
شعبہ تعلیم پر توجہ لازم ہے۔۔۔!
ہمارے ہاں شعبہ تعلیم سے متعلق معاملات اکثر زیر بحث آتے رہتے ہیں۔ مگر اس بار سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد نے اس جانب توجہ دلائی ہے
ڈاکٹر لبنی ظہیر
پیر 15 اپریل 2019

(جاری ہے)
اعلیٰ تعلیم تو رہی ایک طرف، اسکول ایجوکیشن کا حال بھی انتہائی ابتر ہے۔
قیام پاکستان کو ستر برس بیت چکے ہیں، مگر تاحال ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ ہر چند سال بعدحکومتی سطح پر نئے نئے منصوبے متعارف ہوتے ہیں، کروڑوں ا ربوں روپے کا بجٹ مختص ہو تا ہے۔ اس بجٹ کا بیشتر حصہ خرچ بھی ہو جاتا ہے مگر نتیجہ صفر ۔ نہایت روائتی سی بات ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ تعلیم کبھی بھی ہماری اولیں ترجیح نہیں رہی۔کہنے کی حد تک ہر حکومت اور سیاسی جماعت شعبہ تعلیم کی اصلاح احوال کو اپنی ترجیح اول قرار دیتی ہے۔ اس ضمن میں بلند بانگ وعدے کیے جاتے ہیں۔ مگرجب عملی اقدامات کرنے کا وقت آتا ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں۔تحریک انصاف کے جماعتی اور انتخابی منشور میں تعلیمی اصلاحات کا ذکر خاص طور پر موجودہے۔عمران خان بر سر اقتدار آئے تو امید بندھی تھی کہ تعلیمی معاملات میں بہتری آئے گی۔ اس حکومت کے قیام کو ایک سال ہونے والا ہے، تاہم ابھی تک اچھی خبریں سننے کو نہیں ملیں۔ اگر صرف گزشتہ دو ہفتوں کے اخبارات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی معاملات مشکلات کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر کئی ماہ سے اسلام آباد میں سات سو سے زائد بے روزگار پی۔ایچ۔ دی ڈگری ہولڈرز سراپا احتجاج ہیں۔ مگر انکی شنوائی نہیں ہو رہی۔ لاہور میں صوبے بھر کے کالج اساتذہ دھرنا دئیے بیٹھے ہیں، مگر انکے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ کراچی میں سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں اور جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں سرکاری ایجنسی نے 21000 گھوسٹ طالب علموں اور درجنوں گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف کیاہے۔ یاد رہے کہ ان اسکولوں اور طالب علموں پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت کیلئے دی جانے والی گرانٹ بند کر دی ہے۔صوبائی حکومت نے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کو دئیے جانے والے فنڈز روک دئیے ہیں۔ یہ صرف چند تازہ خبریں ہیں۔ ایسی خبروں اور حالات کیساتھ شعبہ تعلیم میں بہتری کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے؟
یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ تعلیم کے شعبہ پر فوری توجہ مرکوز کی جائے اور اس میں بہتری لائی جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم کی سربراہی شفقت محمود جیسے پڑھے لکھے شخص کے ہاتھ میں ہے۔ پنجاب میں تعلیم کی دونوں وزارتیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے پاس ہیں۔وفاقی سطح پر ایک ٹاسک فورس بھی قائم کر دی گئی ہے جو ملک بھر میں تعلیمی اصلاحات کیلئے کام کرئے گی۔ ا ب جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ہمیں تعلیم کی ابتر صورتحال کی جانب توجہ دلائی ہے اور حکومت سے جواب طلب کیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں بہتری لانے کیلئے فوری اقدامات ہوتے نظر آئیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنا چاہتے ہیں، تو شعبہ تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانا ہو گا اور خاص طور پر معیار تعلیم کی بہتری کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہونگے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Shoba e Taleem Per Tawaja Dain is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 April 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.