کشمیر کی آواز

آج قریباً دو ماہوار گزر چکے ہیں اور دشمن کا کرفیو اور دردندگی ویسے ہی جاری ہے۔پہلے دو دن میں میرے ساٹھ ہزار سپوت شہید کر دئے گئے۔بچے،بوڑھے،جوان سب کو ہی فرعونیت کا نشانہ بنایا گیا جو ابھی بھی ویسے ہی جاری ہے

تثمیر بخت پیر 25 نومبر 2019

Kashmir ki aawaz
''تم جو زندہ ہوتے تو ہم اور بھی جی لیتے۔میرے چُور بدن کو تم سے کوئی شکایت نہیں میرے دشمن کی کیا مجال تھی میرے وجود کو تو تمہاری بے حسی نے مارا ہے!''
مجھے تو موت کے اس پار زندگی کا ایک روشن باب دکھائی دیتا ہے۔اس پار مجھے بانہوں میں لینے کو نیک روحیں اور نورِ ربانی ہر دم تیار ہے۔ میں تو حرُ کا سپاہی ٹھہرا۔میری آزماائش نے مجھے راہِ حق کا مجاہد بنایا اور میں نے لبیک کہا اور ہتھیار تان لیے۔

یہاں خدا اور خدا دوست میرے ساتھی ہیں ظالم اور اس کی تلوار میرے دشمن ہیں،میری ایک زندگی کیا لاکھ ہوں تو ایک کے بعد ایک قربان کردوں۔میں موت سے نہیں گھبراتا،میں سازش سے نہیں گھبراتا،میں اپنے تار تار بدن اور ان سے پھوٹتے خونی فشاروں سے نہیں گھبراتا،میں دشمن سے نہیں ڈرتا۔

(جاری ہے)

دشمن کی جارحیت نے میری آنکھیں تو کھول دی ہیں لیکن۔تمہیں دیکھا تو میں ڈرگیا،ہمقدم جنہیں باطل سے ٹکرانا تھا۔

جن کے کانوں کو حجاج بن یوسف اور مظلوم کی آواز بننا تھا۔جنہیں محمد بن قاسم کا کردار بننا تھا۔جنہیں سلطان ایوبی کا رعب و دبدبہ بننا تھا۔جن کے داہنے ہاتھ کو خالد بن ولید اور بائیں کو ٹیپو سلطان بننا تھا۔جن کا ایمان حیدر تھا جنہیں ذوالفقار بننا تھا۔جن کا دین محمدی تھا۔ جنہیں اسلام بننا تھا۔جو بندے خدا کے تھے جنہیں مسلمان بننا تھا۔

تمہارا اور ہمارا مطلب خدا کی یکتائی کا کلمہ تھا۔ہمیں انسانیت کی معراج بننا تھا۔مگر تمہیں دیکھا تو میں ڈر گیا۔مدد کے لئے پکارا مگر تمہاری خاموشی سے سہم گیا۔میرے زخم دیکھ کر تم نے منہ پھیر لیا۔میری تکلیف تمہیں تکلیف نہ لگی۔میری ماں تمہیں ماں نہ لگی۔میری بہن تمہیں بہن نہ لگی۔
ان کی پامال عزت،ان کا تہی دامن تمہاری غیرت کو نہ جھنجھوڑ سکا،تم کھڑے دشمن کا منہ تاکتے رہے اور دشمن کے خون آلود ہاتھ میرے خون سے مزید رنگتے گئے،تمہیں تو یتیم کے سر کا سایہ بننا تھا تمہارے ہاتھوں کو تو وہ ہاتھ توڑ دینے تھے جو تمہارے بھائی کا گریبان پکڑتے
تمہاری غیرت کو کیا ہوا کہ میری زمین کا باپ تمہیں ایک باپ نہ لگا،اس کی پگڑی دشمن کی افواج بھرے بازار میں اچھالتی رہیں،اس کے کپڑے اتروا کر اسی کی ماؤں بیٹیوں کے سامنے اس پر بانس کی چھڑیاں برسائی گئیں۔

لیکن تم صرف دیکھتے رہے؟
آواز نہ اٹھائی ان کے اطوار نہ چھوڑے!
ان کی موسیقی ان کے شعار نہ چھوڑے!
تیرے جرنیلوں نے میر صادق و جعفر کے کردار نہ چھوڑے!
تیری ماؤں نے اس قوم میں معمار نہ چھوڑے!
تمہارا مرض تو تمہارے پور پور میں پھیل چکا ہے اور تمہیں ادراک ہی نہیں۔
میں نے دشمن کو تمہیں جو کھلاتے دیکھا تم نے کھا لیا،جو دشمن نے تمہیں دکھایا تم نے مان لیا،تم نے ان کا مواد دیکھا اور اپنا لیا۔

انہوں نے تمہیں زہر پلایا اور تم پیتے گئے اور یہ زہر دھیرے دھیرے تمہارے ہر فرد میں سرایت کر چکا ہے۔بظاہر سب ٹھیک ہے مگر تمہارے حواس کی موت کی تمہیں بھنک بھی نہ لگی۔
تمہاری آنکھوں پہ پٹی باندھ کر وہ تفریح کا سامان نہیں کر رہا،کوئی کھیل تماشہ اور مذاق نہیں کر رہا،میں نے دیکھا ہے وہ تم پر خنجر تان کر بیٹھا ہے،اگلی باری تمہاری ہے۔

مجھے مارنا بے مقصد نہیں وہ تمہارے سر سبز دشت کو صحرا بنائے گا،تمہیں وہاں مارے گا جدھر پانی بھی نہ ملے گا۔
آج قریباً دو ماہوار گزر چکے ہیں اور دشمن کا کرفیو اور دردندگی ویسے ہی جاری ہے۔پہلے دو دن میں میرے ساٹھ ہزار سپوت شہید کر دئے گئے۔بچے،بوڑھے،جوان سب کو ہی فرعونیت کا نشانہ بنایا گیا جو ابھی بھی ویسے ہی جاری ہے۔۔۔اور ان دنوں میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب کشمیر کا ایک بچہ بھی''کشمیر بنے گا پاکستان!'' کا نعرہ لگانے سے باز رہا۔

میں تو دشمن کو پہچانتا ہوں،میرے لوگ دشمن کو پہچانتے ہیں،میری محبت،نفرت اور ہر جذبہ،جذبہ حرُ اور اللہ کی واحدانیت کے ما تحت ہے۔مگر تمہاری بے حسی سے میں سہم گیا ہوں،اس نسل کا مستقبل میں دیکھ رہا ہوں۔ایک ایسا جسم جو روح سے خالی ہے۔امید سے خالی،احساس سے خالی،مردہ سے بدتر۔شہاب ثاقب جو چمکے تو بد نظر کی آنکھیں چندھیا جائیں،میں اسے تباہ ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

میرا دم دھیرے دھیرے گھونٹا جا رہا ہے،مجھ میں آواز دینے کی سکت نہیں اور تمہاری خاموشی مزید حوصلہ شکن ہے۔
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
(اقبال)
کاش کہ تم یہ سب ظلم دیکھ پاتے،تمہارا ایمان تمہیں سوچنے پر مجبور کرتا،میرا درد تم اپنے بدن میں محسوس کرتے اور میرے ساتھ کندھا ملا کر ظالم کے خلاف میری ڈھال بنتے،مظلوم کی آواز بنتے اور ظالم پر خدا کا قہر بن کر نازل ہوتے۔

کاش کہ تم میری سسکیوں کو سن لیتے
میری آہیں سن کر جاگ جاتے
میں اپنی بے بسی کا قصہ بیان کروں یا تمہاری بے حسی کا ماتم کروں؟
میں خدا سے رحم کی التجاء کروں یا تمہاری ہدایت کی دعا کروں؟
وقت گزرتا جا رہا ہے اور سانسیں لڑکھڑا رہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kashmir ki aawaz is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 November 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.