
ضرب عضب کے 2سال اور سیاسی حکومتوں کی ذمہ داریاں
سوائے پاکستان کے دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں دو سال سے کم عرصے کے دوران دہشت گردی کے جن پر قابو پا لیا گیا ہو۔ سری لنکا میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے کئی سال لگے حتیٰ کے وہاں باغیوں کا قلع قمع کرنے میں بھی پاکستان کی افواج کا ہی ہاتھ تھا
جمعہ 24 جون 2016

سوائے پاکستان کے دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں دو سال سے کم عرصے کے دوران دہشت گردی کے جن پر قابو پا لیا گیا ہو۔ سری لنکا میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے کئی سال لگے حتیٰ کے وہاں باغیوں کا قلع قمع کرنے میں بھی پاکستان کی افواج کا ہی ہاتھ تھا۔ اسی طرح عراق، شام اور کئی دیگر ممالک میں وہاں کی افواج آج بھی دہشت گردی کی جنگ سے نبرد آزما ہیں لیکن پاکستان کی افواج نے مختصر عرصے میں ملک بھر سے 90فیصد دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس آپریشن کے دوران ملک دشمن دہشت گردوں نے ردعمل کے طور پر نیول ڈاکیارڈ کراچی ، واہگہ بارڈر لاہور‘ ملٹری پبلک سکول پشاور اور سانحہ صفورا، کراچی میں اسماعیلی برادری اور صوبائی وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ کی شہادت اور بڈھ بیر پشاور میں پاک فضائیہ کے ائیر بیس پر حملے سے دہشت گردی کی بزدلانہ وارداتیں کیں، لیکن پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب بلاامتیاز جاری رکھا۔
(جاری ہے)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سالمیت کا مسئلہ ہو یا دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہر موقع اور ہرمحاذ میں الحمد للہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے اپنی بہادری کی مثالیں رقم کی ہیں، آپریشن ضرب عضب کے دوسال مکمل ہونے پرڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ملک سے دہشتگردوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے آج ہی کے دن وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں اب تک 500 کے قریب فوجی جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ 3500 کے قریب دہشت گرد اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس جنگ میں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردوں نے اپنی وارداتوں میں وہ اسلحہ بھی استعمال کیا جو انہوں نے امریکی افواج سے چھینا تھا۔ اس کے علاوہ ہم نے 7500 اسلحہ ساز فیکٹریاں اور 992 پناہ گاہیں، 253 ٹن بارودی مواد، 2800 بارودی سرنگیں تباہ کر دی ہیں دہشت گردوں کے پاس موجود اتنی بھاری مقدار میں اسلحہ 15 سال تک لڑائی کے لیے کافی تھا جس کو دہشتگردوں کے ساتھ تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہم نے وزیرستان میں حکومتی رٹ قائم کر دی ہے، ہم نے 3600 مربع کلومیٹر کا علاقے کلیئر کرا لیا ہے اور اب ہم کومبنگ آپریشن شروع کر رہے ہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اگر دہشتگردوں کی جانب سے ردعمل کے طور پر کوئی کارروائی ہوئی تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر ایجنسی میں بلا تفریق آپریشن ہوا ہم نے وہاں پر موجود لشکر کی جڑیں اکھاڑ دیں اس ایکشن کے بعد خیبر ایجنسی سے دہشت گرد بھاگ کر افغانستان چلے گئے۔ اس آپریشن ضرب عضب میں بے شمار فوجی افسروں اور جوانوں نے لازوال قربانیاں دیں، دتا خیل اور مضافات کو کلیئر کیا۔
اگر دوبارہ ضرب عضب پر آیا جائے تو میرے خیال میں جو آپر یشن پاک فوج نے کیا اسے صوبائی حکومتوں نے یکسر نظر انداز کیے رکھا اور اپنے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے رہے۔ یہ کام درحقیقت سیاسی قیادتوں کا تھا جسے پاک فوج نے سرانجام دیا۔ فوج کی کامیابیوں میں ہمیں بلاشبہ کوئی شک نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر سیاسی قیادت صدق دل سے فوج کا ساتھ نہ دے تو یہ کامیابیاں وقتی ہو سکتی ہیں دیرپا نہیں۔ یہ صرف کوئی لکیر کھینچنے یا مٹانے کی بات نہیں بلکہ ان علاقوں کو ترقی کی اس نہج پر لانے کی بات ہے جہاں وہ باقی ملک کا حصہ لگیں۔ یہی وہ فیصلہ تھا جو کہ اس بار فوجی آپریشن ضربِ عضب کرتے ہوئے سوچا گیا تھا یعنی کہ فوج کا کام قبائلی علاقے، خاص کر شمالی وزیرستان، کو شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے خالی کروانا اور سیاسی حکومتوں کا کام وہاں ترقی کی بنیاد رکھنا تاکہ ظلم، تشدد، اور دہشتگردی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ قومی ایکشن پلان کے لیے کراچی سے خیبر تک اور خیبر سے پنجاب تک فوج اپنا بھرپور کام سرانجام دیتی رہی مگر سیاسی قیادتیں اس دوران دھرنے، جلسے، جلوسوں، کرپشن، دھاندلیوں اور پاناموں میں پھنسی رہی۔ اس وقت غور طلب بات یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کہ تحت بنائی گئی فاٹا اصلاحات کمیٹی نے بھی مشورہ دیا ہے کہ قبائلی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے اور ایف سی آر جیسے قوانین کو ختم کیا جائے لیکن ماننا پڑے گا کہ یہ تجویز بھوسے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔بھلا پاکستان جیسے ملک میں جہاں سرکاری بجٹ کا صرف 18 سے 20 فیصد حصہ سارے ملک کے لیے رہ جاتا ہے وہاں قبائلی علاقوں کو خاک ملے گا؟ معاملہ قانون کی عملداری، عدلیہ، تعلیم، صحت اور باقی انتظامی ڈھانچے کا ہے۔ ان علاقوں میں نہ ہی کوئی پروفیشنل کالج ہے نہ ہی کوئی یونیورسٹی۔ یہ وہ تمام کام ہیں جس کے لیے بہت رقم درکار ہے۔ مت بھولیں کہ ان حالات میں جیسے ہی فوجی آپریشن ختم ہوا اور فوج روانہ ہوئی تو دہشتگرد پھر در آئیں گے۔ آخر سرحد کے پار افغانستان اور اندرون ملک آنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Zarb e Azb K 2 Saal is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 June 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.