ویلنٹائن ڈے نہیں میرج ڈے!

ہمیں محبت کا دشمن بننے کی بجائے اس کا مبلغ بننا ہو گا اور سمت کو درست کرنا ہوگا ۔پہلے یہ سمجھیں یہ ویلنٹائن ڈے ہے کیا

Akhtar Sardar Chaudhry اختر سردارچودھری منگل 12 فروری 2019

valentine day nahi marriage day
ہمارے ہاں اکثر جو تضادات پائے جاتے ہیں ایسے ہی تضادات ویلنٹائن ڈے جسے محبت کا دن کہا جاتا ہے کے منانے یا نہ منانے کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں ۔میری بات سے آپ مکمل طور پر اختلاف کر سکتے ہیں ۔لیکن اسے آپ رد نہیں کر سکتے ۔ہم ایک کنفیوزڈ قوم ہیں ۔تضادات سے بھرے ہوئے ۔یہ تضادات اوپر سے نیچے تک ہیں ۔ہمارے ملک کے ایک عام فرد سے لے کر مذہبی و سیاسی رہنماؤں کی اکثریت اس کا شکار ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی ،لسانی،سیاسی ،ذات پات اور علاقائی تعصبات پائے جاتے ہیں ۔ اختلاف نہیں ہم مخالفت کے قائل ہیں ۔سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا لازم ہے کہ جب تک کوئی اپنی غلطی تسلیم نہ کرے اس کی اصلاح ممکن نہیں ہوتی ۔ایسے ہی ہمیں مان لینا چاہیے ہماری قوم قول و فعل میں تضادات کی بیماری کا شکار ہو چکی ہے ۔

(جاری ہے)

اور وہ اس سے نکلنا بھی نہیں چاہتی۔

اب آپ اس ویلنٹائن ڈے کو ہی لے لیں ایک طرف اسے محبت کا دن کہا جاتا ہے دوسری طرف اسے منانے پر پابندی ہے ۔ ایک طرف اس دن کومنانے کا جذبہ نوجوانوں میں بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف مخالفت میں بھی شدت آ رہی ہے ۔
ایک طرف ہمارا سارا ادب محبت سے بھرا پڑا ہے دوسری طرف ہم محبت سے نفرت کرتے ہیں ۔ایک طرف ہم بچوں کو آغاز شباب سے ہیر رانجھا ،لیلی مجنوں ،سسی پنوں ،مرزا صاحباں کی کہانیاں سناتے ہیں ۔

کیدو کو ولن بنا کر پیش کرتے ہیں دوسری طرف ہم سب کیدو بن جاتے ہیں ۔ ایک طرف ہم چاہتے ہیں کہ ہم ویلنٹائن ڈے منائیں دوسری طرف ہم چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا نہ منائے ۔
ایک طرف ہم ویلنٹائن ڈے کے پروگرامز کو شوق سے دیکھتے ہیں دوسری طرف ہم اس سے خائف ہیں ۔جس کام میں پیسہ زیادہ ہو، ہمارا میڈیا خوب شوق سے پیش کرتاہے مقصد ریٹنگ ہوتا ہے ۔ویلنٹائن ڈے سے کافی دن پہلے ہی ٹی وی پر شو زکا اہتمام شروع ہو جاتا ہے۔

کچھ لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کے حق میں کچھ مخالفت میں بولتے ہیں ۔ بحث چلتی ہے، ریٹنگ بڑھتی ہے ۔ریٹنگ کا دور ہے۔اگر ہم اس دن کے منانے کے مخالف ہیں تو ان پروگرامز کو نہ دیکھیں ،ریٹنگ کم ہو گی تو ایسے پروگرامز کم ہو جائیں گے ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے ساٹھ فیصد آبادی کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہیں ۔

ہمیں ان کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ہم تربیت سے زیادہ تعلیم پر زور دیتے ہیں ۔تو کیسے ممکن ہے کہ اس تضاد کیفیات سے پل کر جوان ہوتے بچے تضادات کا شکار نہ ہوں گے ۔
ایک بات اور جو اس کی بنیاد ہے وہ ہے کہ ہم ابھی تک طے نہیں کر پائے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم شخصیت پرست ہیں ۔ہمارے پاس مستند پیمانہ قرآن و حدیث ﷺ ہے۔

غلط اور درست کو ناپنے کا جاننے کا لیکن اس کی بجائے ہم شخصیت پرستی کی وجہ سے فرقوں میں بٹ گئے ہیں ۔ایک فرقہ حق میں تو دوسرا مخالفت میں ہوتا ہے ۔ہم نے خود ہی اپنے نوجوانوں کو کنفیوزڈ کیا ہوا ہے ۔سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہے کہ غلط کیا ہے اور پھر درست سمت کا تعین کرنا ہوگا ۔اس کے بعد اس کے مطابق ہمیں اپنا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا ۔
اگر آپ ویلنٹائن ڈے کو برا ئی سمجھتے ہیں تو میڈیا پر پہلے اس بارے پروگرام بند کرنا ہوں گے ۔

اگر ہم اسے محبت کا دن کہیں گے تو محبت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس کی تاریخ گواہ ہے ۔ ابھی تک ہم تو یہ طے نہ کر پائے کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ ۔کیوں ہوتی ہے ؟۔جب ہم بچوں کو پڑھائیں گے کہ محبت انسان کاایک بنیادی اور فطری جذبہ ہے۔ خدا اور بندے، اولاد اور والدین، دوست اور اقربا کے رشتوں کی ساری خوبصورتی اسی جذبہ کی مرہون منت ہے ۔تو پھر ویلنٹائن ڈے پر کیسے پابندی عائد کر سکتے ہیں ۔

کیا نام بدل سے اظہار بدل جاتے ہیں ۔ یقین کریں جب آپ گہرائی سے سوچیں گے تو کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہو جائے گا ۔اس دن کے منانے اور نہ منانے کا جھگڑا یوں ہی جاری رہے گا ۔
محبت تو ہمارے معاشرے میں صدیوں سے کی جاتی رہی ہے ۔کوئی ڈراما ،کوئی لوک کہانی ،کوئی فلم ،کوئی محفل اسے برا خیال نہیں کرتی ۔جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔

اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے دیا گیا ہے۔ویلنٹائن ڈے منانے کا رواج نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ 
اللہ نے محبت کا جذبہ ہر انسان کی سرشت میں رکھا ۔اس کے کچھ اصول و قواعد بنائے اور اپنے انبیاء کے ذریعے مخلوق تک پہنچائے ۔

اسی محبت کو دوام بخشنے کے لیے جنس کی کشش رکھی گئی اور نکاح کے ذریعے تحفظ عطا فرمایا ۔اب نکاح کے بغیر عورت و مرد کے ملاپ کو محبت کہنا ایسے ہی ہے جیسے زنا کی غلاظت کو پرموٹ کرنا ہو ۔اور آج یہ ہی کام ہوس کے پچاریوں کی طرف سے محبت کا نام دے کر کیا جاتا ہے ۔ہماری ثقافت پر یہ مغرب کا حملہ ہے ۔ اس نے محبت کے پاکیزہ تعلق کو شہوت کی غلاظت سے داغ دار کردیا ہے۔

ہماری ثقافت نہ محبت سے نفرت کرتی ہے اور نہ ہی ہمارا اسلام اس سے روکتا ہے ۔لیکن اس کے کچھ قانون ہیں کچھ اصول ہیں ان کی پاسداری ہم پر لازم ہے ۔ہمیں محبت کا دشمن بننے کی بجائے اس کا مبلغ بننا ہو گا اور سمت کو درست کرنا ہوگا ۔پہلے یہ سمجھیں یہ ویلنٹائن ڈے ہے کیا ۔
ویلنٹائن ایک نوجوان پادری تھا،جسے سن 270 میں شہید ِ محبت کر دیا گیا تھا۔

کہتے ہیں مارکس آرے لئیس سن 270 میں روم کا شہنشاہ تھا۔ شہنشاہ کو اپنی فوج میں اضافے کیلئے فوری طور پر افرادی قوت کی ضرورت پڑ گئی۔ سو اس نے اپنے ہرنمائندے ملک میں پھیلا دئیے تاکہ وہ اس کیلئے کنوارے نوجوانوں کو بھرتی کر سکیں۔رومی نوجوانوں نے شادیاں کرنا شروع کر دیں ۔اطلاع شہنشاہ کو پہنچی تو اس نے شادیوں پر پابندی نافذ کر دی۔ ویلنٹائن تو دوسروں کی شادیاں کروایا کرتا تھا ۔

اس وجہ سے اسے 14 فروری کو پھانسی دے دی گئی ۔شادی کروانا تو ثواب کا کام ہے حکومت کو چاہیے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس سے ویلنٹائن ڈے کو میرج ڈے قرار دیا جائے ۔اور اس دن کو منانے والوں کی شادی کردی جائے ۔اور یہ شادی سخت شرائط پر ہو ۔ویلنٹائن ڈے کو عیاشی کے لئے جو استعمال کر رہے ہیں ان کا یہ ہی حل ہے ۔کیونکہ ویلنٹائن جس کے نام پر یہ دن منایا جاتا ہے جوڑوں کی شادیاں کروایا کرتا تھا ۔شادی کا مطلب بھی خوشی ہے۔ یہ خوشی کا دن کہیں یا محبت کا دن کہیں ۔اگر ہمارا معاشرہ مغرب کی طرز پر ویلنٹائن ڈے منانے کا خاتمہ چاہتا ہے تو اسے شادیوں کا دن بنا دیں ۔اس دن دھوم دھام سے شادیاں کی جائیں یعنی ویلنٹائن ڈے کو میرج ڈے بنا دیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

valentine day nahi marriage day is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 February 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.