ماڈرن ازم کی آڑ میں حقوق نسواں کا فریب

یورپ و امریکہ میں ہر 3 میں سے 1 عورت کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جمعہ 5 فروری 2021

Modernism Ki Aar Mein Huqooq e Niswaan Ka Fareeb
بشریٰ شیخ
اسلام کی آمد نے عورت کیلئے غلامی،ذلت اور ظلم و استحصال سے آزادی کا پیغام دیا اور ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں،عورت کو وہ حقوق عطا کئے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی عزت،تکریم،وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے،اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی،معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

مغربی ڈاکو صرف حقوق نسواں مناتے ہیں مگر دیتے نہیں،بلکہ حقوق نسواں کے نام پہ عورت تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں آپ اندازہ لگائیں ان کے چند عجیب فلسفہ سے کہ اگر عورت اپنے گھر میں اپنے لئے اور اپنے شوہر کیلئے اور اپنے بچوں کیلئے کھانا تیار کرتی ہے تو یہ رجعت پسندی اور دقیانوسیت ہے۔

(جاری ہے)

اور اگر وہی عورت ہوائی جہاز میں ایئر ہوسٹس بن کر سینکڑوں انسانوں کی ہوسناک نگاہوں کا نشانہ بن کر ان کی خدمت کرتی ہے تو اس کا نام آزادی اور جدت پسندی ہے۔


اگر عورت گھر میں رہ کر اپنے والدین،بہن بھائیوں کیلئے خانہ داری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے،لیکن دکانوں پر ”سیلز گرل“ بن کر اپنی مسکراہٹوں سے خریداروں کو متوجہ کرے یا دفاتر میں اپنے افسروں کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی و اعزاز ہے۔حقوق نسواں کی تحریک دراصل مغربی معاشرے میں عورتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف ایک مزاحمت کے طور پر سامنے آئی۔

اس کی بنیادی وجہ وہ معاشرتی رویہ تھا جو خواتین کے حقوق کے معاملے میں تھا۔عورت کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی بھی ناممکن تھی۔اس کا معاشرتی کردار محدود اور سیاسی کردار محدود تر تھا۔لہٰذا ان حالات میں خواتین نے اس معاشرتی رویے کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے حقوق کی جنگ کا آغاز کیا۔اس جنگ کے نتیجے میں امریکہ میں 1839ء میں خواتین کو وراثت میں حق دار قرار دے دیا گیا لیکن سیاسی حوالے سے مقام بنانے کے لئے ان کو ابھی ایک طویل جنگ لڑنا تھی جو کہ نہایت جرات و بہادری سے ان خواتین نے اپنی تحریک کو جاری رکھا اور تقریباً ایک صدی کی طویل جدوجہد کے بعد آخرکار 1920ء کو خواتین کے ووٹ کے حق کو تسلیم کر لیا گیا۔

اسلام میں خواتین کو 1400 سال پہلے ہی تمام تر حقوق دے دیے جا چکے ہیں۔
مذہب اسلام اس دنیا میں اس وقت آیا،جب انسانیت دم توڑ رہی تھی،انسانی ظلم و جور پر ظلم کی تاریخ بھی آنسو بہا رہی تھی اور عدل و مساوات کی روح تقریباً عنقا ہو چکی تھی۔اسلام نے ایسے نامساعد حالات کے باوجود انصاف و برابری کا نعرہ بلند کیا،اور عملاً بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی،اور حاکم و محکوم،آقا و غلام اور اونچ و نیچ کے ناہموار ٹیلوں سے بھرے صحرائے انسانیت میں عدل و انصاف،برابری و مساوات اور یکسانیت وہم آہنگی کے پھول کھلا کر ہر سو نسیم صبح چلا دی۔

اسلام نے عورت کو ذلت و نکبت کے تحت المثریٰ سے اٹھا کر بلندی و عظمت کے بام ثریا پر رونق افروز کر دیا،اور اسے ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور بھی اسلام سے پہلے ناممکن اور معدوم تھا․․․․،مگر آج جبکہ ہر طرف سے اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور طرح طرح کی بے جا تنقیدوں اور لغوا تہامات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسلامی اقدار و روایات کو ناقص بلکہ ظلم اور عدم مساوات سے عبارت گردانا جا رہا ہے اور زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو اس ناجائز حقوق سے محروم رکھا ہے،اور اس کے ساتھ عدل و مساوات کا معاملہ نہیں کیا،حالانکہ اگر عقل و خرد کو تعصب سے پاک و صاف رکھا جائے اور دل و دماغ سے منصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہو جائے گی،کہ عورت چونکہ تمدن انسانی کا محور و مرکز ہے، گلشن ارضی کی زینت ہے،اس لئے اسلام نے باوقار طریقے سے اسے ان تمام معاشرتی حقوق سے نوازا جن کی وہ مستحق تھی،چنانچہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا،دیگر اقوام کے برعکس اسے ذاتی جائیداد و مال رکھنے کا حق عطا کیا،شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کی صورت دکھائی،وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرایا،اسے معاشرہ کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اس کے تمام جائز قانونی حقوق کی نشان دہی کی،حاصل یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر حقوق دیئے ہیں،خواہ اس کا تعلق ذاتی جائیداد و راثت سے ہو یا شادی یا طلاق کا مسئلہ ہو، کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر بھی پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہے۔


اسلام نے عورتوں کو کتنی ترقی دی؟کیسا بلند مقام عطا کیا؟قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت و مساوی نظام عمل پر عش عش کر اٹھے،اور یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے۔

آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں،تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی کرکے اسلا م کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت ہے۔ چنانچہ آج بھی بہت سے غیر مسلم مفکرین اور دانایان فرنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنف نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں ،چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی،معاشرتی اور اخلاقی حقوق دیئے جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Modernism Ki Aar Mein Huqooq e Niswaan Ka Fareeb is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.