ناکافی حفاظتی تدابیراور واپڈا اہلکار

لائن مین اکثر جان سے کیوں ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ٹرانسفارمراور بجلی کے تاردرست کرنے والوں سے بات چیت

جمعرات 1 ستمبر 2016

Nakafi Hifazti Intezamat Or Wapda Ehelkar
شہریاراشرف :
ہمارے روزمرہ کے معاملات مختلف لوگوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے ہماری زندگی پر سکون اور آران دہ گزرتی ہے۔ یہ لوگ عوامی خدمے کے جذبے سے سرشار ہوکر دھوپ، بارش،سردی گرمی دن اور رات کی پرواہ کئے بغیر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ اس دوران انہیں سخت تجربات کاسامنا بھی کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہونے کے علاوہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اور وہ لوگ جن کی خاطریہ اپنی جان قربان کرتے ہیں وہ ان کی عظمت میں ہمدردی کا ایک جملہ بھی نہیں بولتے ۔ ہم گزشتہ ایک ڈھائی سے زیادہ عرصہ سے بجلی کے بحران میں مبتلا ہیں جس نے ہمیں ذہنی مریض بنا دیا ہے اوررہی سہی کسر بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ پڑنے سے نکل جاتی ہے۔ اس مشکل صورتحال میں واپڈا کے لائن میں پریشان لوگوں کا سہارا بنتے ہیں اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کھمبوں پر چڑھ کربجلی کے تاروں کے نقائص ختم کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

کھمبوں سے گزرنے والے تاربجلی کے نہیں بلکہ موت کے چیلنجز کاسامنا کرنا پڑتا ہے یہ سب جاننے کے لیے لیسکو کے مختلف لائن مینز سے گفتگو کی جوقارئین کی نذر ہے۔
لائن میں محمد عظیم نے بتایا کہ کھمبے پرکام کرنے کے دوران کر نٹ لگنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ آجکل لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ ہورہی ہے۔ ایس ڈی او صاحبان ہمیں لوڈشیڈنگ کے دوران کام کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جس کے بعدہم کھمبے پر چڑھ کرکام میں مصروف ہوجاتے ہیں اسی دوران بجلی آجاتی ہے جس کی وجہ سے لائن مین کو بجلی کا شاک لگ جاتا ہے۔

کھمبے پر چڑھنے سے قبل ہم دونوں اطراف سے آنے والی بجلی کوارتھ کرواتے ہیں تاکہ اگر ” بیک فیڈنگ “ بجلی واپس بھی آجائے توارتھ ہونے کی وجہ سے لائن مین کرنٹ سے محفوظ رہے۔ بعض اوقات لائنیں ارتھ نہیں ہوتی اورکرنٹ واپس آنے سے لائن مین حادثے کاشکار ہوجاتا ہے جس سے اُس کی جان بھی چلی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ”ٹی اینڈپی “ یعنی بجلی ٹھیک کرنے کے آلات ناقص ہونے کی وجہ سے بھی لائن مین کو کرنٹ لگنے کے امکانات ہوتے ہیں ۔

ہمارے اوپر افسروں کا بہت پریشرہوتا ہے کہ کام جلدی کرو، لہٰذا افسروں کا پریشر بھی حادثات کو جنم دیتا ہے۔ محکمے کی طرف سے ملنے والے سامان جوتے بیلٹ اور دستانوں کی جوڑی کے بارے میں محمد عظیم نے بتایا کہ ہمیں یہ سامان ایک مرتبہ ہی ملتا ہے خراب ہونے کے بعد دوبارہ مانگیں توافسروں کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ نیا سامان نہیں ہے پرانے سامان ہی سے کام چلاؤ ۔

اس صورتحال میں ہم اپنی یونین کے چیئرمین سے التجا کرتے ہیں کہ اگر ہماری زندگی چاہتے ہیں تو ہمیں نیاسامان مہیاکریں جس کے بعد یونین محکمہ واپڈا سے تھوڑی بہت گرانٹ حاصل کرکے ہمیں نیاسامان فراہم کرتی ہے۔
لائن میں محمد رضوان نے بتایا کہ فیلڈ میں کام کرنے کے دوران عوام ہمیں بہت برا بھلا بھی کہتے ہے۔ ہمیں ان کی ہر طرغ کی باتیں سننا پڑتی ہیں ۔

لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں خوشی کا موقع ہے اور آپ نے بجلی بند کردی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے گھر میں غمی ہے اور آپ نے بجلی بند کردی ہے۔ عوام کی جلی بھنی باتوں کا بھی ہم پر بہت پریشر ہوتاہے۔ پول کے نیچے جتنے بھی لوگ کھڑے ہوتے ہیں وہ سب اپنے اپنے انداز سے ہم پر طنزیہ جملے کستے ہیں۔ بجلی کے بل کے اوپر ایس ڈی او اور ایکسئین کانمبر لکھاہوتاہے لہٰذا ہر شخص انہیں فون کرکے شکایت کرتا ہے کہ لائن مین ہماراکام نہیں کر رہے۔

صبح سے بجلی بند ہے اور لائن مین کام میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ جس کے بعد دفاتر سے ہمارے اوپر اور زیادہ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ بجلی بند کروانے کے باوجود لائن میں کرنٹ کے آجانے کے بارے میں اس نے بتایا کہ لوگوں نے اپنے گھروں میں UPS اور جنریٹر لگائے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دو اطراف سے بجلی لی جاتی ہے تاکہ لوڈشیڈنگ کے دوران ان کی بجلی بند نہ ہو۔ کھمبے پرچڑھنے سے قبل لائن میں بجلی بند کروالیتا ہے۔

لیکن UPS اور جنریٹر سے ” بیک فیڈنگ “ کرنٹ واپس بجلی کی تاروں میں آجاتا ہے کیونکہ لوگوں نے انٹرلاکنگ نہیں کی ہوتی اور تاروں میں کرنٹ آنے سے لائن مین کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
لائن مین حسن دین نے بتایا کہ یہ کام بہت ہمت اور مشقت والا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ ترلائن مین جسمانی طور پر مضبوط ہوتے ہیں۔ لیکن جواں سال لائن مین کی موت ہمیں بہت بڑے صدمے سے دوچار کردیتی ہے کیونکہ دوران ڈیوٹی ہلاک ہونے والے لائن مین کے بیوی بچوں کی محکمہ مالی امداد نہیں کرتا۔

اس صورتحال میں ہم تمام ساتھی مل کر کچھ رقم اکھٹی کرتے ہیں۔ لیسکو کے تمام ملازم یونین کوماہانہ بیس سے چالیس روپے چندہ دیتے ہیں جس سے تقریباََ تین سے چار لاکھ روپے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور یہ رقم لائن مین کی بیوہ کودی جاتی ہے۔ یہ سارا کام یونین ہی کرتی ہے اس کے برعکس محکمہ ہمیں صحت کی سہولت فراہم کرتا ہے اور میڈیکل الاؤنس بھی ملتا ہے۔

حسن دین نے بتایا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران عوام کا رویہ بہت جارحانہ ہو جاتا ہے اور وہ ہمارے اوپر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لائن مین 16سے 18گھنٹے لگاتار کام کرتے ہیں لیکن ہمیں اس کا ایک روپیہ بھی اوور ٹائم نہیں ملتا۔ دوران ڈیوٹی سب سے خطرناک صورتحال کے بارے میں اس کاکہنا تھا کہ چوراہوں پر لگے بجلی کے کھمبوں پرچاروں طرف سے الگ الگ فیڈر سے بجلی آرہی ہے۔

ایسے کھمبے پر چڑھ کرکام کرنا ہمارے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کام کرنا ہمارے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کام کے دوران ہمارا دھیان مسلسل تاروں کی طرف ہوتا ہے کہ خدانہ خواستہ اگرکسی لائن میں بجلی آگئی تو بہت بڑا حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر بارشوں کا موسم ہمارے لئے بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس موسم میں ہمارے کپڑوں، جوتوں، دستانوں اور اوازاروں حتیٰ کہ ہر چیز میں نمی ہوتی ہے اور موت ہمارے سر پر منڈلارہی ہوتی ہے۔

وہ لمحہ ہمارے لیے بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے جب ہمارا ساتھی ہمارے سامنے جان دے دیتا ہے اور ہم اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے کیونکہ جتنی دیر میں ہم نے بجلی بند کروانی ہوتی ہے اُس وقت تک اُس کی جان نکل چکی ہوتی ہے ۔ اس وقت ہمارے جوجذبات ہوتے ہیں ہم وہ بیان نہیں کرسکتے کہ چند لمحے پہلے ہنسنے والا ہمارا ساتھی اب ہمارے ساتھ نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nakafi Hifazti Intezamat Or Wapda Ehelkar is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 September 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.