
”صحرائے تھر “
قحط اور خشک سالی سے سینکڑوں بچوں کی اموات انسانی جان کو اہمیت نہیں دی گئی اور 3مہینوں میں بڑی تعداد میں بچوں کی اموات واقع ہوگئیں۔مرنے والے بچوں کی تعداد پر بھی اتفاق نہیں ہو سکا
منگل 11 مارچ 2014

حکومت سندھ نے تھر کو پہلے آفت زدہ اور قحط زدہ قرار دیا ہے لیکن اس اعلان کے لوازمات بروقت پورے نہیں کئے اور متعلقہ ذمہ دار حکام نے انتہائی لاپروائی اور غفلت کامظاہرہ کیا۔ انسانی جان کو اہمیت نہیں دی گئی اور 3مہینوں میں بڑی تعداد میں بچوں کی اموات واقع ہوگئیں۔مرنے والے بچوں کی تعداد پر بھی اتفاق نہیں ہو سکا اور سرکاری حلقے آج بھی اعدادو شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں اور ان کی کوسس ہے کہ نقصان کو کم سے کم بتا یا جائے حالانکہ انٹرنیشنل میڈیا میں تھر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور عالمی اداروے متحرک ہوگئے ہیں اسلام آباد کے طاقتور ایوانوں میں بھی اس پر بحث ہوئی ہے سینیٹ میں بتایا گیا کہ دسمبر سے فروری تک ایک سواٹھارہ بجے ہلاک ہوئے جبکہ ما رچ کے پہلے چار دنوں میں مزید تین اموات ریکارڈ کی گئیں گو یا ایک سو اکیس بچے غذائی قلت کے سبب زندگی کی بازی ہار گئے۔
(جاری ہے)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ تھر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے والے صوبائی وزیر لائیو اسٹاک جام خان شورو کو اس بات کا کچھ اندازہ نہ ہوسکا کہ تھر کے جن علاقوں میں وہ ہو کر آئے وہاں صرف مویشی ہی نہیں بلکہ انسانی بچے بھی بڑی تعداد میں فوت ہوگئے ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں اموات کا ریکارڈ موجود ہے عام لوگ خود اپنے علاقوں میں ہونے والی اموات کی تفصیلات سب کو بتا رہے ہیں لیکن کمال ہے کہ عوامی حکومت کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر وں اور مختلف نمائندوں کی تھر کی صورتحال کا کوئی علم نہ ہوسکا یہاں تک کہ یہ مسئلہ میڈیا میں انتہائی سنگین شکل میں رپورٹ ہوگیا کیا پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے لیڈر اور مختلف نمائندے تھر کے لوگوں سے ملتے نہیں ہیں اور ان کے مسائل جاننے کی کوشش نہیں کرتے یاتھر کے لوگ جو مشکلات اور مسائل بیان کرتے ہیں ان پر کوئی سیاسی جماعت اور اس کے لیڈر دھیان نہیں دیتے یا ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ کیا تھر کے عوام کو تمام سیاسی لیڈاروں نے تیسرے درجے کا شہر ی قرار دے رکھا ہے کیا وہاں انسان نہیں رہتے کیا ان کے بچے بہتر غذائی سہولیات اور علاج معالجے کے حق دار نہیں ہیں حکمرانوں نے اس سلسلے میں یقینا غفلت برتی ہے جب پانی سرے اونچا ہوگیا تب ان کو ہوش آیا ہے کہ لوگ کھل عام سوال کررہے ہیں کہ کروڑوں روپے سندھ کلچر فیسٹیول پر خرچ کرنے والے بلا ول بھٹو زردار ی کی سربراہی میں سندھ کے حکمران ناچ گانے میں مصروف تھے ان کا جشن چل رہا تھا اور تھر میں جنازے اٹھ رہے تھے۔
اب وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تھر کا ہنگامی دورہ کر کے اہم اعلانات ضرور کردیئے ہیں۔کراچی واپس آکر انہوں نے دھواں دھار پریس کانفرنس بھی کرڈالی۔حکومت نے اب تھر کے غریبوں کو مفت گندم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تھر کیلئے مخصوص گندم تو ذخیرہ کی گئی تھی اور وہ گوداموں میں موجود بھی تھی لیکن محکمہ خوراک کے ․․․․․ ذمہ داروں نے موٴقف اختیار کیا کہ گندم تقسیم کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ فنڈز جاری نہیں کئے گئے تھے۔ اس لئے گندم تقسیم نہ کی جاسکی۔اسے متعلقہ حکام کی غفلت لاپرواہی اور نااہلی نہ کہا جائے تو اور کیاکہا جائے دراصل محکمہ خوراک سندھ میں بھی دیگر محکموں کی طرح کرپشن عروج پر ہے اور گوداموں سے سرکاری گندم غائب کردی جاتی ہے یا مارکیٹ میں بیچ دی جاتی ہے یا فلور ملوں کو دے دی جاتی ہے اور دیگر صوبوں میں اسمگل بھی کی جاتی ہے۔ قومی احتساب بیورو کے ڈائر یکٹر جنرل سندھ واجد علی درانی نے خود راقم الحروف کو بتایا کہ محکمہ خوراک سندھ کی کرپشن کی شکایات بہت زیادہ ہیں اور نیب اس محکمے کے کرپٹ افسران کے خلاف گھیرا تنگ کرچکا ہے۔
سندھ کے محکمہ خوراک کے وزیر جام مہتاب ڈھر باقی وزیروں سے مختلف اور سادہ طبیت کے انسان ہیں اور انہیں سیاسی حلقوں میں اچھی شہرت حاصل ہے۔سیکریٹری فوڈ نصیرجمالی بھی ایک شریف النفس انسان ہیں اور اصول پسند افسرہیں لیکن محکمہ خوراک کی نچلی سطح پر بہت گڑ بڑے اور ماضی کے ادوار میں کرپشن عروج پر رہی ہے موجودہ وزیرادر سیکریٹری نے کافی افسران کو معطل کررکھا ہے اور فلور ملوں کو گندم کا سرکاری کوٹہ بھی معطل کیا ہے لیکن اس کے باوجود تھر میں قحط زدہ صورتحال میں محکمہ خوراک کے ذمہ داروں کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر گوداموں میں موجود گندم کی بروقت تقسیم کو یقینی بنایا جاتا تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔
سندھ کا محکمہ صحت (ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ) بھی تھر کی بدترین صورتحال میں خود کو بری الزم قرار نہیں دے سکتا کیو نکہ اسپتالوں میں اموات کی شرح بڑھ رہی تھی تو اس وقت اعلیٰ حکام کو کراچی میں صورتحال سے آگا ہی دینا چاہئے تھی۔ سندھ میں اس وقت کوئی ہیلتھ منسٹر نہیں ہے یہ محکمہ بھی وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہے جبکہ محکمہ صحت کا سیکریٹری بھی وزیراعلیٰ سندھ کا اپنا داما د (اقبال درانی ) ہے اگر چہ اقبال درانی کی شہر ت ایک ایماندار اور قابل افسر کی ہے لیکن محکمہ صحت بھی تھر کی صورتحال میں اپنا موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہاہے حکومت کا موقف ہے کہ تھر میں بچوں کی ساری اموات صرف غذائی قلت سے نہیں ہوئیں بلکہ وہاں شدید سردی پڑی ہے اور سردی سے متاثرہ بچے نمونیہ کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے ہیں اگر یہ بات بھی درست ہے تو نمونیہ کا علاج کرنا اور علاج معالجے کی ضروری سہولیات کی فراہمی بھی محکمہ صحت حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے اب حکومت یقینا جاگ گئی ہے صوبائی وزیروں ‘مشیروں سندھ سیکریٹریٹ کے دفاتر میں ہفتے اتوار کی تعطیل ختم کر کے ریلیف ورک کیلئے دفاتر کھلوادیئے گئے ہیں ایم کیو ایم نے پہل کرتے ہوئے امدادی سامان تھر بھیجاہے دیگر جماعتیں اور این جی اوز بھی آگے آرہی ہیں بحریہ ٹاوٴن کے ملک ریاض نے زلزلہ متاثرین اور سیلاب متاثرین کی طرح تھر کے متاثرہ عوام کو خدمت اور امداد کیلئے آگے بڑھ کر اپنا حصہ بھی ڈالاہے ان کا اقدام یقینا قابل ستائش ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Sehrai e Thar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 March 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.