کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

آج کل ہمارے خطے کا درجہ حرارت موسم سرما میں شدید سرد اور موسم گرمام میں گرم ترین ہوتا ہے کہ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہوتاہے او زمین تندور کی طرح گرم ہوتی ہے۔ انگریز نے جب برصغیر میں آمد کے بعد اس پر اپنا تسلط جمایا تو اس دور کی بلڈنگیں اور دیگر تعمیرا ت علاقے کی آب و ہوا اور موسم کو مدنظر رکھ کر بنائیں، مگر آج جدید ترین دور میں صورتحال اس کے برعکس ہے

منگل 23 مئی 2017

Kuch elaaj Is Ka Bhi
محمد رمضان چشتی:
آج کل ہمارے خطے کا درجہ حرارت موسم سرما میں شدید سرد اور موسم گرمام میں گرم ترین ہوتا ہے کہ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہوتاہے او زمین تندور کی طرح گرم ہوتی ہے۔ انگریز نے جب برصغیر میں آمد کے بعد اس پر اپنا تسلط جمایا تو اس دور کی بلڈنگیں اور دیگر تعمیرا ت علاقے کی آب و ہوا اور موسم کو مدنظر رکھ کر بنائیں، مگر آج جدید ترین دور میں صورتحال اس کے برعکس ہے ہم ایسے عالیشان پلازے تعمیر کر رہے ہیں جو گرم موسم میں ذرا سی لوڈشیڈنگ پر جہنم کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔

جس کا اثر ہمارے مزاجوں پر بھی پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ذرا سی بات پر عوام آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں ،کل کی بات ہے اسلام آباد میں ٹریفک پولیس نے کسی کوتاہی پر کار سوار کو سر عام سڑک پر گھونسوں اور ٹھڈوں کی بارش کردی اسی دوران کسی نے موبائل پر اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر دے دی جس پر پولیس کے اعلی حکام نے فوری طور پر دونوں پولیس والوں معطل کر کے انکوائری کا حکم دے دیا۔

(جاری ہے)

اس میں قصور وار کون مگر جس کار سوار کو تشدد کا نشانہ بنایا اس کی ذہنی حالت آج کیا ہوگی اور اس ناروا سلوک کا ازالہ کیا صرف معذرت پر ختم ہو جائے گا۔آج شدید گرم موسم میں موٹرسائیکل سواروں کے خلاف مہم بھی جاری ہے اور زیادہ تر صرف ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان ہو رہے ہیں کیونکہ وارڈنز کو معلوم ہے اس موسم میں موٹر سوار ہیلمٹ سے پرہیز کرتے ہیں ۔

کیا دور آگیا ہے کہ وارڈنز کو ہماری جان کی اتنی فکر ہے کہ خودہیلمٹ کے بغیرہوا پر سوار ہوتے ہیں اور موٹرسائیکل سواروں کے چالان پر چالان کردیتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے لاہور کے مصری شاہ، شادباغ، شاہ عالم مارکیٹ جیسے گنجان علاقوں میں بھی جہاں ٹریفک رواں دواں نہیں ہوتی بلکی رینگتی ہے وہاں ٹریفک وارڈن چالان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہیلمٹ یا دیگر پابندیاں عوام کی جان کی حفاظت ہوتی ہے۔

اس حوالے سے رانا شاہد کہتے ہیں میں اپنی اہلیہ بچوں کے ہمراہ گھر سے موٹرسائیکل پر نکلا ہی تھا کہ ٹریفک وارڈنز نے روک لیا کہ تم نے ہیلمٹ کیوں نہیں پہنا۔ اس پر میرے بچے سہم گئے اور نوبت توتکار سے بڑھ گئی۔
ایک طرف حکومت عوام کی سہولت کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنارہی ہے اور دوسری طرف چند لوگ قانون کی پاسداری کے نام پر اس پر پانی پھیر رہے ہیں حکومت ٹیکس کی مد میں موٹرسائیکل خریدنے والوں سے اربوں روپے لیتی ہے میری تجویز تو یہ ہے کہ ہیلمٹ معیاری ہو نے چاہئیں اور حکومت خود اچھے ہیلمٹ لے کر دے اور پھر قانون پر عملدرآمد کرائے۔

اگرہیلمٹ نہ پہننا جرم ہے تو اس قانون پرسختی سے سارا سال عمل ہونا چاہئے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ جب چاہے وارڈنزہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف چالان مہم کا آغاز کر دیتے ہیں سخت ترین گرمی میں بوڑھے کو معاف نہیں کیا جاتا ابھی کل کی بات ہے میں گاڑی میں گھر سے اپنے بیٹے احمد کے ساتھ بادامی باغ جا رہا تھا سورج آگ برسا رہا تھا کہ اچانک ایک بنک کے باہر لوگوں کی لمبی لائن دیکھ کر بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے کہا یہ وارڈنز کے چالانوں کا جرمانہ جمع کرانے کے لئے دھوپ میں کھڑے ہیں۔

یہ دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کہاں جارہی ہے۔ٹریفک سے آگاہی مہم سال میں کبھی کبھار چلائی جاتی ہے اور پھر طویل خاموشی، جس طرح حکومت میڈیا پر تشہیر کرکے اپنے منصوبوں کے بارے عوام کو مسلسل آگاہ کرتی رہتی ہے اسی طرح سارا سال ٹریفک بارے لوگوں میں مزید شعور اجاگر کرنا ہو گا۔ ملک کے بڑے بڑے علاقوں میں ٹریفک جام نظر آتی ہے خاص طور پر لاہور کے گنجان آباد علاقوں میں جہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔

کوئی وارڈن دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سچ ہے کہ موٹرسائیکل سواری ہے ہی خطرناک اور بڑی شاہراہوں پر ہیلمٹ کی پابندی پر سختی سے عمل کرانا چاہئے اور کئی ملکوں میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موٹرسائیکل سوار کے پیچھے بیٹھنے والے بھی ہیلمٹ پہنتے ہیں۔جہاں تیز رفتاری ہو گی وہاں ذرا سی لاپرواہی سے حادثات جنم لیتے ہیں اور ہیلمٹ سے سر بڑی چوٹ سے محفوظ رہتا ہے۔

اکثر ٍ۱یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی نے بیرون ملک سے ہیلمٹوں ککے کنٹینر زیادہ منگوا لیا تو اس کی فروخت کے لئے کوئی نہ کوئی مہم شروع کر دی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ہیلمٹ فروخت ہو جائیں۔ ضیا دور حکومت کی بات ہے جب ہیلمٹ بارے کہا گیاکہ اسے ضرور پہنا جائے تو موٹرسائیکل سواروں نے جوہیلمٹ خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے تو انھوں نے پولیس کو دھوکہ دینے کے لئے کوئی ایسی چیز پر رکھ لیتے تھے دور سے وہ ہیلمٹ دکھائی دیتی۔


دراصل آج موٹرسائیکل سواروں کی تعداد بھی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ٹریفک کنٹرول کرنے والے کم ہیں۔ لہٰذا دیکھا یہی گیا ہے کہ جو خلاف ورزی پر پکڑا گیا باقی نکل گئے۔ آج وارڈنز کے اختیار میں ہے کہ وہ جب اور جس کو چاہے روک لے اورجس کو چاہے جانے دے۔ سڑکوں پر وارڈنز کے ستائے لوگ چالان کے پیسے جمع کراتے کھڑے ہیں ان کے لئے سہولت ہونی چاہئے کہ وہ کسی بھی بنک میں جا کر جرمانہ ادا کرکے رسید لے اور اپنے کاغذات واپس لے۔

اب جس کا چالان ہوا وہ شاہدرہ کا رہائشی ہے اور اس کا چالان ٹاؤن شپ میں ہوا اور پھر اسے جرمانہ ادا کرنے کے لئے پھر اس علاقے میں آنا پڑے گا اور یوں سارا دن اس کا ضائع ہو گا۔دراصل چیف جسٹس کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہئے کہ ایک سوار کے تمام کاغذات درست ہیں اور وارڈنز سے کوئی سوال جواب کرتا ہے تو تین چار وارڈنز سوار کو پکڑ کر زدوکوب کرتے ہیں۔

دراصل ایک ایسی جگہ ہونی چاہئے تاکہ دونوں کا موقف سنا جائے۔ اب جس کا ناجائز چالان ہوا تو اس کا سارا دن خراب گزرتا ہے اور وہ حکومت کے خلاف ہو جاتا ہے۔ یہ تو اس طرح ہوا کہ ”کرے کوئی بھرے کوئی“ اس طرح کے چالانوں کی بھرمار سے یہ بھی لگتا ہے کہ ان کو ایک ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ روزانہ کے اتنے چالان کرنے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ذراسی بات پر بھی فوراً چالان کاٹ ڈالتے ہیں۔

کیا ان تمام مسائل کا حل صرف چالان ہی ہے ۔جب سے وارڈنز کا نیا محکمہ بنا اس سے حکومت کے خزانے پر بھی بوجھ پڑا۔اس کا مقصد یہ ہے کہ ٹریفک میں بہتری آئے مگر آج صورتحال بد سے بدتر ہے اس کا حل یہ ہونا چاہئے وارڈن سب سے پہلے خلاف ورزی کرنے والے کو سمجھائے یا یہ ہو کہ وارننگ کے طور پر اسے ایک سلپ دی جائے اور اگر وہ دوسری بار غلطی کرئے تو پھر اس کے خلاف چالان کاٹا جائے۔

آج دیکھیں کہ ڈیفنس اور کینٹ میں اور شہر کے حوالے سے بڑا فرق ہے۔ وہاں چالان کم کیوں ہوتے ہیں اور دیگر شہری علاقوں میں زیادہ کیوں؟۔
دراصل پڑھی لکھی نوجوان نسل کو آگاہی کی ضرورت ہے جب تک کمپیوٹرائز اشارے نہیں لگیں گے یہ مسائل رہیں گے۔ ٹریفک رواں دواں رکھنے کے لئے اہم اقدامات کرنا ہوں گے اور وارڈنز کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ میں جو تنخواہ سرکار سے لے رہا ہوں کیا اپنے فرائض بھی اسی حوالے سے ایمانداری سے ادا کر رہا ہوں۔

کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسے سر پھرے نوجوان بغیر سلنسر یا تین، تین سوار تیزی سے سڑکوں پر اودھم مچاتے دکھائی دیتے ہیں مگر وارڈنز کے ہتھے وہی چڑھتے ہیں جو کمزور ہوں۔
وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جب ان کو راحت دی جائے۔ برطانیہ کا واقعہ ہے موٹرسائیکل سوار کو ٹریفک پولیس نے روک کر کہا تم نے یہ خلاف ورزی کی ہے اور چالان کرنے لگا تو موٹرسائیکل سوار نے بحث کی اور اچانک پولیس والے کا ہاتھ اس کے کاندھے پر لگ گیا جس پر اس نے کہا کہ تم نے مجھے ہاتھ کیوں لگایا۔

بات بڑھی تو پولیس اسے گاڑی میں بٹھا کر پولیس سٹیشن لے گئے اور اسے ایسے کمرے میں بند کردیا جہاں فوم لگے تھے تاکہ یہ غصے میں اپنے آپ زخمی نہ کر لے۔بعد ازاں اس کے عزیزوں کو بلایا گیا اور ان سے بات کی کہ بات نہ بڑھے، دونوں نے اس کو انا نہ مسئلہ نہ بنایا۔اور معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا۔ یہ ایک سکون والے ملک کی بات ہے اور یہاں تو معاملات بھی دگرگوں ہیں اس لئے ہم سب کو لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا تاکہ اصلاح احوال ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kuch elaaj Is Ka Bhi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.