اندھے لوگ

جمعہ 26 جولائی 2019

Adil Hussain

عادل حسین

آج کل آپ کسی سے بھی بات کریں کچھ بھی محو گفتگو ہوں، آپ کی بحث و تکرار سیاست کو ضرور چھوئے گی،اور اگرکسی کو پتہ چل جائے کہ بات کرنے والے شخص کا تعلق شعبہ صحافت سے ہے، تو ضرور پوچھا جائے گا، 'آپ کو تو سب پتہ ہوگااندر کی خبر کیا ہے' ارے بھائی ہمیں جو پتہ ہوتا ہے ہم وہی اخبار ٹی وی میں بتا دیتے ہیں، خبریں ایسی دیتے ہیں کی ٹی وی اسکرین ٹوٹنے لگ جاتی ہے، میرا مطلب ہے کہ بریکنگ چلنا شروع ہو جاتی ہے، ہماری قوم بھی کچھ ایسی ہے یہاں پر طبقات ہیں، کوئی جیالہ تو کوئی لیگی، کوئی انصافی تو کوئی جماعتی، گنتے جائیں تو ختم نہیں ہوتے، سب کی اپنی مخصوص سوچ ہے۔

اگر کوئی شخص پاکستان پیپلز پارٹی کا ورکر سپورٹر ہے، تو کچھ بھی ہوجائے وہ اپنے قائد اور پارٹی کو سپورٹ ضرور کرے گا، یہی حال ن لیگ، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے ورکرز کے ہیں۔

(جاری ہے)

اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی پارٹی کے نظریات کا علم نہیں رکھتا، ملک کا سرمایہ دار طبقہ ہم پر بر سر اقتدار ہے، پیپلز پارٹی برسوں سے ایک نعرہ لگاتی تھی، روٹی کپڑا اور مکان، مگر آج تک پاکستانی عوام کے یہی بنیادی مسائل حل نہ ہوسکے۔

 جیالوں کی جماعت سندھ کوآج تک روٹی کپڑا اور مکان نہیں دے سکی، آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے بلاول، شہید محترمہ بے نظیر اور ذلفقارعلی بھٹو فیوڈلزم سے سندھ کی عوام کو نہ نکال سکے، اندرون سندھ میں تاریکی اور جہالت کا راج ہے، لوگ وڈیروں کے ماتحت ہیں، وڈیرے کے بغیر گھر کا ذاتی مسئلہ تک نہیں حل کر سکتے،پنجاب آجائیں تو بیشتر ایک ہی جماعت نے یہاں پر حکمرانی کی، جنوبی پنجاب محرومی کا شکار ہے، عوام دو وقت کے کھانے کو ترس رہی ہے، ہمارے حکمرانوں نے کوئی ڈھنگ کا ہسپتال بھی نہیں بنایا، انہوں نے اس ملک پر حکمرانی کی مگر یہ علاج بیرون ممالک میں کروانا چاہتے، عمران خان موروثی سیاست پر لعن طعن کرتے تھے، اسی طرح تبدیلی کے سہانے خواب دیکھا کر عوام میں پذیرائی حاصل کی مگر پھر ایسی مورثی سیاست کے مرتکب بننے کہ ایک ہی خاندان کے گیارہ گیارہ افراد کو نوازنا شروع کردیا۔

 ماضی قریب کی ہی بات ہے لاہور کی میٹرو بس کو جنگلہ بس کہا جاتا تھا مگر پھر بی آر ٹی کا منصوبہ پشاور میں شروع کیا گیا جوتاحال پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا،ہم کٹر قوم ہیں، کٹر اسے کہتے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی نظریے کے آنکھیں بند کرکے حکمران طبقے کے پیچھے چل پڑے، جو بھی ہوجائے بس میری پارٹی اور میرا قائد ٹھیک ہے چاہے آسمان پھٹ پڑی یا زمین مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں، لیگی ہونگے تو بغیر سوچے سمجھے اپنی جماعت کا ایسا دفاع کرینگے کہ دنیا کو غلط مگر اپنی جماعت کو صحیح قرار دے رہے ہونگے، یہی حال جیالوں اور تحریک انصاف والوں کا ہے، بھٹو کا نعرہ ایسے لگائیں گے، کہ بندہ سوچتا
ہے کہ کہیں شہید محترم بھٹو واپس نہ اٹھ کھڑے ہو جائیں۔

تحریک انصاف والے بھی اپنے قائد کی ہر بات کو سچا باقی مانند دنیاکو جھوٹا ثابت کردیں گے، ہمارے سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز کو اپنی جماعت کا دفاع بخوبی آتا ہے، اگر ان جماعتوں کے
قائد بولے کہ کوے کا رنگ سفید ہے تو بغیر سوچے سمجھے کالے کوے کو سفید ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کرینگے، اوربظاہر اپنی تمام توانائیاں سرف کرنے کے بعد یوں محسوس کرینگے کے جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہوں مگر وہ حقیقت سے دور دور تک آشنا نہیں ہوتے، میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس کا عزیز پکا لیگی ہے اپنے قائد کی ہر بات من و عن تسلیم کرتا ہے، اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہ جانتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے قائد کو کس بات پر نا اہل کیا، اس نے کہا ہاں ضرور جانتا ہوگا، مگر جب ان کے کٹر لیگی عزیز سے دریافت کیا گیا تو ان نواز شریف کی نااہلی کی وجوہات کا علم نہ تھا، یہی حال جیالوں اور تحریک انصاف والوں کا ہے پارٹی منشور پوچھ لیں تو کوئی علم نہیں ہوتا بس ہمیں لفظی جنگ ضرورآتی ہے، وہ ہم اچھی کر لیتے ہیں، تھوڑی سی بات سیاسی کی لہر پر بھی کر لیتے ہیں ہر ضرور کر لیتے ہیں، ایک بات جو
مجھے حیران کر دیتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن جماعتیں کہتیں ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی،میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے تو کیا متحدہ مجلس عمل نے 13 نشتیں دھاندلی کرکے جیتیں؟، یا پھر جن حلقوں سے اپوزیشن جیتی ہے ان حلقوں میں دھاندلی نہیں ہوئی، صرف ان میں ہوئی ہے جہاں پر اپوزیشن ہاری ہے پس وہیں الیکشن دھاندلی زدہ ہوئے ہیں، بلاول بھٹو کا پارلیمنٹ میں متعارف کرایا گیا لفظ آجکل مریم نواز کے لب سے سننے کو ضرور ملتا ہے، مریم نواز وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہتی ہیں، یہ دعوی کرتی ہیں کہ صرف یہ حکومت "چار ووٹوں کی مار ہے" چار ووٹوں سے کبھی کبھی عمران خان کے چار حلقے کھولنے کے مطالبات ضرور یاد آجاتے ہیں، مگر اپوزیشن کے لاکھ تگ ودو کے بعد بھی یہ سردار اختر مینگل کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکے، مریم نواز سے ان کی حالیہ پیشی پر میں نے احتساب عدالت میں پوچھا کہ وزیراعظم کیلئے آپ سلیکٹڈ ٹرم استعمال کرتی ہیں، کیا یہ بتائیں گی کہ ان کو کس نے سلیکٹ کیا، جس پر مریم نواز نے لمحہ بھر کی خاموشی کی بعد جواب دیا کہ "عوام نے ان کو منتخب نہیں کیا" مریم نواز پھر تھوڑا دیر خاموش ہوئیں اور بولیں "اتنے بچے آپ بھی نہیں جو آپ کو نہ پتہ ہو کہ ان کو کس نے سلیکٹ کیا" خیر انہوں نے واضح جواب تو نہ دیا، جس نے ہمیں ضرور کشمکش میں ڈال دیا کہ ان کو کس نے سلیکٹ کیا، کیونکہ اے پی سی کے اجلاس کے بعد مریم نواز سے اسی طرح کی خبر منسوب کی جارہی تھی، جس کی انہوں نے بعد میں سختی سے تردید کی کہ میں نے ایسا نہیں کہا، ابھی بھی اگر وہ واضح کردیں کہ اسلیکشن کس نے کی تو عوام کو بات کلیئر ہو جائے گی ورنہ یہ کیا کچھ نہ سمجھیں گے۔

 ویسے ہمیں تمام اداروں کا احترام ضرور کرنا چاہیے پاکستان میں پیدا ہونے والے اس سرزمین کے وفادار ہیں، ہمیں کسی کیخلاف ہرزہ سرائی نہیں کرنی چاہیے،بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں بدلنا ہوگا، ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی، ہمیں کسی سیاسی جماعت کے پیچھے اندھے لوگوں کی طرح چلنے کے بجائے، نظریات دیکھنے ہونگے، ہمارے سیاست دانوں کوبھی ذاتی مفاد کی سیاست سے نکل کر ملکی مسائل کو حل کرنے کی طرف بڑھنا ہوگا، ہمیں پرانے چہرے کو نہیں ایشو بیسڈ سیاست کرنے والوں کو ترجیح دینا ہوگی، ہمیں کسی سیاسی جماعت کے بجائے ملکی مفاد کے بارے میں سوچنا ہوگی، ملک جس دہانے کھڑا ہے گر کوئی بھی سیاسی جماعت ہوتی اسکے یہی حالات ہوتے،معیشت بھی اسی طرح ہچکولے کھا رہی ہوتی، ہمیں اور ہمارے سیاست دانوں کو ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر ملک کی مفاد کیلئے یکجا ہونا ہوگا، سندھ کے تعلیمی حالات بہت ناقص ہیں،امتحانی مراکز میں سرعام نقل کی اور کروائی جاتی ہے، آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے بلاول سے یہ التجا ضرور ہوگی کہ وہ سندھ کہ تعلیمی نظام پر توجہ دیں، اور نہیں تو سندھ کوایک معیاری یونیورسٹی کا تحفہ ضرور دے جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :