ہمارا تعلیمی نظام

پیر 6 جولائی 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

سر حکومت نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بچوں کو بغیر امتحان لئے پروموٹ کر کے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہے، وہ سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا اسے حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض تھا وہ اس وقت مجھے اپنا مسلئہ سنا کر حل پوچھ رہا تھا،
 میں نے عرض کیا کہ کیسے زیادتی کی ہے حکومت نے پروموٹ کر کے؟ اسکا کہنا تھا کہ حکومت امتحان لیتی ہمارا میرٹ بنتا ہمیں اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملتا لیکن اب سب کو پروموٹ کر دیا ہے لہٰذا ہمارے نمبر کم آئیں گے اور ہمیں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملے گا، میں نے سوال کیا تمہارے فرسٹ ائیر میں کتنے فیصد نمبر تھے اس نے فوراً کہا بیانوے فیصد، میں حیران ہوا اور اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ حکومت گزشتہ ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپکو نمبر دے گی لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں ہے،
اگر آپکے نمبرات کم بھی آتے ہیں تو آپکے پاس امپرو کرنے کا موقع ہوگا یا حکومت ایسا کوئی لائحہ عمل تیار کرے گی جس کی وجہ سے آپکو اچھی یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ مل جائے گا،
وہ میری بات سے مطمئن نا ہو سکا اس نے اجازت لی اور رخصت ہو گیا،
میرے لئے کئی سوالات چھوڑ گیا کہ یہ ہمارا تعلیمی معیار ہے کہ بچے صرف نمبروں کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں نمبر کم آنے پر خوف کا شکار ہو جاتے ہیں بار بار ڈویژن امپرو کرتے ہیں اپنی ہر ڈگری میں نوے فیصد نمبر لانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں،
دراصل اس میں بچے کا قصور نہیں ہوتا بچہ پیدا ہوتا ہے ماں باپ اسکے کزنز اور دوستوں کے ساتھ اسکا مقابلہ کرواتے نظر آتے ہیں اکثر ماں باپ بچے کو اس لئے ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کے بچے کی فرسٹ ڈویژن آئی ہے تمہاری تھرڈ ڈویژن کیوں آئی ہے,
بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے پرائمری یا مڈل تک جاتا ہے تو اساتذہ اسے ایک ہی بات کا لیکچر دیتے نظر آتے ہیں کہ صرف نمبر لینے ہیں جیسے مرضی کرو کم از کم اسی فیصد نمبر لینے ہیں،
آپ کبھی کسی پرائمری کلاس کے بچے کا بیگ اٹھا کر دیکھیے گا آپکو بچے سے زیادہ کتابوں کا وزن لگے گا،
ایک وقت تھا جب میٹرک میں 850 میں سے 550 نمبر لینے والا بچہ بڑا ذہین ہوتا تھا اور اب گزشتہ برس نہم جماعت کی ایک بچی نے 505 میں سے 504 نمبر لے کر سب کے منہ بند کر دیئے، نمبروں کی دوڑ میں بچے علم و ادب سے بہت دور نکل گئے ہیں تربیت کی شدید کمی ہے آج کے دور میں جس بچے کے ستر فیصد نمبر آجاتے ہیں اسے ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرتا اسے نکما کہا جاتا ہے، یورپ کے سکولوں میں گریڈ سسٹم رائج ہے اسی لئے وہاں کے بچے ذہنی معیار میں بہت بہتر ہیں ان میں حددرجہ خود اعتمادی پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں بچوں کو نمبروں کی دوڑ سے نکال کر حقیقی زندگی کی طرف لایا جاتا ہے،
لیکن ہمارے ہاں بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ پھر وہ کبھی ذہنی معیار اور تربیت میں اچھا نہیں بن پاتا اور اکثر بچے نفسیاتی پن کا شکار ہو جاتے ہیں، گزشتہ برس وزیر تعلیم پنجاب نے کہا تھا کہ 1100 میں سے 1092 نمبر کیسے آسکتے ہیں کوئی تو گڑ بڑ ہے کوئی تو مسلئہ ہے صاف ظاہر ہے بچوں کو رٹے لگوائے جا رہے ہیں انکو ٹو دی پوائنٹ یاد کروایا جاتا ہے وہ امتحان میں حرف بہ حرف لکھ آتے ہیں اور نوے فیصد نمبر حاصل کر لیتے ہیں،
مجھے سمجھ نہیں آتی وہ لوگ جنہوں نے زندگیوں میں انقلاب برپا کیا جن لوگوں نے قومیں بنائیں قائد اعظم، علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ ان لوگوں نے کبھی نوے فیصد نمبر نہیں لئے ان لوگوں نے کبھی ٹاپ نہیں کیا یہ ایوریج طالب علم رہے،
یاد رکھیں انسان کی اصل زندگی سکولوں`کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بعد شروع ہوتی ہے، انسان کا اصل امتحان سلیبس اور ڈگری نہیں، زندگی ہے اور امتحانوں میں ناکام ہونے والے اکثر بچے زندگی میں بہت کامیاب ہو جاتے ہیں، دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنی تعلیمی زندگی میں نارمل طالب علم تھے انہوں نے ہی دنیا میں انقلاب برپا کئے انہوں نے ہی دنیا میں کئی ایجادات کیں،
پچھلے دنوں میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں داخلہ لینا چاہتا تھا میں نے پوچھا کیوں آئی ٹی کی فیلڈ میں جانا چاہتے ہو اسکا جواب بڑا دلچسپ تھا وہ کہنے لگا در حقیقت میرا شوق اور رجحان صحافت کی طرف ہے، لیکن ماں باپ کے کہنے پر میں نے ایف ایس سی پری میڈیکل کی اور اب بڑے بھائی کے کہنے پر آئی ٹی میں جا رہا ہوں بھائی کا کہنا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا  بہت سکوپ ہے،
آپ ستم ظریفی دیکھیں بچے کا رجحان صحافت میں، والدین کے کہنے پر پری میڈیکل کیا اور اب سکوپ کا بول کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں دھکیلا جا رہا ہے او بھئی کیوں اتنا ظلم کر رہے ہو کیوں اس بچے کو ایک روبوٹ کی طرح استعمال کر رہے ہو کم از کم اس سے تو پوچھیں وہ کیا بننا چاہتا ہے؟
ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے بچے کا یہی مسلئہ ہے وہ خود کچھ اور بننا چاہتا ہے لیکن والدین سکوپ کے چکر میں اس پر زبردستی کرتے ہیں نتیجہ یا تو وہ بچہ باغی ہو جاتا ہے اور یا پھر وہ ساری زندگی اپنے کام سے خوش نہیں ہو پاتا،
ہمارے ہاں سب سے زیادہ تباہی لفظ "سکوپ" سے پھیلی ہے کسی دور میں بی کام ڈگری کا سکوپ کہا جاتا تھا ہر دوسرا بچہ بی کام کر رہا تھا آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سکوپ سن رہے ہیں خدا رحم کرے۔

(جاری ہے)

۔۔۔
یاد رکھیں اپنے بچے کو وقت دیں اس کے پاس بیٹھیں اس سے اسکا رجحان پوچھیں اسکا شوق پوچھیں اب ایک بچہ انجینئرنگ کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اسے زبردستی ڈاکٹر بنا رہے ہیں تو آپ ظلم کر رہے ہیں وہ کبھی ایک کامیاب ڈاکٹر نہیں بن سکے گا،
اگر آپکا بچہ فیل ہو جاتا ہے یا نمبر کم لاتا ہے تع ہاتھ میں ڈنڈا اٹھا کر نا کھڑے ہو جائیں بلکہ اس سے اسکا مسئلہ پوچھیں اسے کاؤنسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے اسے وقت دیں وہ خود کسی نتیجہ پر پہنچے نا کہ آپ اس کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کریں اور بچے کی زندگی خراب ہو جائے،
خدارا بچوں کو نمبروں کی ریس سے باہر نکالیں اسے ایک نارمل بچے کی طرح ٹریٹ کریں اسے سمجھائیں کہ یہ نمبرات یہ فرسٹ ڈویژن یہ نوے فیصد نمبر یہ سب بے معنی ہیں، اس میں خود اعتمادی پیدا کریں اسے غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف مائل کریں مسلم تاریخ کا مطالعہ ضرور کروائیں آپ یقین کریں آپکا بچہ پہلے سے بہت بہتر ہو جائے گا،
پھر آپ دیکھیے گا آپکا بچہ لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لائے گا وہ باقی بچوں سے بہت آگے چلا جائے گا آپکا نام روشن ہو گا آپکا بچہ دنیا میں اپنا نام پیدا کرے گا اور پھر ایک وقت آئے گا لوگ اسکا نام لے کر مثالیں دیا کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :