مایوسیاں

منگل 14 جولائی 2020

Aftab Shah

آفتاب شاہ

ہوا میں اک عجب سی اکتاہٹ ہے۔جینا مشکل سا لگ رہا ہے -ہر طرف اک بیزاگی سی پھیلی ہوئی ہے ۔جیسے نظام زندگی رک سا گیا ہو۔کہیں پر ہوائی سفر کی اجازت اور کہیں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ ہر ایئرلائن نے اپنے قانون اور من چاہے کرائے مقرر کر رکھے ہیں ۔ کوئی سفر کرنا بھی چاہے تو اس قسم کی مشکلات کے سفر کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔نت نئے قانون اور قائدے نافذکیے جا رہے ہیں۔

ہر نئے آنے والے دن کے ساتھ اک نیا قانون آتا ہے۔ جو نیوز کی صورت میں محکمہ صحت کی جانب سے یا قانون نافذ کر نے والے ادارے کی جانب سے ہم پرتھوپا جاتا ہے ۔نوٹس بورڈ پر ہر روز نئی نئی حیرت زدہ کر دینے والی خبریں ہمارے  ہر روز ہوش اڑاتی ہیں۔
آج اتنے زیادہ مریض کیوں ہو گے ہیں۔کہاں پر اور کدھر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

کل سے  ہم یہ کام کریں گے ۔

ان اقدامات سے بہتری آئی تھی یا پھر  آے گی ؟ ترقی پذیر ممالک سے لے کر ترقی یافتہ ممالک تک سب کا یہی حال ہے ۔ امیر طبقے کو فکر لاحق ہے  کہ دولت روز بروز کم ہو رہی ہے اور دوسری طرف غریب کو الگ طرح کی پریشانیاں لاحق ہیں ۔ روزی و روٹی  کیسے کمائیں گے ؟غریب کو اس چیز کی فکر ستا رہی ہے ۔
درس و تدریس سے دور بچے گھروں میں قید ہیں۔ بچوں میں خوفناک قسم کی تبدیلیاں جو کہ ان کے مزاج  میں چڑچڑاپن ،برداشت کے مادے میں کمی اخلاقیات میں بگاڑ  پیدا کر رہی ہیں۔

لالچ اورحرس بڑ ھ رہی ہےجو کہ گھروں میں لڑائیوں کا سبب بن رہی ہیں ۔اس بیماری کا شکار بچوں سے لے کر بڑوں تک سب یکساں طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
میاں ،بیوی سے تنگ اور بیوی ، میاں سے تنگ اور اکتاہٹ کا شکار ہیں ۔زندگی کو روا رکھنے والی ، توام بخشنے والی ، دل مو لینے والی ہوا جیسے کہیں دور نکل گی ہو یا رک سی گی ہے ۔
غرض یہ کہ زندگی کا چراغ بوجھا دینے والی ایسی مایوسیاں پھیلائی جا رہی ہیں ۔

کہ جیسے سب ختم ہو چکا ہے ۔گواہ کل ہو نہ ہو یا آنے والا دن کیسا ہو گا؟کیسے روزی روٹی چلے گی؟
کرونا کے اہداف میں سے ایک مایوسیاں پھیلانا ،بے یقینی کی فضا پھیلانا ،فکر معاش اوراللہ تعالی کی قدرت سے یقین کم کرنا ہے ۔ بنیادی مقصد ایمان و یقین کو کمزور کرنا اور اس پر کاری ضرب لگانا ہے ۔روزی دینے والی ذات اللہ تعالی کی ہے ۔کرونا کے ہتھیاروں میں ایک اہم ہتھیار مایوسی بھی ہے۔

جس میں اسکا  پیدا کردہ کامیاب ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔لحاظہ موت کا اک دن مقرر ہے ۔ایک نہ ایک دن ہم نے اس دنیا فانی کو چھوڑ کر جانا ہے ۔رازق اللہ تعالی کی ذات ہے ۔  جو میرا اور آپ کا رب ہے ۔ اس لئے ہم ان مایوسیوں سے نکلیں ، رب تعالی کا نام پکاریں اور صبر و شکر سے کام لیں۔
یہ وقت تو کٹ جائے گا لیکن یاد رہ جانے والی بات یہ ہو گی کہ تاریخ ہمیں کن الفاظ سے یاد کرے گی ؟ اس مشکل وقت میں ہم نے کیا کیا تھا ،کیا اپنے ارد گرد موجود رشتے داروں ،ہمسایوں اور دوستوں کا خیال رکھا تھا یا پھر نہیں؟یا مایوسیاں پھیلانے میں ہم بھی دشمن کے آلہ کار تھے؟
حضرت یوسف علیہ سلام کے زمانہ میں جب قحط اور خشک سالی نے آ گھیرا ،تو قحط ، خشک سالی نے ایسا جھاڑو پھیرا کِہ  سات سال پر مشتمل قحط نے امیر اور غریب کو ایک قطار میں لا کھڑا کیا ،لیکن آپ نے ایسا حل پیش کیا کہ اپنی قوم کو اس مشکل سے نکال دیا۔

اور اس بحران پر بڑی دانائی سے قابو پایا۔
اللہ تعالی کی ذات ، وجود پر یقین ،اعتقاد اور اس کو یاد کرنا ہی ہمیں اس فتنا سے نکال سکتا ہے۔ اور ہر حال میں اسی سے  ہی مدد طلب کرنا۔اپنا اور ارد وگرد کا خیال رکھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :