پھر وقار اور گریس کا مظاہرہ کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ شریف خاندان چوں کہ ان پر عوامی سطح پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکا ہے اس لیے ان کا بینچ کا حصہ بننا انصاف کے تقاضوں کے منافی تھا۔

جسٹس کھوسہ کا موقف درست ہے کہ وہ چونکہ پانامہ لیکس کے فیصلے میں حدیبیہ ملز کے بارے میں آبزرویشن دے چکے ہیں اس لیے ان کا بینچ کا حصہ بننا مناسب نہیں ہے۔ وکلا کی کامیاب تحریک کے بعد عدلیہ میں نیا اعتماد پیدا ہوا اور اس نے حکومت وقت کے خلاف فیصلے دے کر ارتقائی بلوغت کا مظاہرہ کیا۔ سیاستدانوں کو بھی سیاسی جمود سے باہر نکلنا ہوگا۔ ایسے فیصلے کرنے ہوں گے جن سے جمہوریت معیاری، مثالی اور عوامی بن سکے۔

ریاست اور حکومت کو آئین اور قانون کے مطابق چلایا جائے تاکہ عدلیہ کو حکمرانوں کے خلاف فیصلے سنانے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ جج بھی اپنی آئینی حدود میں رہیں اور اپنے فیصلوں میں غیر پارلیمانی الفاظ استعمال نہ کریں۔البتہ ریاست کے اندرونی استحکام اور گڈ گورنینس کے لیے لازم ہے کہ عدلیہ عوام کے اعتماد کے ساتھ ریاست کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کے عزم پر ثابت قدم رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Karachi Siyasat Aur Security is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 November 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.