18 ویں شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن سربراہی کانفرنس

18 ویں شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن سربراہی کانفرنس "شنگھائی سپرٹ " شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کے لئے مشترکہ مستقبل کے ساتھ کمیونٹی کی تعمیر میں مدد کرتی ہے

ہفتہ 9 جون 2018

shanghai ko operation organization sarbarahi conference
چین میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او ) کے رکن ممالک کا 18 واں سربراہی اجلاس اس کے رہنما اصول "شنگھائی سپرٹ " پر عملدرآمد اور رکن ممالک کے مابین مشترکہ خوشحالی وسلامتی کے امکانات میںمزید پیشرفت کے جذبے کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ سربراہی کانفرنس میں روس اور چین کے سربرہان سمیت قازقستان، کرغیزستان، پاکستان ،بھارت ،ازبکستان اور تاجکستان کے سربراہ شرکت کر رہے ہیں ۔

9 اور 10 جون کوچین میں شینڈانگ صوبہ کی مشرقی بندرگاہ اور سیاحتی مقام قنگڈاؤ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میںسیاسی و معاشی شعبوں میں تعاون ، علاقائی سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کیلئے تبادلہ خیال ہو گا۔ علاقائی سیکورٹی کے مسائل سے نمٹنے کے ابتدائی مقصد کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیادتقریباً 17 سال قبل چین ہی میں رکھی گئی تھی ۔

(جاری ہے)

عوامی جمہوریہ چین کی اس کامیاب کوشش کے نتیجے میں اس وقت اس کے باقاعدہ 8 رکن ممالک کے علاوہ اس کے آبزرور ممالک میں افغانستان، بیلا روس ،ایران اور منگولیا سمیت ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر آرمینیا، آذربائیجان،کمبوڈیا ،نیپال ،ترکی اور سری لنکا بھی شامل چلے آ رہے ہیں۔شنگھائی سپرٹ سے وابستگی
آج کی دنیا میں جہاں تبدیلیاں تیزی سے رونُماہو رہی ہیں اور غیر یقینی صورتحال بڑھتی جارہی ہیں، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو تنظیم کے رہنماء اصولوں جو "شنگھائی سپرٹ " کے نام سے مشہور ہیں کی ضرورت کا شدت سے احساس ہواہے۔

شنگھائی سپرٹ مختلف ثقافتوں میں میل جول ، مشترکہ ترقی کے لئے باہمی اعتماد، مشاورت اور مساوات کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے احترام کی خصوصیات کا نام ہے۔
تنطیم کے رکن ممالک میں سربراہی اجلاس کے علاوہ وزراء اور دیگر کئی سطح کے اجلاس بھی مختلف اوقات میں جاری رہتے ہیں۔ گزشتہ اپریل میں ایس سی او کے رکن ممالک کے وزراء خارجہ کے ایک گروپ کے اجلاس میں، چین کے صدر ژی جن پنگ نے خطاب کیا ۔

جس میں واضح کیا گیا کہ رکن ممالک اپنی حقیقی خواہشات کے ساتھ مخلص رہتے ہوئے شنگھائی سپرٹ کے تحت ہر قسم کے تعاون کیلئے تنظیم کی تمام ممکنہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔آستانہ قازقستان میں 2017 کے سربراہی اجلاس میں پاکستان اور بھارت کواس تنظیم کا بیک وقت مکمل رکن بنا لیا گیا ہے۔ ایس سی او نے آبزرور سے اگلے درجے میں مکمل رکنیت حاصل ہونے پر بھارت اور پاکستان کا اپنے نئے اراکین کے طور پر بھر پور خیر مقدم کیاہے۔

آٹھ باقاعدہ اراکین، چار مبصر ممالک اور چھ مذاکراتی شراکت داروںکے ساتھ، اب یہ تنظیم یورپی یونین کے 60 فی صد سے زائد خطہ ، دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور عالمی مجموعی مصنوعات کی 20 فیصد سے زیادہ کا احاطہ کررہی ہے۔
صدر ژی جن پنگ نے کہاکہ چین ، سیاسی طور پر ایک دوسرے کی حمایت کرنے ، علاقائی سیکورٹی اور استحکام کو برقرار رکھنے ،بتدریج علاقائی اقتصادی تعاون کے ادارے کے انتظامات قائم کرنے اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلہ خیال اور ثقافتی تعاون کو بڑھانے کے لئے دیگر رکن ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے ۔


وزراء خارجہ کے اجلاس کے دوران بھی چین کی سٹیٹ کونسل کے رکن اور وزیر خارجہ وانگ یی نے شنگھائی سپرٹ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بنیادی مقصد کے تحت شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور استحکام بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے ۔انہوں نے آئندہ سربراہی اجلاس کو شنگھائی سپرٹ کا جائزہ لینے ،یکجہتی، باہمی اعتماد اور تمام تر تعاون کو فروغ دینے اور ایک مشترکہ مستقبل کے لئے ساتھ مل کر کمیونٹی کو فروغ دینے کا ایک موقع قرار دیا ہے۔

فار ایسٹ انسٹی ٹیوٹ آف رشین اکیڈمی آف سائنسز کے ایک جیوپولیٹکس ماہر اناتولی کلیمینکو نے کہا کہ عالمی معاملات کو طے کرنے کے لئے "کثیر المقاصدحل کی ضرورت بالکل واضح ہے۔"
انہوں نے کہا، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں چینی لوگ مذاکرات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کلیمینکو نے کہا کہ "اس میں یکطرفہ رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"
ایس سی او کے اندر علاقائی اقتصادی تعاون کے ادارے کے قیام کے لئے اکیونگ ژی نے کہا، ماہر ین کی تجویزہے کہ بلاشبہ بعض فیصلے سیاست، معیشت، دفاع اور انسانی حقوق کے مسائل سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنے کے قابل عمل طرقہ کار وضع کرتے ہیں۔

"ابتدائی طور پر، ایس سی او کو بعض مسائل کے بارے میں بات چیت کے لئے کلب کی شان سمجھا جاتا تھا۔" انہوں نے مزید کہا کہ اس تصور کوروسی اور چینی سکالروں نے مل کر "سائنسی نہج" دی ہے، جس کیلئے انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کو از سر نو ڈھانچہے پر استوار کرنے پر توجہ مرکوز کی تاکہ حتمی شکل دے کر اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جا سکے۔"
سلامتی اور استحکام کا احساس تحفظ
اگرچہ ایس سی او میں تعاون کے اجزاء میں معاشی تعاون کو فروغ دینے اور رکن ممالک کے عام شہریوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے، علاقائی سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے اور دفاعی تعاون کے فروغ کو بڑھانا سلامتی کے مشن کا ایک اہم ستون بھی شامل ہے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے قیام سے، ایس سی او نے علاقائی سلامتی اور استحکام کو ترجیح دی ہے، اور ترقی و سیکورٹی تعاون کے لئے اس کی تنظیم میں مزید صلاحیت پیدا کی جا رہی۔ اسی اثنامیں، شنگھائی تعاون تنظیم مزید ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے گی اور ہمارے خطے کے لوگوںکے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کی توقعات پر پورا اترے گی۔
چین کے صدرژی جن پنگ نے گزشتہ منگل بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سینئر سیکیورٹی حکام کو بتایا ہے کہ "دہشت گردی، انتہا پسندی ، علیحدگی پسند رجحانات، منشیات کی اسمگلنگ اور ملکوں کے درمیان منظم جرائم "تین تخریبی افواج "کی طرف سے دنیا کو درپیش ایسے خطرات ہیں جن کا انتہائی حاضر دماغی سے مشتعل ہوئے بغیر درست اور مناسب طریقے سے جواب دینا ہو گا۔


انسداد دہشت گردی کمیٹی کے ڈائریکٹر Yevgeniy Sysoevنے کہا، 2013 اور 2017 کے درمیان، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے مل کر جنگی جرائم کے 600 سے زائد دہشتگردی کے واقعات ناکام بنائے ہیں، مسلح عسکریت پسندوں کے 500 سے زائد تربیتی اڈے تباہ کئے ہیں، بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں کے 2,000 ارکان کو گرفتار کیا اور 1,000 خود ساختہ دھماکہ خیز مواد ضبط کئے گئے، جس میں50 ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد، 10 ہزار سے زائد بندوقیں اور 1 ملین گولیاں بھی شامل ہیں۔


مئی کے آغاز میں Xinhua کے ساتھ تفصیلی انٹرویو میں Sysoev نے یہ بھی بتایا کہ ایس سی او کے رکن ممالک نے 2016 ء اور 2017 کے درمیان 100,000 سے زائد ویب سائٹس کو بند کردیا ہے۔اہلکار نے بتایا کہ ان ویب سائٹس پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی معاون 4 ملین سے زائد معلومات شائع کی گئیں تھیں۔
بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے، شنگھائی تعاون تنظیم کو جس چیلنج کا سامنا ہے ان میں سے ایک اسلامی ریاست (آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھنا ہے جو شام اور عراق میں انتہاپسند گروپ کی شکست کے بعد، اپنے آبائی ممالک میں واپس آ گئے ہیں، جن میں سے بعض شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان یا مبصرملک ہیں۔


کلیمینکو نے کہا، ایس سی اوکو "خاص طورپر اپنے شراکت داروںکا دفاع کرنے کے قابل ہونا چاہئے ،کیونکہ صورتحال بہت زیادہ پیچیدہ ہورہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ہماری طرف سے افغانستان میں ، جس میں آئی ایس عسکریت پسند مشرق وسطی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ایس سی او کی سرحدوں کے قریب ملک کے شمال کی طرف توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ جبکہ" افغانستان 2012 میں ایس سی او کا مبصر ملک بن چکاہے۔


کلیمینکو نے کہا کہ کئی فوجی مشقیں منعقد کی جا رہی ہیںجیسا کہ باہمی پیسفک مشن مشقیں جو شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر ایک کثیر جہتی بنیاد پر منعقد کی جاتی ہیں، "تمام عسکری نفری اپنے آپ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے علاقوں کی حفاظت کے لئے خود کو تیار کر رہی ہے۔"
اقتصادی تعاون کیلئے بیلٹ اینڈ روڈ شروعات
سترہ سالوں میں، اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم نوجوانی میں داخل ہو چکی ہے۔

بلوغت کا یہ عمل معاشی تعاون میں مشغول اور مشترکہ خوشحالی کااحساس لئے تمام رکن ممالک کے اتفاق رائے سے سلامتی کے حل کی طرف بڑھ رہاہے، جو ہر سال مضبوط ہو رہا ہے۔
نتیجہ حاصل کرنے کے لئے، بیلٹ اور روڈ انشی ایٹو(بی آر آئی) ایس سی او کے اقتصادی طول و عرض کے لئے ایک اہم ممکنہ پلیٹ فارم بن گیا ہے۔2013 میں چین نے تجویز کیا کہ BRI کا مقصد دنیا بھر میں انٹرکنیکٹوٹی کو بہتر بنانے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے عالمی تجارتی روابط کو فروغ دیناہے ۔


بی آر آئی کا پورا نام سلک روڈ اقتصادی بیلٹ اور 21 ویں صدی Maritimeسلک روڈ ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فریم ورک زمین پر مبنی جزو ہے جو قدیم سلک روڈ کے ساتھ ساتھ سمندر ی راستے پر واقع ہے جو پیسفک اور بھارتی سمندر کوملاتا ہے۔ مشترکہ، یورپ اور افریقہ کے ساتھ ایشیا کے دو حصے منسلک ہونے کی امید ہے۔
بی آر آئی پر معاشی تعاون کو مضبوط بنانے کے خاص اثرات یہ ہیں کہ تنظیم میں شامل تمام جماعتیں یوریشین براعظم پر واقع ہیں، اور ایس سی او کے رکن ممالک سے متعلق منصوبے BRI فریم ورک میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

shanghai ko operation organization sarbarahi conference is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 June 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.