کیا بیت اللہ اور مساجد کا حفاظتی تدبیر کے تحت بند کرنا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے؟

سادہ الفاظ میں بات یہ ہے کہ یہ پابندیاں عارضی اور احتیاط کے لئے کی گئی ہیں اور ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ (معاذ اللہ) اسلام کے باجماعت نماز کے نظام اور دیگر قوانین کو مستقلا منسوخ کر دیا گیا ہے

Sahibzada Asif Raza Miana صاحبزادہ آصف رضا میانہ اتوار 22 مارچ 2020

kya baat Allah aur masjid ki hifazati tadbeer ke tehat band karna
کرونا کی وبا کے پھیلنے کے بعد آج کل کچھ لوگ حرمین شریفین میں عام عوام کی باجماعت پابندی اور ملکی مساجد میں بھی صرف فرض نماز کی ادائیگی کو اللہ سے زیادہ وائرس کا ڈرکہہ کرایمان کی کمزوری قرار دے رہے ہیں اور ایسے لوگ بے احتیاطی کو'' توکل'' کا نام دے کر حفاظتی اقدامات کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور نہ ہی میل جول میں احتیاط برت رہے ہیں. ان کا یہ عمل کرونا کو روکنے سے زیادہ اس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے.
سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حرمین شریفین یا مساجد کو بند کرنا یا مساجد میں عبادت کے اوقات کو محدود کرنا یہ ''اعتقادی'' نہیں بلکہ خالصتا ایک ''انتظامی'' معاملہ ہے. سادہ الفاظ میں بات یہ ہے کہ یہ پابندیاں عارضی اور احتیاط کے لئے کی گئی ہیں اور ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ (معاذ اللہ) اسلام کے باجماعت نماز کے نظام اور دیگر قوانین کو مستقلا منسوخ کر دیا گیا ہے یا ان کو تبدیل کر دیا گیا ہے. حقیقت میں یہ سب پابندیاں عارضی اور وقتی ''احتیاطی تدابیر'' کے طور پر لگائی گئی ہیں تاکہ انسانی میل جول سے کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور حالات ٹھیک ہوتے ہی یہ پابندیاں واپس اٹھا لی جائیں گی. ان شا اللہ
رہی بات ڈرنے کی کہ ہمیں کس سے ڈرنا چاہیے وائرس سے یا اسے بنانے والے سے تو یہ بات اللہ رب العزت نے واضح کر کے بیان کردی ہے. 
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو
سورہ الاحزاب آیة 70 
اس لئے بحیثیت مسلمان ہم کسی سے نہیں ڈرنا ما سوائے اللہ کے. رہی بات کرونا وائرس یا کسی بھی بیماری سے ڈرنے کی تو درحقیقت ہمیں اس سے بچنا ہے احتیاط کرنی ہے بلکل ویسے ہی احتیاط جیسے ہم ڈرائیونگ کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں ہم دوسری گاڑی سے نہ ٹکرا جائیں ایسے ہی ہمیں احتیاط کرنی ہے اور وائرس سے بچنا ہے کہ وہ وائرس ہمیں نہ لگ جائے جنت اور جہنم برحق ہیں مگر جنت سے رغبت اور جہنم سے بچنے کا حکم بھی کسی اور نے نہیں اس کے بنانے والے اللہ پاک نے قرآن پاک کے ذریعہ ہمیں دیا ہے. قرآن پاک میں اللہ رب العزت ہمیں حکم دیتے ہیں. 
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھرہیں 
سورہ التحریم آیة 60 
اب آپ خود سوچئے اللہ پاک خود اپنے بندوں کو اپنی ہی بنائی ہوئی جہنم سے بچنے کا حکم دے رہا ہے اس میں عقل والوں کے لئے نشانی ہے کہ مصیبت اور پریشانی سے بچنے کی تدبیرکسی اور نے نہیں ہمیں خود کرنی ہے. اوراگر معاملہ انسانی جان کا ہو تو شریعت اس معاملے میں فرائض اور احکام سے بھی انسان کو رخصت اور رعایت دیتی ہے تاکہ وہ اس رخصت سے استفادہ حاصل کر کے اپنی جان بچا سکے اور کسی بھی ایسی مصیبت اور پریشانی سے خود کو محفوظ رکھ سکے. 
عبادات میں اسلام کا منہاج اور مجموئی مزاج اپنے ماننے والوں کو آسانی دینا ہے اور نہ کہ انسان کو تکلیف اورمشکلات میں ڈالنا ہے. اللہ رب العزت قرآن پاک میں فرماتے ہیں. 
اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتے ہیں اور تمہیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتے. سورہ البقرہ آیت 185 
اس لئے ہنگامی حالات میں عبادات اور احکامات میں اپنے پیروکاروں کو رخصت اور رعایت دینا دین اسلام کا ہی خاصہ ہے۔

(جاری ہے)

اسلام وہ واحد آفاقی دین ہے جس نے عبادات چاہے وہ بدنی ہوں یا مالی، شریعت نے ہماری آسانی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ہمیں بہت سے احکامات میں رعایت اور رخصت دی ہیں مثال کے طور پر 
۔پانی نہ ہونے، کمیاب ہونے، بیماری یا کسی اور شرعی عذرہونے پر تیمم کی اجازت اور وضوسے رخصت 
۔ سفر میں ہونے پر قصرنماز کی رخصت 
۔سفر میں ہونے پر ایک سے زاید نمازیں جمع کرنے کی رخصت
۔

روزہ ایک عظیم بدنی عبادت مگر بیمار کے لئے رخصت
۔حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لئے روزہ کی رخصت 
۔ مخصوص ایام میں خواتین کو نمازکی ادائیگی اور روزہ کی رخصت 
۔مالی عبادت میں حج اگرچہ سرفہرست اورفرض مگرغریب لاچار اور بیمار افراد کیلئے رخصت 
۔زکواة فرض مگر صرف صاحب نصاب اورمالداروں پرفرض جبکہ غریب افراد کیلئے رخصت
یہ تمام رعایتیں اور رخصتیں اللہ پاک کے اسی فرمان کی صراحت ہیں کہ اللہ پاک کا مقصد انسان کے لئے مشکلات پیدا کرنا نہیں ہیں اللہ پاک کسی انسان پر اس کی بساط سے زیادہ وزن نہیں ڈالتے.اس لئے اگر اللہ پاک نے انسان کوجو رخصت دی ہیں تو انسان کو چاہیے کہ انسان ان رخصتوں سے فائدہ اٹھائیں کیوں کہ ان رعایتوں اور رخصتوں سے فائدہ اٹھانا بھی عین اسی کا حکم ہے. 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' یقینا اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنے فروض پر عمل کرنا پسند فرماتا ہے۔

'' 1صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۵۸۸۱۔
دوسری حدیث میں فرمایا:
'' بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی (دی ہوئی) رخصتوں پر عمل کیا جائے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے۔ ''صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۶۸۸۱
چنانچہ جیسے حضر میں مکمل نماز پڑھنا اللہ کو پیارا لگتا ہے ایسے ہی سفر کے دوران قصر نماز کو پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رخصتیں دی ہیں انہیں قبول کرو اور لازم پکڑو۔

''صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۹۲۴۵۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جس نے اللہ کی دی ہوئی رخصت قبول نہ کی تو عرفہ کے پہاڑ جیسا گناہ اس کے ذمے ہوگا۔
رہی بات مساجد کو بند کرنے یا ان کے اوقات کو محدود کرنے کی تو یہ رخصت بھی شریعت نے ہی دی ہے کہ ہنگامی حالات میں جب کسی مشکل یا بیماری کا اندیشہ ہو تو نماز کی ادائیگی مسجد کی بجانے گھر میں کی جا سکتی ہے.بالکل ویسے جس طرح بارش زیادہ ہونے یا کسی اور عذر کے بیس مسجد کی بجائے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت دی گئی ہے اور آپ سے ایسا کرنا بہت سی احادیث میں ثابت ہے کہ آپ نے مسجد کی بجانے گھر میں نماز کی ادائیگی کا حکم دیا. 
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ َ کا مؤذن بارش اور تیز ہوا والی سرد رات میں اعلان کر دیا کرتا تھا:”گھروں میں نماز پڑھ لو۔

“ 
سنن ابن ماجہ: کتاب:کِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِیہَا (بَابُ الْجَمَاعَةِ فِی اللَّیْلَةِ الْمَطِیرَةِ) حدیث نمبر 937 
اسی طرح سنن ابو داود میں ہے 
 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، حَدَّثَنَا أَیُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ نَزَلَ بِضَجْنَانَ فِی لَیْلَةٍ بَارِدَةٍ، فَأَمَرَ الْمُنَادِیَ، فَنَادَی أَنِ: الصَّلَاةُ فِی الرِّحَالِ. قَالَ أَیُّوبُ وَحَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا کَانَتْ لَیْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ مَطِیرَةٌ, أَمَرَ الْمُنَادِیَ، فَنَادَی: الصَّلَاةُ فِی الرِّحَالِ.
جناب نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے (ایک سفر میں) ضجنان مقام پر ٹھنڈی رات میں پڑاؤ کیا۔

تو انہوں نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے اعلان کیا کہ نماز اپنے اپنے خیموں میں پڑھیں۔ ایوب بیان کرتے ہیں کہ نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رات ٹھنڈی یا بارش والی ہوتی تو مؤذن کو حکم فرماتے اور وہ اعلان کرتا کہ الصلاة فی الرحال یعنی اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو۔ سنن أبی داؤد: کِتَابُ تَفْرِیعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ (باب: سردی یا بارش کی رات میں جماعت سے پیچھے رہنا) حدیث نمبر 1060 
اسی طرح احادیث کی کتب میں اور بھی روایات ملتی ہیں جن میں بارش اور سردی جیسے غیر معمولی حالات میں نماز مسجد کی بجانے اپنے گھروں، خیموں میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ وقتی احکام کسی ''اعتقادی'' وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ خالصتا انتظامی وجوہات کی بنا پر کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو موسم کی شدّت سے کسی کسم کا نقصان نہ ہو.
 اب اگر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے تدارک کرنے کے پیش نظر اگر حرمین شریفین میں عام عوام کے باجماعت نماز کو وقتی طور پر معطل کیا گیا ہے اور عرب امارت میں مساجد میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی کو وقتی طور پر روک دیا گیا ہے تو کچھ لوگ اس ایمان کی کمزوری کہہ رہے ہیں. ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو جذباتی ہو کر نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور اسلام کے فلسفہ عبادت اور معاشرت کے اصولوں کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اس پر اپنا رد عمل دیں۔

ایمان اور تقویٰ کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ایمان اور تقویٰ کس کا ہو سکتا ہے؟ اللہ پر توکل کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس کا توکل ہو سکتا ہے؟ اور اگراحتیاط اور خیر خواہی کی بات کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون مسلمانوں کا خیر خواہ اور ہمدرد ہو سکتا ہے. جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات اور آپ کے اصحاب سے ایسے غیر معمولی حالات میں گھروں میں نماز کا حکم اور گھروں میں نماز کی ادائیگی باالحجت ثابت ہے تو پھر اگر ہم بھی اپنے آپ کو کلمہ گو اور مسلمان کہتے ہیں توپھران احتیاطی تدبیر پرعمل کرنے سے ہمارا ایمان کیسے داؤ پر لگ سکتا ہے؟؟؟ یہ وہ وقت ہے کہ ہم دانش مندی کا مظاہرہ کریں عائلی زندگی اور سماجی زندگی میں میل جول کم سے کم کر دیں اپنے آپ کو بھی اس موذی مرض سے محفوظ رکھیں اوراپنی ذات سے جڑے دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پہ نہ لگائیں. توکل اور تقویٰ کے اپنے طور پر معانی نہ اخذ کریں اور اسلام وبا کے حالات میں کیا حکم دیتا ہے اس کو پڑھنے اورسمجھنے کی کوشش کریں اوروبا کے پھیلاؤ اور تدارک کے لئے حکومتی اور ماہرین کی رائے پر عمل کریں. یادرکھئے اگر آپ نے احتیاط کی اور آپ کی احتیاط سے کسی انسان کی جان بچ گئی تو گویا آپ نے پوری انسانیت کو بچایا اور اگر آپ کی غفلت سے کسی کی جان گئی تو گویا آپ نے پوری انسانیت کو قتل کیا. یہ میرا نہیں اللہ کا فیصلہ ہے.
قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا
جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اِس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا (سورہ المائدہ آیت 32)

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kya baat Allah aur masjid ki hifazati tadbeer ke tehat band karna is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.