پیکچر ابھی باقی کے میرے دوست

پیر 15 جولائی 2019

Adil Hussain

عادل حسین

منظر بلکل بدل چکا تھا،کچھ بھی ویسا نہ رہا،سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا مگر ہمیں یقین نہیں آرہا تھا، یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہوں اور ایک دم سے آنکھ کھل جائے گی اور سب ایک محض افسانہ ہوگا، مگریہ خواب نہیں حقیقت میں ہو رہا تھا، بظاہر لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی اسکرپٹڈ فلم چل رہی ہو،ہم ہر اپڈیٹ کو بروقت رپورٹ کررہے تھے مگر تاحال ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے، شاید ہم بظاہر چیزوں کو دیکھتے تھے،پس منظر ہماری آنکھ سے اوجھل تھا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی عدالت سے ہم نے صبح سویرے سے رات کے اندھیرے تک رپورٹنگ کی ہے، گواہوں کے بیانات، شواہد، دلائل سب ہمارے سامنے ہوا تھا مگر جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو آنے کے بعد کے منظر نے مجھ سمیت بیشتر عدالتی نمائندوں کو حیرانگی کی کیفیت میں ڈال دیا تھا، سچ کہتے ہیں کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا اور صحافت میں جذبات نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)

احتساب عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر مہینوں چلنے والی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعتیں پل بھر میں کیسے بھول جائیں، پورے ٹرائل کو ویڈیو آنے کے بعد کیسے نظر انداز کردیں، بہت سارے سوالات تھے جو میرے ذہن میں وقتاََ فوقتاََ جنم لے رہے تھے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک جج کو اسلام آباد سے اٹھا کر لاہور لے جائیں اور تمام میڈیا اور ملکی ادارے سوتے رہیں، اتنی بڑی خبروں کا کسی کو کانو کان علم ہی نہ ہوا، بلکل ایسا ہی ہوا، جج ارشد ملک سے مل لیا جائے، شاید ان تمام ترچیزیں کو سمیٹا جا سکے مگر معاملات اتنے پھیل چکے تھے کہ ان کو با آسانی سمیٹنا مشکل تھا۔

جج ارشد ملک کی خدمات لاہو ہائی کورٹ کو واپس کرنے سے ایک دن قبل یعنی جمعرات کی دوپہر کو ہمیں عدالتی باوثوق زرائع نے بتایا کہ جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اسکینڈل پر کسی قیاس آرائیوں پر کان نہ دھرے جائیں، جب کچھ ہوگا تو ہم خودبتا دیں گے،اسی دن جج ارشد ملک نے ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سے ملاقات بھی کی،ذرائع نے ہمیں بتایا کی جج ارشد ملک سے قائم مقام چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماوں سے ملاقات کے بارے میں پوچھا جس پر جج ارشد ملک نے جواب دیاکہ دباؤ میں آکر ملاقات کی، ان سے کئی سوالات بھی کیے گئے یہ بھی پوچھا گیا کہ دباؤ تھا تو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا، جج ارشد
ملک کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔

اگلے ہی دن یعنی جمعہ کی صبح میرے موبائل پر پیغام آیا کہ بریکنگ ملنے والی ہے ہائی کورٹ پہنچیں، میں سوچنے لگا کہ کیا بریکنگ ہوسکتی ہے، ویڈیو پر انکوائری کا حکم دیا جائے گا یا جج ارشدملک کو برطرف کر دیا جائے گا، جج ارشد ملک بھی اپنے بیان حلفی کے ہمراہ ہائی کورٹ پہنچے اور رجسٹرار ہائی کورٹ کوبیان حلفی دیا جس کا قائم مقام چیف جسٹس ہائی کورٹ نے جائزہ لیا، جج ارشد ملک کی ویڈیو آنے کے بعد قائم مقام چیف جسٹس ہائی کورٹ سے دو ملاقاتیں اور اس بیان حلفی کا جائزہ لینے کے بعد انہیں بطور احتساب عدالت کے جج کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیااور پھر بغیر کسی قیاس آرائیوں کے سب نے مستند خبریں بریک کرنا شروع کردیں،مسلم لیگ ن کی طرح جمعہ جج ارشد ملک پر بھی بھاری پڑا، اسی دن جج ارشد ملک نے پانچ کیسز کی سماعت کرنا تھی۔

 ہائیکورٹ کی خبر سننے کے بعد تمام کیسز کی سماعت منسوخ کی اور چلتے بنے، مگر سوال اب بھی یہی ہے کہ اگر جج ارشدملک پر دباؤ تھا تو انہوں نے بتایا کیوں نہیں، اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ فاضل جج کو لاہور لے کر گئے ان کی ویڈیو بنائی گئی پھر بھی کسی کو کچھ خبر کیوں نہ ہوئی، کیا پورے ملک میں جاگنے والے سوئے ہوئے تھے، جج ارشد ملک کی سیکورٹی کیلئے رینجرز اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار تعینات تھے، ان کو لے جانے کی کانوں کان خبر ان کے حافظوں کو بھی نہ ہوئی؟ سولہ سالہ پرانی ویڈیو پر کمپرومائز کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں، جب بڑے بھائی سب کا ریکارڈ رکھتے ہیں تو جج صاحب کی ملتان والی ویڈیو سولہ سال تک بڑے بھائی کے پاس کیوں نہ آئی، کیا وہ ویڈیو صرف مسلم لیگ ن کے پاس ہوگی،شاید نہیں! جج ارشد ملک میگا منی لانڈرنگ کیسز کیساتھ ساتھ سابق وزرائے اعظم کیخلاف کیسز کی شنوائی بھی کرر رہے تھے، ریفرنسز پر ٹرائل باقاعدہ طور پر جاری تھے، احتساب عدالت میں اب جج ارشد ملک کے جانے سے صرف ایک جج محمد بشیر باقی رہ گئے ہیں، جبکے نیب آئے دن ریفرنسز فائل کر رہا ہے، احتساب کا عمل التوا کا شکار نہ ہو اس لیے جج ارشدملک کی جگہ وزارت قانون و انصاف کو ان کی جگہ پر تعیناتی جلد سے جلد کرنی چاہیئے، اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ احتساب عدالت اسلام آباد میں جعلی اکاونٹس کیسز بھی چل رہے ہیں، نئے تعینات ہونے والے جج کی صحیح طرح سے چھان بین کر لی جائے، ایسا نہ ہوکہ فیک اکاونٹ کیسز میں ٹرائل ہونے کے بعد پھر کوئی اور کہانی اور منظر دیکھنے کو ملے، خاص طور پر نئے تعینات ہونے والی جج کی ملتان کی طرز کی ویڈیوز ضرور دیکھ لی جائیں تاکہ وہ بعد میں اس طرح کے کسی دباوکا شکار نہ ہوں۔

نواز شریف کیخلاف تینوں ریفرنسز کی مرکزی اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں، العزیزیہ ریفرنس کی اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں 18 ستمبر کو سماعت ہونا ہے، اب کیا یہ ویڈیو نواز شریف کو فائدہ دے گی یا نہیں اس کا بھی فیصلہ ہوگا، سپریم کورٹ میں بھی فاضل جج کی مبینہ ویڈیو کے حوالے سے درخواست پر سماعت ہونی ہے اس سے بھی کافی کچھ سامنے آجائے گا، اگر ہائی کورٹ العزیزیہ میں ری ٹرائل کا حکم دے تو نواز شریف رہا ہو جائینگے اور دوبارہ سے ٹرائل کو جوائن کریں گے۔

ہائی کورٹ کے پاس آرٹیکل 199 کے تحت اختیار ہے کہ وہ اپیل پر کچھ بھی فیصلہ دے، چونکہ جج ارشد ملک کی ملتان والی ویڈیو کے علاوہ باقی ویڈیوز اور ملاقاتیں دونوں ریفرنسز کا فیصلہ ہونے کے بعد کی ہیں، پس متوقع یہی ہے کہ ہائی کورٹ ری ٹرائل کا حکم دینے کے بجائے اپیلوں کو آگے لے کر چلے گی۔میرے سینئر دوست صحافی کہتے ہیں کہ عادل دو طبقوں کی جنگ ہے، دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں، ہم کسی طرف کا حصہ نہ بنیں وگرنہ روند دیئے جائیں گے،، بس تمام منظر کو آرام و سکون سے دیکھتے جائیں،شاید سچ کہتے ہونگے وہ، مگر یہ سب کھلواڑ میرے ملک میں، معزز عدالتوں کیساتھ ہو رہا ہے تمام تر چیزیں بطور ایک عام پاکستانی میرے لیئے ندامت کا باعث ضرور ہیں، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا یہ سب گیم کا حصہ تو نہیں، مگر ابھی تو انٹرول ہے پیکچر ابھی باقی ہے میرے دوست

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :