تجارتی خسارہ پر قابو پانے کیلئے اقدامات کی ضرورت

سال 2017ء میں تجارتی خسارہ قومی معیشت کے لئے انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ گیس بجلی کے بحران، قیمتوں میں اضافے اور پیداوار کی بڑھتی لاگت کے رجحان نے صنعتی عمل کو ابتر بنا دیا ہے۔

منگل 16 جنوری 2018

Tijarti Khasay Per Qabu Panay Kay Liay Iqdamat Ki Zaroorat
رانا زاہد اقبال :
سال 2017ء میں تجارتی خسارہ قومی معیشت کے لئے انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ گیس بجلی کے بحران، قیمتوں میں اضافے اور پیداوار کی بڑھتی لاگت کے رجحان نے صنعتی عمل کو ابتر بنا دیا ہے۔ 2016-17کا تجارتی خسارہ 32.49 ارب ڈالرجب کہ جولائی سے اکتوبر 2017ء کے چار ماہ کا تجارتی خسارہ 12.129ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے ، جو پچھلے سال کے اسی عرصہ میں 9.242ارب ڈالر تھا۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں مالی خسارہ کس تیزی سے بڑھا ہے۔گزشتہ سال میں تیل کی قیمت میں بھی تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتے پیداواری اخراجات کے باعث پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں اپنی برآمدات کو بڑھانے کے سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اگرچہ دسمبر 2017ء میں ڈالر بھی مہنگا ہوا ہے مگر برآمدات پر اس کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں پہلے ہی ہزاروں فیکٹریاں بند ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے برآمدکنند گان کو برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کے برآمدی آرڈرز بنگلہ دیش، چین اور دیگر ممالک کو منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر ملک کی معاشی کیفیت پر نظر دوڑائی جائے تو گزشتہ چار برسوں میں ملکی معیشت مشکلات کا شکارہے۔

موجودہ دورِ حکومت میں بیرونی قرضوں کا حجم برق رفتاری سے وسیع ہوا ہے۔ جون 2007ء تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 40ارب ڈالر تھا جس میں دسمبر 2011ء تک 21ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور 2017ء تک 80 ارب ڈالر ہو گئے، اسی طرح اندرونی قرضے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اندرونی و بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ معاشی نمو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 29دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران پاکستان کے پاس موجود غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان ہے اور یہ 20ارب 15کروڑ 43لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔

موجودہ دورِ حکومت میں اندرونی و بیرونی قرضوں کے حجم میں غیر معمولی اضافے نے ملکی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کئے ہیں۔حکومت نے سال 2018ء کے لئے ایکسپورٹ کا ٹارگٹ 35 بلین ڈالر مقرر کر رکھا ہے۔ بے تحاشا مشکلات اور مسائل کی بناء پر پچھلے مالی سال کا ٹارگٹ بھی پورا نہیں کیا جا سکا اس حوالے سے 35بلین ڈالر کا ٹارگٹ ایک مشکل ہدف ہے جس کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کے نجی شعبے کو موزوں ماحول مہیا کرنا ہو گا۔

برآمدات کے فروغ کے لئے روایتی منڈیوں کے علاوہ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جانی چاہئیں اور ان کی ضروریات کے مطابق ایسی نئی مصنوعات بھی متعارف کرائی جائیں جن کی عالمی مارکیٹ میں مانگ ہے۔ اگر غور کریں تو ہماری برآمدات کا بیشتر انحصار کاٹن پراڈکٹس، سنتھیٹک ٹیکسٹائل، چاول اور کھیلوں کے سامان پر رہا ہے جب کہ ہماری زیادہ تر ایکسپورٹ بھی محدود ملکوں کو ہے اور جیسے ہی کہیں سے ہمارے آرڈر منسوخ ہوتے ہیں ہمیں بیرونی ادئیگیوں کے لئے مشکل پیش آ جاتی ہے۔

پاکستانی برآمدات کے چند ممالک اور چند مصنوعات پر انحصار نے ہماری معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ساری دنیا ہمارے سامنے کھلی پڑی ہے اور اگر ہم افریقی ممالک کو صرف پنکھے برآمد کرنے شروع کر دیں تو ان کی ڈیمانڈ ختم نہ ہو۔ لیکن نئی منڈیوں کی تلاش اور سرکاری سطح پر پاکستانی مصنوعات کی مارکیٹنگ کا فقدان ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ نمائشیں اور تجارتی میلے بھی برآمدات کے فروغ میں انتہائی اہم کرادر ادا کرتے ہیں۔

مغربی ممالک میں سالانہ سینکڑوں کی تعداد میں نمائشیں اور تجارتی میلے منعقد ہوتے ہیں جن میں ہر سال لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں۔ تجارتی خسارے میں کمی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور جہاں ضروری ہو اس پر پابندی بھی عائد کی جائے۔ لیکن اس کے برعکس گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت کی جانب سے 35اشیاء کی درآمد پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں 5سے20فیصد تک کمی کر دی گئی ہے جب کہ ائیر کنڈیشنر، مائیکرو ویو اوون، پی ڈی پی، ایل سی ڈی، ایل ای ڈی ٹی وی سمیت دیگر ہوم اپلائنسز کی سی کے ڈی کنڈیشن میں درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔

اس وقت پاکستان کی مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھتی جا رہی ہے، پیداواری لاگت میں کمی کے لئے سستے داموں گیس و بجلی کی فراہمی، ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ، بیرونی ممالک میں پاکستانی مصنوعات کی نمائشوں کا اہتمام، درآمدی تاجروں کے غیر ملکی دورے اور سفارتخانوں میں کمرشل اتاشیوں کی تعیناتی میں کاروباری طبقے سے مشاورت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خام درآمدی مال پر ڈیوٹی میں کمی لا کر مصنوعات کی پیداواری لاگت کو مناسب سطح پر لایا جائے۔ اس طرح عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات اپنے لئے جگہ پیدا کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری درآمدات پر پابندی سے بھی تجارتی خسارے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تجارتی خسارے کو کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کاروباری طبقوں سے مشاورت کو یقینی بنائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tijarti Khasay Per Qabu Panay Kay Liay Iqdamat Ki Zaroorat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.