نئے سال کے میرے خواب

جمعرات 2 جنوری 2020

Abdul Rauf Khan

عبدالرؤف خاں

میں چاہتا ہوں اس نئے سال میں جتنی جنگیں جاری ہیں کوئی ایسا معجزہ ہو کہ وہاں پر امن کے پھول کھل اُٹھیں، وہاں کچھ ایسا ہوجائے کہ روتی اور سسکتی آنکھوں میں زندگی کی اُمید لوٹ آئے، اُداس چہروں پر مسکراہٹ آجائے اوردُنیا امن اور محبت کا گہوارہ بن جائے۔
اس نئے شروع ہونے والے سال میں میرے بھی کچھ خواب ہیں جنہیں میں چاہتاہوں کہ وہ ضرور پورے ہونے چاہیئے۔

میرا خواب ہے کہ اقوام متحدہ جس کے پاس لامحدود وسائل اور اختیارات ہیں، جس کے پاس بے پناہ طاقت ہے وہ کچھ ایسا کام کرے کہ جہاں انسان جنگ میں گھیرے ہوں، جہاں انسانوں کی جانوں کو خطرہ ہو تو اُنہیں فوری وہاں سے بحفاظت نکالے اور ایک ایسا نیا ملک آبادکرے جہاں پر صرف اقوام متحدہ کی حکومت ہو۔ جہاں انسانوں کے رہنے کے لیے بہترین بستیاں ہر سہولت سے آراستہ ہوں۔

(جاری ہے)

یہ ایسی جگہ ہونی چاہیے کہ جہاں امن ہو، جہاں انسان آزادی سے اپنے خاندانوں کے ساتھ پُرامن زندگی بسرکرسکیں۔میں یہ چاہتا ہوں کہ پوری دُنیا سے شدت پسندی کا خاتمہ ہو اور اقوام متحدہ کوایسے اقدامات عملی طور پر کرنے چاہیے کہ اسلحہ کی تجارت پر پابندی لگادینی چاہیے۔
 اقوام متحدہ کی ایک طاقت ور فوج ہونی چاہیے جو کسی بھی ملک کی دوسرے ملک پر جارحیت کی بنا پر فوری حرکت میں آئے اور جارح ملک کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردے۔

ایسی کارروائی طاقت ور ترین ممالک کے خلاف بھی ویسے ہی ہونی چاہیے کہ جیسے کہ غریب ممالک کے خلاف۔ اس سال میں انسانوں کو چاہیے کہ وہ مکالمے کو فروغ دیں مکالمہ ہوگا تونتیجہ امن کی صورت میں ہی نکلے گا۔
پاکستان اور ہندوستان بالکل اُسی طرح سے رہنے لگیں کہ جیسے قائد اعظم نے خواب دیکھا تھا کہ اس کی مثال امریکہ اور کینیڈا جیسی ہونی چاہیے۔

دونوں طرف کے شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور سارے بارڈر کھول دینے چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں۔دونوں ممالک کو چاہیے کہ سیاچن سے اپنی فوجیں خیرسگالی کے جزبے کے تحت نکال لیں اور عہد کریں کہ جتنے پیسے دونوں ممالک اس فضول جنگ میں خرچ کررہے ہیں وہ سارے پیسے اپنے اپنے ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے اور انسانی ترقی کے لیے وقف کردیں۔

دونوں ممالک کو اپنی طرف کے آباد کشمیر کے لوگوں کی بات سُننی چاہیے اور اُن کی منشا کے مطابق ایک فیصلہ کرنا چاہیے کہ جس سے علاقے میں امن بھی آجائے اور کشمیری بھی مطمئن ہوں۔
میرا یہ خواب ہے کہ پاکستان میں سارے بچے محفوظ ہوں۔ اس سال مجھے کسی زینب کا مسخ شدہ لاشہ نظر نہ آئے۔ یہ پھول اپنی ٹہنیوں پہ ہی اچھے لگتے ہیں۔ گھر ہو یا سکول، مدرسہ ہویا پارک ہمارے بچے ہر قسم کے بھیڑئیے نما انسانوں سے محفوظ رہیں اور ایک ایسی آزادی سے اپنی زندگی گزاریں کہ کوئی گرم ہوا بھی ان کے پاس سے نہ گُزرے۔

ماضی میں جو ہوا اُس کو بھول کر میں اُمید کرتا ہوں کہ اینٹی نارکوٹکس فورس ایسے اقدامات کرے گی کہ منشیات کی سمگلنگ کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ اس سال کسی بڑے سمگلر کو پکڑ کر اُسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر دکھائے۔ جو کام یہ ادارہ پچھلے بہترسال سے نہ کرسکا شاید اس نئے سال میں ہی کردکھائے کیونکہ خواب دیکھنے پہ تو کوئی پابندی نہیں ہے۔

میرا ملک نشے کی لعنت سے مکمل پاک ہو۔ یہاں کوئی منشیات فروش نظر نہ آئے۔ یہاں کوئی جوان نشے کے سگریٹ اور انجیکشن لگاتے نظر نہ آئیں۔
اس سال میں میرا یہ خواب ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اپنے آپ کو قانون اور آئین کے دائرہ اختیار میں خود ہی محدود کرلے اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا ادراک کرے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ حکومتیں تبدیل کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ ان کا کام وہی ہے جو بانی پاکستان قائد اعظم نے انہیں بتایا ہے اورانکی حدود کا تعین وہ خود کرکے گئے ہیں۔

میں چاہتا ہوں اس سال کوئی نیاآمر پیدا نہ ہو۔ اس ملک میں سب آئین اور قانون کو سُپریم مانیں اور اُسکے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیں۔ فوج سویلین لوگوں کو اپنے احتساب کی ذمہ داری سونپ دے تاکہ بے لاگ احتساب کی بُنیاد رکھی جاسکے۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ فوج اب دوسرے ممالک کی جنگیں لڑنا چھوڑ دے۔ ان جنگوں نے ہماری تہزیب، اخلاقیات، ہماری معیشت، ہماری قومی سوچ کو مسخ کرکے رکھ دیاہے۔

ان جنگوں کی وجہ سے یہ قوم بدترین ذہنی کرب میں مبتلا ہے۔
میرا یہ خواب ہے کہ اس سال ریاست پاکستان میں جس طرح سے اسلام آبادکے بسنے والے ایک شہری کو تمام حقوق حاصل ہیں بالکل ویسی ہی سہولتیں کچلاک بلوچستان، سندھ کے تھر اورشمالی وزیرستان کے ایک پاکستانی کوحاصل ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی شہریوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی کوئی تفریق نہ رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :