میرا جسم میری مرضی

آج کی ماڈرن عورت بار چلا رہی ہے کیفے چلا رہی ہے،پیزا شاپ کھولے ہوئے ہے۔آج کی ماڈرن عورت نے سیلون کھولا ہوا ہے،فیشن کی نت نئی ورائیٹیز متعارف کروا رہی ہے۔قریباََ قریباََپاکستان میں بھی عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوچکی ہے

Ali Ac علی آسی پیر 9 مارچ 2020

mera jism meri marzi
چند دن قبل نامور رائٹر خلیل الرحمٰن قمر اور سماجی کارکن محترمہ ماروی سرمد کے درمیان ایک ٹی وی ٹاک شو کے سیٹ پر ”میرا جسم میری مرضی“ کے تناظر میں تکرار ہوگئی ۔دونوں جانب سے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔چند ایسے جملے بھی ادا کیے گئے جن کو پیمرا کو حذف کر دینا چاہیے تھا ۔انہی جملوں کے تناظر میں آج کل فیس بُکی دانشور اپنی اپنی رائے اپنا اپنا گیان ہر کسی کو مفت بانٹ رہے ہیں۔


”میرا جسم میری مرضی“ ہمارے معاشرے میں ایک نعرہ ہی نہیں بلکہ کچھ عرصے سے ایک سوچ بن گیا ہے۔کچھ ماڈرن عورتیں اب موجودہ لائف سے تنگ آگئی ہیں اور وہ کچھ نیا کرنا چاہتی ہیں۔آج کی ماڈرن عورت نے مذہب کو بالائے طاق رکھ کر اپنی من مانی شروع کردی ہے۔آج کی ماڈرن عورت حجاب کرنے یا برقعہ لینے کو رجعت پسندی سمجھتی ہے۔

(جاری ہے)

آپ کسی بھی بڑے شہر میں کسی بھی پبلک پلیس پر چلے جائیں آپ کو وہاں جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دیکھنے کو ملیں گی۔

آپ کسی یونیورسٹی میں چلے جائیں ننگ دھڑنگ خواتین ہر سو نظر آئیں گی۔پھٹی جینز اور پنکچر لگی ٹی شرٹ آج کی عورت کا فیشن بن گیا ہے۔آپ روزانہ ٹی وی دیکھتے ہیں ،آپ کو کسی ٹی وی ڈرامے یا کسی نیوز کے سیٹ پر کسی عورت کے سر پر دوپٹہ نظر نہیں آئے گا۔کیونکہ آج عورت سر پر دوپٹہ لینے کو قدامت پسندی تصور کرتی ہے۔آج کی ماڈرن عورت بار چلا رہی ہے کیفے چلا رہی ہے،پیزا شاپ کھولے ہوئے ہے۔

آج کی ماڈرن عورت نے سیلون کھولا ہوا ہے،فیشن کی نت نئی ورائیٹیز متعارف کروا رہی ہے۔قریباََ قریباََپاکستان میں بھی عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوچکی ہے۔آج ہر وہ کام عورت کر رہی ہے جو فقط مرد کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔آج کی ماڈرن عورت ایڑھیاں کھڑی کر کر کے مرد کے برابر کھڑا ہونے کی بھرپور کرشش کر رہی ہے۔
وہ دن دور نہیں جب نیو خان کی ڈرائیور اور کنڈکٹر عورت ہو گی۔

وہ دن دور نہیں جب عورت بھی مرد کی طرح قمیص شلوار سلوائے گی، قمیص کے دائیں بائیں اور شلوار کو جیب لگوائے گی۔وہ دن دور نہیں جب عورت آلو پیاز کی بوریاں فی بوری دس روپے ٹرک پر لوڈ کرے گی۔وہ دن دور نہیں جب عورت کڑکتی ہاڑ کی دھوپ اور پوہ کے سخت جاڑے میں مزدوری کرے گی،ریڑھا چلائے گی،چنگچی رکشہ بھگائے گی۔وہ دن دور نہیں جب صبح صبح منہ اندھیرے عورت سبزی منڈی جائے گی اور دُکان کے لیے سبزیاں خریدے گی۔

اور وہ دن دور نہیں جب کچھ ماڈرن غریب خواتین کسی کے ڈیری فارم پر ملازمت کریں گی،گوبر صاف کریں گی،دودھ دھوئیں گی،چارہ بنائیں گی اور بھینسوں کے باڑے پر کام کر کے گزر اوقات کریں گی۔آنے والے دور کی ماڈرن عورت اوپر دیے گئے سب کام اکیلے ہی کرے گی کیونکہ وہ کسی مرد کو خود پر اجارہ داری نہیں دینا چاہتی۔آنے والے ماڈرن دور کی عورت بچے بھی خود اکیلے ہی پیدا کرے گی کیونکہ شاید وہ کسی مرد کے نکاح میں آنا پسند ہی نہ کرے۔

محوِ حیرت ہوں کہ شاید وہ دور بھی آجائے کہ مرد گھر میں سارا دن بیٹھ کر کھائیں اور عورتیں سڑکوں بازاروں کی دھول پھانک پھانک کر چار پیسے کما کے لا کر مرد کی ہتھیلی پر رکھا کریں گی۔
سچ بتاؤں تو سوچ کر ہی ڈر لگتا ہے کہ کیا کبھی ایسا بھی ہو جائے گا ؟ کہیں ایسا ہو ہی نہ جائے!اگر ایسا ہو گیا تو عورت تو عورت ہے وہ کہاں یہ سب بوجھ برداشت کرے گی۔

پھر تو عورت یہی پکارے گی کہ”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو“ مگر ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا جیسے بندہ خالی ہوا میں سے ہاتھ گزار کر مُٹھی بند کر لے اس امید پر کہ اس کی مٹھی میں ہوا قید ہو گئی ہے لیکن جب وہ مٹھی کھولے گا تو ہاتھ خالی کا خالی ہی ہوگا۔بالکل اسی طرح ایک بار اگر عورت نے اپنی عزت کو سرِ بازار رکھ دیا تو پھر سرِ بازار یہ نیلام ہو ہی جائے گی۔

پھر چاہے جتنا بھی عزت سمیٹنے کی کوشش کر لے ذلت اس کے ماتھے پر شکن بن کر نمودار ہوجایا کرے گی۔
یورپ میں عورتیں یہی مطالبہ کرتیں تھیں کہ اُن کا جسم ان کا اپنا ہے کوئی مرد ان پر اپنی اجارہ داری قائم نہ کرے چاہے وہ شوہر ہی کیوں نہ ہو۔ عورتیں چاہتیں تھیں کہ وہ اپنی مرضی سے جتنے چاہے بچے پیدا کریں اور اگر وہ کوئی بچہ پیدا کرنا نہ چاہیں تو مرد انھیں بچہ پیدا کرنے پر مجبور نہ کرے ۔

باالفرض اگر وہ ”Pregnant“ہو بھی جائیں تو بھی انھیں اتنا حق ضرور ہونا چاہیے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنا ”Baby Abort“ کروا سکیں۔
یورپ میں اپنی آزادی کے لیے عورت نے بہت جدوجہد کی ۔عورت ہر مرد سے لڑی،قوانین سے بھڑ گئی،اپنی عزت کو سائیڈ پر رکھ کر عورت نے بالآخر وہ سب حاصل کر ہی لیا جس کی وہ متلاشی تھی۔بالآخر اُس معاشرے نے عورت کو مرد کے برابر کھڑا کر ہی دیا۔

اور آج وہاں عورت ہر لحاظ سے مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔آج یورپ میں مرد اور عورت میں کوئی تمیز نہیں ہے۔آج وہاں عورت مردوں کے ساتھ رات گئے تک باہر گھوم پھر سکتی ہے،شراب نوشی کر سکتی ہے،پبلک پلیس پر کچھ بھی پہن کر جاسکتی ہے،آج وہاں عورت کے درجن درجن بھر بوائے فرینڈ ہیں لیکن نکاح کے لیے ایک بھی نہیں۔معاف کیجیے گا لیکن وہاں عورت مکمل آزاد ہے،معاف کیجئے گا وہاں عورت کسی کے ساتھ بھی رات گزار سکتی ہے کسی کے بستر پر بھی سو سکتی ہے۔

معاف کیجئے گا لیکن وہاں عورت کی عزت بس بستر کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔معاف کیجئے گا کہ وہاں اولاد جانتی ہی نہیں کہ اس کا اصل باپ کون ہے!!یہ سب اس لیے ہوا کہ وہاں پر بھی عورت نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگایا تھا۔معاشرہ وہ بھی خراب تھا،عورتوں کا ریپ وہاں بھی ہوتا تھا،جنسی زیادتی کا وہاں بھی خوب رواج تھا۔لیکن وہاں کی عورت چاہتی تھی کہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی اس کے جسم کو ٹچ نہ کرے۔

اور واقعی ایسا ہی ہوا دھیرے دھیرے جب عورت کا نعرہ ”میرا جسم میری مرضی“ مان لیا گیا تو پھر عورت نے اپنی عزت ہتھیلی پر رکھ کر باہر نکلنا شروع کردیا اور یوں عورت سرِ بازار نیلامِ عام ہوگئی۔آج بھی وہاں عورت کی رضامندی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
مگر آج مغرب میں عورت پچھتا رہی ہے ۔آج وہ حسرت بھری نگاہ سے ہم جیسے رجعت پسندوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔

آج وہاں کی عورت ہمارے یہاں کی عورت کی قسمت پر رشک کرتی ہے کیونکہ کم از کم ہمارے ہاں عورت کی عزت و عصمت تو کم و بیش محفوظ ہے۔آج مغرب کی عورت واپس پلٹنا چاہتی ہے،وہ واپس اس دور میں جانا چاہتی ہے جب وہ بھی باپ بھائی اور شوہر کی مرضی کی پابند تھی۔جب اس کا جسم صرف اس کا نہیں تھا بلکہ اس کے شوہر کا بھی تھا۔آج وہاں کی عورت واپس وہیں پلٹنا چاہتی ہے جب شادی سے پہلے اس کے جسم پر اس کے باپ بھائی کا اختیار تھا۔

چاہے باپ یا بھائی اس پر ہاتھ اُٹھا لیتے تھے لیکن اس میں اسی کا بھلا ہوتا تھا۔چاہے اس کا شوہر بیئر پی کر اسے مارتا تھا اور وہ سہہ جاتی تھی لیکن وہ سہنا نہیں چاہتی تھی ۔آج وہ عورت سوچتی ہے کہ وہ کیوں نہیں سہنا چاہتی تھی۔اسے سہہ لینا چاہیے تھا ۔آج وہاں عورت کے پاس بینک بیلنس نام شہرت رتبہ ہر شے ہے لیکن ایک چیز نہیں ہے جسے ہمارے ہمارے ہاں ”گھر“ کہا جاتا ہے۔

 آئیے میں آپ کو”گھر “ کی تعریف بتاؤں۔جھونپڑی میں رہنے والے غریب آدمی کی چار بیٹیاں اسی جھونپڑی کو گھر خیال کرتی ہیں۔ان کے لیے وہی چار چادریں اور چار بانس ہی گھر کا درجہ رکھتے ہیں۔چاہے اس چھونپڑی میں دنیا جہان کی سہولیات موجود نہیں ہیں لیکن وہاں ان کی عزت تو محفوظ ہے اور یہی بہت بڑی نعمت ہے۔
ہم الحمداللہ پاکستانی ہیں اور الحمداللہ ہم مسلمان ہیں۔

اسلام نے عورت کو وہ تمام حقوق عنایت کیے ہیں جو کسی عورت کے لیے ضروری ہونے چاہئیں۔عورت اور مرد دو مختلف جنسیں ہیں،دونوں کے اجسام کی ساخت مختلف ہے،دونوں کی ضروریاں مختلف ہیں،دونوں کی ذمہ داریاں بھی الگ الگ ہیں۔اسلام نے ہی مرد کو عورت کا نگہبان مقرر کیا ہے۔کمانے کی ذمہ داری اسلام نے ہی مرد کے کاندھوں پر ڈالی ہے۔ ہاں البتہ اگر عورت بھی کمانا چاہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

لیکن جب اولاد ہوجاتی ہے تو عورت کو اولاد اور گھر کے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی تو کہاں وہ کوئی جاب کرے گی۔
آج عورت یونیورسٹیوں میں مرد کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کر رہی ہے،دفاتر میں مردوں کے برابر کام کر رہی ہے ۔اس سے بڑی اب معلوم نہیں کونسی آزادی ہوسکتی ہے؟ضروری نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بھی یورپی قوانین رائج ہو جائیں اور مادر پدر آزادی کا ہرسو دور ہو جائے۔

ہاں ہم مانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بھی سو فیصد نیک ہر گز نہیں ہے۔ہمارے ہاں بھی برے لوگ موجود ہیں جو عورت کی آبرو سے کھیل جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں عورت کا ریپ کیا جاتا ہے،اس سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے اور اسے مردہ حالت میں قبر سے نکال کر درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔لیکن ہر معاشرے میں چند عناصر ایسے لازمی موجود ہوا کرتے ہیں جن کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ ہم نے عورت کو وہ سب حقوق نہیں دیے جس کی وہ حق دار ہے۔لیکن اس بات کی ضمانت ضرور دے سکتے ہیں کہ تقریباََ عورت کی عزت ضرور محفوظ ہے ۔
لازم نہیں کہ یہاں بھی عورت مغرب کی روش کو اپناتے ہوئے ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ لگائے۔لازم نہیں کہ آٹھ مارچ کو جلسے جلوس میں مردوں کو گالیوں سے نوازا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو نعرہ ”میرا جسم میری مرضی“ کا لگایا جا رہا ہے اسے ”میرا حق مجھے دو“سے تبدیل کر دیا جائے او ر بہتر ہے کہ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں نہ کہ سڑکیں بند کر دی جائیں،مردوں کو گالیاں دی جائیں۔

عورت کی عزت اب بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کی عزت تب تک محفوظ ہے جب تک وہ خود پر اپنے باپ بھائی اور شوہر کی اجارہ داری قائم رکھتی ہے۔اس سے پہلے کہ عزت دو ٹکے کی ہو جائے بہتر یہی ہے کہ نکاح کرو گھربار سنبھالو اور مرد کے نام پر اپنی تمام وفا نثار کردو۔یقین رکھو جس مرد پر تم اپنی عزت اور وفا نچھاور کرو گی وہ مرد بھی تم پر اپنی جان اپنا تن من دھن نچھاور کردے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mera jism meri marzi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.