مذہب اور سائنس !

مذہب کو اس کی اساس پر باقی رکھا جائے، بے جاعقلی و سائنسی توجیہات سے احتراز کیا جائے اور عصر حاضر کے تجدد پسندوں کی فکری گمراہیوں سے آگا ہ رہا جائے

Muhammad Irfan Nadeem محمد عرفان ندیم پیر 27 جنوری 2020

mazhab aur science !
اکیسویں صدی میں کچھ ایسے اہل تجدد منظر عام پر آئے جو بظا ہر مذہب کو جدید طبقے کے لیے قابل قبول بنا کر پیش کر رہے ہیں مگر دانستہ و نادانستہ وہ مذہب کی اصل شکل کو مسخ کر کے تجدد کی راہیں ہموار کر رہے ہیں ۔ ان کی نیت او ر سو چ سے قطع نظران کے صراط مستقیم سے ہٹنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کا فہم دین روایت سے مستعار نہیں بلکہ انہوں نے اسے اپنی عقل سے سمجھا ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کی دینی و علمی روایت کا اپنا ایک خاص مزاج ہے جو سینہ بسینہ منتقل ہوتی آئی ہے۔

اس لیے اگر کوئی روایت سے ہٹ کر محض اپنے ذاتی فہم و تعقل سے دین کو سمجھنا چاہے گا تو وہ لازمی طور پر راہ اعتدال سے ہٹ جائے گا۔موجودہ عصرمیں مذہبی احکام کی سائنسی و عقلی توجیہ یا اسے جدید طبقے کے لیے قابل قبول بنانا کوئی مانع امر نہیں مگر اس کے لیے کچھ اصول و ضوابط ہیں جنہیں یہ حضرات یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ،اس سلسلے میں یہ امر پیش نظر رہے کہ دین کے بنیادی مسلمات پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

بنیادی عقائد جیسے خدا ،رسالت، وحی ، فرشتے ، قیامت اور ویگر مذہبی احکام کو ، کسی بھی عہد میں موجود عقلی و منطقی تصورات کی حد تک ریشنلائز کیا جا سکتا ہے لیکن ان عقائد و احکام کو اس حد تک ریشنلائز کردینا کہ ان کی اصل روح باقی نہ رہے کسی طور جائز نہیں۔
 یہ ممکن نہیں کہ ہر چیز کو عقل کی بنیاد پر ثابت کیا جاسکے ،عقل کی رسائی محدود جبکہ وحی کا تعلق عرش معلی سے ہے ،عقائد و احکام کو عقل کی رسائی تک لانے کے لیے خود ان کی شکل بگاڑ کر تجدد کی طرف چلے جانا کسی طور قابل قبول نہیں اس لیے داعی کی ذمہ داری امکانی حدتک، اپنے عہد کے عقلی و منطقی تصورات کی روشنی میں دعوت کے پیغام کو پہنچا دینا ہے ، قبول حق کی توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے ،اس کے بعد بھی اگر مخاطب قبول حق سے گریزاں ہے تو یہ معاملہ تقدیر پر چھوڑ دینا چاہئے۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہو اکرتی تھی کہ آپ کے مخاطبین کسی نہ کسی طرح دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور اس سلسلے میں کبھی کبھار آپ بہت ذیادہ پریشان بھی ہو جایا کرتے تھے مگر آپ نے کبھی ایسی روش اختیار نہیں فرمائی جس سے دین کے بنیادی عقائد پر زد پڑتی ہو۔
 سورہ فاطر کی آیت نمبرآٹھ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :”ایسا نہ ہو کہ ان کافروں (کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ) پر افسوس کی وجہ سے آپ کی جان چلی جائے۔

“ ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ ایسے ضدی اور عناد کا شکار مخاطبین سے اعلان برائت کر دیا جائے اور انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ 
اس ضمن میں سور ة الکافرون ہماری بہترین راہنمائی کرتی ہے۔ سورة الکافرون کی تفسیر کے حوالے سے مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں :”رسول اللہ ابتداء لوگوں کو اے میری قوم کہہ کر پکارتے رہے مگر جب اتمام حجت کے باوجود انہوں نے نہیں ماناتو آپ نے ایھا الکافرون کے لفظ سے خطاب فرمایا ، اس مرحلہ میں یہ جملہ در اصل کلمہء برائت ہے نہ کہ کلمہ دعوت۔

“ مزید لکھتے ہیں : ”میرے لیے میرا دین تمہارے لیے تمہارا دین “یہ دوسروں کے دین کی تصدیق نہیں بلکہ ایک طرف یہ اپنے حق پر جمے رہنے کا آخری اظہار ہے اور دوسری طرف مخاطب کی اس حالت کا اعلان ہے کہ تم ضد کی اب اس آخری حد پر آ گئے ہو جہاں سے کوئی شخص کبھی نہیں پلٹا۔“ 
مذہبی احکام و عقائد کو کسی بھی عہد کے عقلی سوالات پر جانچنے سے پہلے یہ بھی لازم ہے کہ ان سوالات کی نوعیت پر غور کیا جائے کہ مذہب سے متعلق وہ سوالات اس نوعیت کے ہیں کہ انسانی علم و عقل کی محدودیت اور نارسائی کے پیش نظر ان کے جوابات دیے جاسکیں۔

انسانی علم قلیل اور عقل محدود ہے اوران کے لیے ممکن نہیں کہ مذہبی عقائد و احکام سے متعلق ہر طرح کے سوالات کا جواب دے سکیں۔ اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں فرماتے ہیں :” وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے میرے اللہ کا امر ہے اور تمہیں بہت قلیل علم دیا گیا ہے۔“ اس سوال کے جواب میں قرآن نے ایک اصولی بات بتا دی کہ انسان کو علم قلیل دیا گیا ہے وہ علم کثیر کا مالک نہیں ہے، اس لیے حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان سوالات میں نہ الجھے جن کو وہ اپنی پیدائشی کم علمی کی بناء پر جان نہیں سکتا۔

مولانا وحید الدین خان اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں تذکیر القرآن میں لکھتے ہیں :”موجودہ زمانہ میں آلاتی مطالعہ وجود میںآ یا تو انسان نے سمجھا آلات اس کی محدودیت کا بدل ہیں،آلاتی مطالعہ کے ذریعے چیزوں کو ان کی آخری حد تک دیکھا جا سکتا ہے مگر بیسیوں صدی میں پہنچ کر اس خوش خیالی کا خاتمہ ہو گیا ، اب معلوم ہوا کہ چیزیں اس سے بھی ذیادہ پیچیدہ اور اس سے ذیادہ پر اسرار ہیں کہ آلات کی مدد سے ان کو پوری طرح دیکھا جائے۔

ایسی حالت میں اجمالی علم پر قانع ہونا انسان کے لیے حقیقت پسندی کا تقاضا بن گیا نہ کہ محض عقیدہ کا تقاضا۔
 ہماری صلاحیتیں محدود ہیں اور ہم سے ماوراء جو علم ہے وہ لامحدود ، پھر محدود کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ لامحدود کا احاطہ کر سکے۔“عصر حاضر میں انسانی ذہن کے تزکیے اور مزاج کی تطہیر کیے بغیر مذہب کی بے جاعقلی توجہیات بیان کرتے رہنا ذہن کو مزیدمادہ پرست بنانے کے مترادف ہے ورنہ انبیاء سے ذیادہ کون عقلی علوم میں مہارت رکھ سکتا تھا مگر انہوں نے اپنی دعوت کی بنیاد ان دلائل اور مذہب کی عقلی توجیہات پر نہیں رکھی بلکہ قلب پر محنت کر کے اس کی صفائی اور باطن کی پاکیزگی کا اہتمام کیا تھا۔

 
مذہبی احکام کی بے جا عقلی توجیہ کے اثرات اور مضمرات کیا نکلتے ہیں اس کا اندازہ سر سید احمدخان کے افکار اور ان کی تصنیفات سے کیا جا سکتا ہے۔ سر سید احمد خان برصغیر پاک و ہند میں عقلیت پرستوں اور متجددین کے امام مانے جاتے ہیں ، انہوں نے مذہبی احکام کو اپنے عہد کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے ان کی بے جا عقلی توجیہات پیش کیں جس سے تصور دین مسخ ہو کر رہ گیا۔

انہوں نے مذہبی احکام کو عقلیت کے ترازو پر تولنے کے لیے ایک نیا علم الکلام ایجاد کیا ،اس علم الکلام میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مذہب اسلام اور اس کے سارے احکام عقل کے مطابق ہیں اور اس مذہب کی کوئی بات ایسی نہیں جو جدید تمدن اور جدید افکار کے منافی ہو۔ اس علم الکلام کا بھرپور استعمال انہوں نے اپنی تفسیر ”تفسیر القرآن“ میں کیا۔

عیسائیت کی شکست کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے مذہب کی بے جا عقلی توجیہات اور سائنس و فلسفہ کو ضرورت سے ذیادہ مذہبی معاملات میں دخیل کردیا تھا۔ اگر عیسائیت اپنے دینی منہاج علم کو ہی برقرار رکھتی او ر سائنسی منہاج علم کواختیار نہ کیا جاتا توشاید اسے بطور مذہب زندہ رہنے کے لیے چند صدیاں مزید مل جاتیں۔مذہب اپنی ذات میں قطعیت کا دعویدار ہے جبکہ سائنس اور سائنسی منہاج علم تشکیک پر مبنی ہوتاہے۔

عیسائیت نے اپنی سچائی اور تحقیق کے لیے، بڑی تگ و دو کے بعد خود کو فلسفہ یونان اور قدیم سائنسی نظریات کے مطابق پیش کیا تھا مگر المیہ یہ ہوا کہ جیسے ہی فلسفہ یونان ختم ہوااور قدیم سائنسی نظریات کا غلط ہونا ثابت ہو گیا تو عیسائیت بھی، بطور مذہب اپنی شناخت کھو بیٹھی کیونکہ عیسائیت نے جس شاخ نازک پر اپناآشیانہ تعمیر کیا تھا وہ جدید فلسفہ اور سوشل سائنسزکا مقابلہ نہ کر سکی او ر نئی فکر کے سامنے مات کھا گئی۔اس لیے لازم ہے کہ مذہب کو اس کی اساس پر باقی رکھا جائے، بے جاعقلی و سائنسی توجیہات سے احتراز کیا جائے اور عصر حاضر کے تجدد پسندوں کی فکری گمراہیوں سے آگا ہ رہا جائے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

mazhab aur science ! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 January 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.